Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
19. باب مِنْ فَضَائِلِ أُمِّ سُلَيْمٍ أُمِّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَبِلاَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:
باب: سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی ماں سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6321
حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُرِيتُ الْجَنَّةَ، فَرَأَيْتُ امْرَأَةَ أَبِي طَلْحَةَ، ثُمَّ سَمِعْتُ خَشْخَشَةً أَمَامِي، فَإِذَا بِلَالٌ ".
محمد بن منکدر نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"مجھے جنت دکھائی گئی، میں نے وہاں ابو طلحہ کی بیوی (ام سلیم رضی اللہ عنہا) کودیکھا، پھر میں نے اپنے آگے کسی کے چلنے کی آہٹ سنی، تو وہ بلال تھے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے جنت دکھائی گئی تو میں نے ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو دیکھا،پھر میں نے اپنے آگے کھٹ پٹ سنی تو وہ بلال تھے۔"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6321 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6321  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض دفعہ خادم اپنے آقا کے آگے آگے چلتا ہے اور جوتوں کی کھٹ پٹ پیچھے چلنے کی صورت میں بھی آگے سنائی دے سکتی ہے اور بلال کے جنت میں جانے کو ان کی زندگی میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمثیلا دکھا دیا گیا اور اس کا سبب ان کا اذان کے بعد دو رکعت پڑھنا اور ہر وضو کے بعد دو رکعت پڑھنے کی پابندی کو قرار دیا گیا ہے اور وضو کے بعد دو رکعت پڑھنے کی فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،
اس طرح اذان کے بعد نماز ثابت ہے،
اس لیے یہ استدلال کرنا کہ اپنے اجتہاد سے کسی عبادت کا وقت مقرر کرنا جائز ہے،
اور بلال نے دخول جنت کا یہ مرتبہ اپنے اجتہاد اور استنباط سے حاصل کیا،
درست نہیں ہے اور اس سے اذان سے پہلے صلوٰۃ و سلام پڑھنے،
میلاد منانے اور تیجا،
ساتواں اور چالیسواں مقرر کرنے پر استدلال کرنا بنائے فاسد علی فاسد ہے،
کیونکہ ان چیزوں کو دین بنا دیا گیا ہے اور ان کی تلقین کی جاتی ہے،
جبکہ حضرت بلال یہ کام شخصی طور پر کرتے تھے،
دوسروں کو تلقین نہیں کرتے تھے،
اس طرح حضرت کلثوم بن ہدم انصاری نماز کی ہر رکعت میں سورہ اخلاص اپنے طور پر پڑھتے تھے،
دوسروں کو اس کی تلقین یا اپنے اس فعل کی تشہیر نہیں کرتے تھے،
کسی کام کو دین بنانا اور چیز ہے اور اپنے طور پر کسی عمل سے محبت کرتے ہوئے شرعی حدود میں رہتے ہوئے اس کی پابندی کرنا اور چیز ہے،
اگر اپنے طور پر کسی نیک عمل کے لیے وقت کی تعیین اور تحدید جائز ہے تو آپ نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے کیوں منع فرمایا اور بعض صحابہ نے سلام پھیرنے کے بعد ہمیشہ دائیں طرف مڑنے سے کیوں روکا،
نیز ام سلیم اور بلال کو جنت میں دیکھنے کا موقعہ خواب میں پیش آیا تھا،
اس لیے اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت بلال اور ام سلیم زندگی میں ہی جسد عنصری کے ساتھ جنت میں پہنچ گئے تھے۔
علامہ سعیدی ایک طرف تو درودوسلام اذان سے پہلے پڑھنا جائز اور باعث اجر قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف لکھتے ہیں ہاں ان امور کے ساتھ فرض اور واجب کا معاملہ کرنا اور نہ کرنے والوں کو برا جاننا اور ان کو ملامت کرنا بدعت سیئہ اور بدعت ضلالہ ہے جو مسلمان اتباع سنت کے جذبہ سے اذان سے پہلے یا بعد جہرا صلاۃ و سلام نہیں پڑھتے کہ عہد رسالت اور عہد صحابہ میں یہ معمول نہیں تھا ان کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔
(شرح صحیح مسلم ج 4 ص 1115)
تو جب ضرورت کے باوجود عہد رسالت اور عہد صحابہ میں نہیں ہوا حالانکہ کوئی مانع اور رکاوٹ موجود نہیں تھی وہ جائز اور باعث اجر کیسے ہو گا بدعت سیئہ اور بدعت ضلالہ کیوں نہیں ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6321