حدثنا منصور بن ابي مزاحم ، حدثنا إبراهيم يعني ابن سعد . ح وحدثنا حسن الحلواني ، وعبد بن حميد ، قال: اخبرني، وقال حسن: حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، اخبرني عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد ، ان محمد بن سعد بن ابي وقاص اخبره، ان اباه سعدا ، قال: " استاذن عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعنده نساء من قريش، يكلمنه، ويستكثرنه عالية اصواتهن، فلما استاذن عمر، قمن يبتدرن الحجاب، فاذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك، فقال عمر: اضحك الله سنك يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي، فلما سمعن صوتك ابتدرن الحجاب، قال عمر: فانت يا رسول الله احق ان يهبن، ثم قال عمر: اي عدوات انفسهن اتهبنني، ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلن: نعم، انت اغلظ وافظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده، ما لقيك الشيطان قط سالكا، فجا إلا سلك فجا غير فجك ".حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي، وقَالَ حَسَنٌ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ سَعْدًا ، قَالَ: " اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ، يُكَلِّمْنَهُ، وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ، قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يَهَبْنَ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي، وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَ: نَعَمْ، أَنْتَ أَغْلَظُ وَأَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا، فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ ".
ابرا ہیم بن سعد نے صالح سے، انھوں نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے عبد الحمید بن عبد الرحمٰن بن زید نے بتا یا کہ انھیں محمد بن سعد بن ابی وقاص نے خبر دی، ان کے والد سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کی اجازت طلب کی، اس وقت قریش کی کچھ خواتین آپ کے پاس (بیٹھی) آپ سے گفتگو کر رہی تھیں، بہت بول رہی تھیں، ان کی آوازیں بھی اونچی تھیں، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ کھڑی ہو کر جلدی سے پردے میں جا نے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کو اجازت دی، آپ اس وقت ہنس رہے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعا لیٰ آپ کے دندان مبارک کو مسکراتا رکھے!اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں ان عورتوں پر حیران ہوں جو میرے پاس بیٹھی ہو ئی تھیں تمھا ری آواز سنی تو فوراً پردے میں چلی گئیں۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کا زیادہ حق ہے کہ یہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر کہنے لگے۔اپنی جان کی دشمنو!مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ان عورتوں نے کہا: ہاں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سخت اور درشت مزاج ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے!جب کبھی شیطان تمھیں کسی راستے میں چلتے ہو ئے ملتا ہے تو تمھا را راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کی اجازت طلب کی، اس وقت قریش کی کچھ خواتین آپ کے پاس (بیٹھی)آپ سے گفتگو کر رہی تھیں،بہت بول رہی تھیں،ان کی آوازیں بھی اونچی تھیں،جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ کھڑی ہو کر جلدی سے پردے میں جا نے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کو اجازت دی،آپ اس وقت ہنس رہے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعا لیٰ آپ کے دندان مبارک کو مسکراتا رکھے!اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"میں ان عورتوں پر حیران ہوں جو میرے پاس بیٹھی ہو ئی تھیں تمھا ری آواز سنی تو فوراً پردے میں چلی گئیں۔"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کا زیادہ حق ہے کہ یہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر کہنے لگے۔اپنی جان کی دشمنو!مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ان عورتوں نے کہا: ہاں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سخت اور درشت مزاج ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے!جب کبھی شیطان تمھیں کسی راستے میں چلتے ہو ئے ملتا ہے تو تمھا را راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6202
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: انت اغلظ و أفط: ہر جگہ فعل التفضیل کا صیغہ، زیادتی کے لیے استعمال نہیں ہوتا، اس لیے یہاں مراد صرف عمر کی سختی اور درشتی کا اظہار ہے کہ وہ کسی کی رعایت اور لحاظ نہیں کرتے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چشم پوشی فرما لیتے ہیں اور حضرت عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام و حمایت میں ان کے حق میں سخت الفاظ کہے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ درست راستہ اختیار کرتے تھے، شیطان ان کو راہ راست سے بھٹکا نہیں سکتا تھا۔