حدثنا حسن الحلواني ، حدثنا عمرو بن عاصم ، حدثنا همام ، عن إسحاق بن عبد الله ، عن انس ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم: " لا يدخل على احد من النساء إلا على ازواجه، إلا ام سليم، فإنه كان يدخل عليها، فقيل له في ذلك، فقال: إني ارحمها، قتل اخوها معي ".حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ عَلَى أَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِ، إِلَّا أُمِّ سُلَيْمٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يَدْخُلُ عَلَيْهَا، فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي أَرْحَمُهَا، قُتِلَ أَخُوهَا مَعِي ".
اسحاق بن عبداللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے سوا اور کسی عورت کے گھر نہیں جاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تھے، اس کے متعلق آپ سے بات کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اس پر رحم آتا ہے، اس کا بھائی میرے ساتھ (لڑتا ہوا) شہید ہوا۔"
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات اور حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا اور کسی عورت کے گھر نہیں جاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تھے،اس کے متعلق آپ سے بات کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے اس پر رحم آتا ہے،اس کا بھائی میرے ساتھ (لڑتا ہوا) شہید ہوا۔"
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں جنت میں گیا، وہاں میں نے (کسی کے چلنے کی) آہٹ پائی تو میں نے پوچھا کہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ غمیصا بنت ملحان (ام سلیم کا نام غمیصا یا رمیصا تھا) انس بن مالک کی والدہ ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں جنت میں داخل ہواتو میں نے آہٹ سنی،میں نے پوچھا،یہ کون ہے؟انہوں(فرشتوں) نے کہا،یہ انس بن مالک کی ماں"غميصاء" بنت ملحان ہے۔
محمد بن منکدر نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"مجھے جنت دکھائی گئی، میں نے وہاں ابو طلحہ کی بیوی (ام سلیم رضی اللہ عنہا) کودیکھا، پھر میں نے اپنے آگے کسی کے چلنے کی آہٹ سنی، تو وہ بلال تھے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے جنت دکھائی گئی تو میں نے ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو دیکھا،پھر میں نے اپنے آگے کھٹ پٹ سنی تو وہ بلال تھے۔"
حدثني محمد بن حاتم بن ميمون ، حدثنا بهز ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس ، قال: " مات ابن لابي طلحة من ام سليم، فقالت لاهلها: لا تحدثوا ابا طلحة بابنه حتى اكون انا احدثه، قال: فجاء فقربت إليه عشاء، فاكل وشرب، فقال: ثم تصنعت له احسن ما كان تصنع قبل ذلك، فوقع بها، فلما رات انه قد شبع واصاب منها، قالت يا ابا طلحة: ارايت لو ان قوما اعاروا عاريتهم اهل بيت، فطلبوا عاريتهم الهم ان يمنعوهم؟ قال: لا، قالت: فاحتسب ابنك، قال: فغضب، وقال: تركتني حتى تلطخت، ثم اخبرتني بابني، فانطلق حتى اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره بما كان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بارك الله لكما في غابر ليلتكما، قال: فحملت، قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر وهي معه، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتى المدينة من سفر لا يطرقها طروقا، فدنوا من المدينة، فضربها المخاض، فاحتبس عليها ابو طلحة، وانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يقول ابو طلحة: إنك لتعلم يا رب إنه يعجبني ان اخرج مع رسولك، إذا خرج وادخل معه إذا دخل، وقد احتبست بما ترى، قال: تقول ام سليم يا ابا طلحة: ما اجد الذي كنت اجد انطلق، فانطلقنا، قال: وضربها المخاض حين قدما فولدت غلاما، فقالت لي امي: يا انس لا يرضعه احد حتى تغدو به على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما اصبح احتملته، فانطلقت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فصادفته ومعه ميسم، فلما رآني، قال: لعل ام سليم ولدت، قلت: نعم فوضع الميسم، قال: وجئت به، فوضعته في حجره، ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعجوة من عجوة المدينة، فلاكها في فيه حتى ذابت، ثم قذفها في في الصبي، فجعل الصبي يتلمظها، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انظروا إلى حب الانصار التمر، قال: فمسح وجهه وسماه عبد الله.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " مَاتَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ مِنْ أُمِّ سُلَيْمٍ، فَقَالَتْ لِأَهْلِهَا: لَا تُحَدِّثُوا أَبَا طَلْحَةَ بِابْنِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا أُحَدِّثُهُ، قَالَ: فَجَاءَ فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ عَشَاءً، فَأَكَلَ وَشَرِبَ، فَقَالَ: ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَهُ أَحْسَنَ مَا كَانَ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذَلِكَ، فَوَقَعَ بِهَا، فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّهُ قَدْ شَبِعَ وَأَصَابَ مِنْهَا، قَالَتْ يَا أَبَا طَلْحَةَ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ قَوْمًا أَعَارُوا عَارِيَتَهُمْ أَهْلَ بَيْتٍ، فَطَلَبُوا عَارِيَتَهُمْ أَلَهُمْ أَنْ يَمْنَعُوهُمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَتْ: فَاحْتَسِبْ ابْنَكَ، قَالَ: فَغَضِبَ، وَقَالَ: تَرَكْتِنِي حَتَّى تَلَطَّخْتُ، ثُمَّ أَخْبَرْتِنِي بِابْنِي، فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا كَانَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا فِي غَابِرِ لَيْلَتِكُمَا، قَالَ: فَحَمَلَتْ، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَهِيَ مَعَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَى الْمَدِينَةَ مِنْ سَفَرٍ لَا يَطْرُقُهَا طُرُوقًا، فَدَنَوْا مِنْ الْمَدِينَةِ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، فَاحْتُبِسَ عَلَيْهَا أَبُو طَلْحَةَ، وَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ: إِنَّكَ لَتَعْلَمُ يَا رَبِّ إِنَّهُ يُعْجِبُنِي أَنْ أَخْرُجَ مَعَ رَسُولِكَ، إِذَا خَرَجَ وَأَدْخُلَ مَعَهُ إِذَا دَخَلَ، وَقَدِ احْتَبَسْتُ بِمَا تَرَى، قَالَ: تَقُولُ أُمُّ سُلَيْمٍ يَا أَبَا طَلْحَةَ: مَا أَجِدُ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا، قَالَ: وَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ حِينَ قَدِمَا فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالَتْ لِي أُمِّي: يَا أَنَسُ لَا يُرْضِعُهُ أَحَدٌ حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ احْتَمَلْتُهُ، فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَصَادَفْتُهُ وَمَعَهُ مِيسَمٌ، فَلَمَّا رَآنِي، قَالَ: لَعَلَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتْ، قُلْتُ: نَعَمْ فَوَضَعَ الْمِيسَمَ، قَالَ: وَجِئْتُ بِهِ، فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ، وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَجْوَةٍ مِنْ عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ، فَلَاكَهَا فِي فِيهِ حَتَّى ذَابَتْ، ثُمَّ قَذَفَهَا فِي فِي الصَّبِيِّ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْظُرُوا إِلَى حُبِّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ، قَالَ: فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ.
بہز نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا جو سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھا، فوت ہو گیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں خود نہ کہوں ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی خبر نہ کرنا۔ آخر سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو سیدہ ام سلیم شام کا کھانا سامنے لائیں۔ انہوں نے کھایا اور پیا پھر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ان کے لئے اچھی طرح بناؤ اور سنگھار کیا یہاں تک کہ انہوں نے ان سے جماع کیا۔ جب ام سلیم نے دیکھا کہ وہ سیر ہو چکے اور ان کے ساتھ صحبت بھی کر چکے تو اس وقت انہوں نے کہا کہ اے ابوطلحہ! اگر کچھ لوگ اپنی چیز کسی گھر والوں کو مانگے پر دیں، پھر اپنی چیز مانگیں تو کیا گھر والے اس کو روک سکتے ہیں؟ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں روک سکتے۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اپنے بیٹے کے عوض اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو (کیونکہ بیٹا تو فوت ہو چکا تھا)۔ یہ سن کر ابوطلحہ غصے ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے مجھے چھوڑے رکھا یہاں تک کہ میں تمہارے ساتھ آلودہ ہوا (یعنی جماع کیا) تو اب مجھے بیٹے کے متعلق خبر دے رہی ہو۔ وہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری گزری ہوئی رات میں تمہیں برکت دے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا حاملہ ہو گئیں۔ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے ام سلیم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے مدینہ میں تشریف لاتے تو رات کو مدینہ میں داخل نہ ہوتے جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم کو درد زہ شروع ہوا اور ابوطلحہ ان کے پاس ٹھہرے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ ابوطلحہ کہتے ہیں کہ اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ جب تیرا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو ساتھ میں بھی نکلوں اور جب مدینہ میں واپس داخل ہو تو میں بھی ساتھ داخل ہوں، لیکن تو جانتا ہے میں جس وجہ سے رک گیا ہوں۔ ام سلیم نے کہا کہ اے ابوطلحہ! اب میرے ویسا درد نہیں ہے جیسے پہلے تھا تو چلو۔ ہم چلے جب دونوں مدینہ میں آئے تو پھر ام سلیم کو درد شروع ہوا اور انہوں نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔ میری ماں نے کہا کہ اے انس! اس کو کوئی اس وقت تک دودھ نہ پلائے جب تک تو صبح کو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ لے جائے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بچہ کو اٹھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا میں آپ کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اونٹوں کے داغنے کا آلہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا کہ شاید ام سلیم نے لڑکے کو جنم دیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آلہ ہاتھ مبارک سے رکھ دیا اور میں بچہ کو لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بٹھا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عجوہ کھجور مدینہ کی منگوائی اور اپنے منہ مبارک میں چبائی، جب وہ گھل گئی تو بچہ کے منہ میں ڈال دی بچہ اس کو چوسنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو انصار کو کھجور سے کیسی محبت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، سیدنا ابوطلحہ ؓ کا ایک بیٹا جو سیدہ ام سلیم ؓ کے بطن سے تھا، فوت ہو گیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں خود نہ کہوں ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی خبر نہ کرنا۔ آخر سیدنا ابوطلحہ ؓ آئے تو سیدہ ام سلیم شام کا کھانا سامنے لائیں۔ انہوں نے کھایا اور پیا پھر ام سلیم ؓ نے ان کے لئے اچھی طرح بناؤ اور سنگھار کیا یہاں تک کہ انہوں نے ان سے جماع کیا۔ جب ام سلیم نے دیکھا کہ وہ سیر ہو چکے اور ان کے ساتھ صحبت بھی کر چکے تو اس وقت انہوں نے کہا کہ اے ابوطلحہ! اگر کچھ لوگ اپنی چیز کسی گھر والوں کو مانگے پر دیں، پھر اپنی چیز مانگیں تو کیا گھر والے اس کو روک سکتے ہیں؟ سیدنا ابوطلحہ ؓ نے کہا کہ نہیں روک سکتے۔ سیدہ ام سلیم ؓ نے کہا کہ اپنے بیٹے کے عوض اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو (کیونکہ بیٹا تو فوت ہو چکا تھا)۔ یہ سن کر ابوطلحہ غصے ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے مجھے چھوڑے رکھا یہاں تک کہ میں تمہارے ساتھ آلودہ ہوا (یعنی جماع کیا) تو اب مجھے بیٹے کے متعلق خبر دے رہی ہو۔ وہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری گزری ہوئی رات میں تمہیں برکت دے۔ ام سلیم ؓ حاملہ ہو گئیں۔ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے ام سلیم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے مدینہ میں تشریف لاتے تو رات کو مدینہ میں داخل نہ ہوتے جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم کو درد زہ شروع ہوا اور ابوطلحہ ان کے پاس ٹھہرے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ ابوطلحہ کہتے ہیں کہ اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ جب تیرا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو ساتھ میں بھی نکلوں اور جب مدینہ میں واپس داخل ہو تو میں بھی ساتھ داخل ہوں، لیکن تو جانتا ہے میں جس وجہ سے رک گیا ہوں۔ ام سلیم نے کہا کہ اے ابوطلحہ! اب میرے ویسا درد نہیں ہے جیسے پہلے تھا تو چلو۔ ہم چلے جب دونوں مدینہ میں آئے تو پھر ام سلیم کو درد شروع ہوا اور انہوں نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔ میری ماں نے کہا کہ اے انس! اس کو کوئی اس وقت تک دودھ نہ پلائے جب تک تو صبح کو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ لے جائے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بچہ کو اٹھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا میں آپ کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اونٹوں کے داغنے کا آلہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا کہ شاید ام سلیم نے لڑکے کو جنم دیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آلہ ہاتھ مبارک سے رکھ دیا اور میں بچہ کو لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بٹھا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عجوہ کھجور مدینہ کی منگوائی اور اپنے منہ مبارک میں چبائی، جب وہ گھل گئی تو بچہ کے منہ میں ڈال دی بچہ اس کو چوسنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو انصار کو کھجور سے کیسی محبت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
عمرو بن عاص نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں ثابت نے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ فوت ہوگیا، اور اسی کے مانند حدیث بیان کی۔
امام صاحب کو ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ اے بلال! مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہے اور جس کے فائدے کی تجھے بہت امید ہے، کیونکہ میں نے آج کی رات تیری جوتیوں کی آواز اپنے سامنے جنت میں سنی ہے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اسلام میں کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس کے نفع کی امید بہت ہو۔ سوا اس کے کہ رات یا دن میں کسی بھی وقت جب پورا وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے نماز پڑھتا ہوں جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں لکھی ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ اے بلال! مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہے اور جس کے فائدے کی تجھے بہت امید ہے، کیونکہ میں نے آج کی رات تیری جوتیوں کی آواز اپنے سامنے جنت میں سنی ہے۔ سیدنا بلال ؓ نے کہا کہ میں نے اسلام میں کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس کے نفع کی امید بہت ہو۔ سوا اس کے کہ رات یا دن میں کسی بھی وقت جب پورا وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے نماز پڑھتا ہوں جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں لکھی ہوتی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: جب یہ آیت نازل ہو ئی: " جو لوگ ایمان لا ئے اور نیک اعمال کیے ان پر انھوں نے کھا یا پیا اس میں کوئی گناہ نہیں جبکہ وہ تقویٰ پر تھے اور ایمان لے آئے تھے "آیت کے آخر تک۔ (تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: " مجھے بتا یا گیا ہے کہ تم بھی انھی میں سے ہو۔"
حضرت عبداللہ(بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کر تے ہیں،جب یہ آیت اتری،"ان لوگوں پر سے،جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے،کوئی گناہ نہیں ہے،اس سلسلہ میں جوانہوں نے کھایاپیا،جبکہ انہوں نے پرہیزگاری اختیار کی اور وہ ایمان لائے،(مائدہ آیت نمبر 93)آخر تک مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے بتایاگیاہے کہ تو(عبداللہ) ان میں سے ہے۔"
ابو زائدہ نے ابو اسحٰق سے، انھوں نے اسود بن یزید سے، انھوں نے حضرت موسی (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں اور میرا بھا ئی یمن سے آئے تو کچھ عرصہ ہم حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بکثرت آنے جانے اور آپ کے ساتھ لگے رہنے کی وجہ سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے سمجھتے تھے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں اور میرا یمن سے آئے تو کچھ عرصہ ہم یہ سمجھتے رہے کہ ابن مسعود اور اس کی والدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد ہیں،کیونکہ وہ کثرت کے ساتھ آپ کے گھر جاتےتھے اور آپ کے ساتھ رہتے تھے۔
یو سف نے ابو اسحاق سے روایت کی کہ انھوں نے اسود کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: میں اور میرا بھائی یمن سے آئے، پھر اسی کے مانند بیان کی۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں اور میرا بھائی یمن سے آئے،آگے مذکورہ بالاحدیث ہے۔
سفیان نے ابو اسحٰق سے، انھوں نے اسود سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور میں یہ سمجھتا تھا کہ حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ اہل بیت میں سے ہیں یا انھوں نے اسی طرح (کے الفا ظ میں) بیان کیا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور میں یہ سمجھتا تھاکہ عبداللہ(ابن مسعود) اہل بیت کا ایک فرد ہے یا اس قسم کے جو الفاظ انہوں نے بیان کیے۔