صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
The Book of Virtues
حدیث نمبر: 6158
Save to word اعراب
وحدثنا علي بن خشرم ، اخبرنا عيسى يعني ابن يونس . ح وحدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا جرير كلاهما، عن سليمان التيمي ، عن انس . ح وحدثناه ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبدة بن سليمان ، عن سفيان ، عن سليمان التيمي ، سمعت انسا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مررت على موسى وهو يصلي في قبره "، وزاد في حديث عيسى: مررت ليلة اسري بي.وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ كِلَاهُمَا، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسٍ . ح وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ "، وَزَادَ فِي حَدِيثِ عِيسَى: مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي.
‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام پر میرا گزر ہوا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اور عیسیٰ کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ معراج کی رات میرا گزر ہوا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
43. باب فِي ذِكْرِ يُونُسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى» :
43. باب: سیدنا یونس علیہ السلام کا بیان اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ یوں کہے میں یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہوں“۔
Chapter: Yunus, Peace Be Upon Him, And The Words Of The Prophet (SAW): "No One Should Say: I Am Better Than Yunus Bin Matta."
حدیث نمبر: 6159
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار ، قالوا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، قال: سمعت حميد بن عبد الرحمن ، يحدث، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال يعني الله تبارك وتعالى: لا ينبغي لعبد لي، وقال ابن المثنى: " لعبدي ان يقول: انا خير من يونس بن متى عليه السلام، قال ابن ابي شيبة محمد بن جعفر، عن شعبة.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ يَعْنِي اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ لِي، وقَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: " لِعَبْدِي أَنْ يَقُولَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ.
ابو بکر بن ابی شیبہ محمد بن مثنیٰ اور محمد بن بشار نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں شعبہ نے سعد بن ابرا ہیم سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے حمید بن عبد الرحمٰن کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہو ئے سنا، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ "اس نے فرمایا:۔یعنی اللہ تبارک وتعا لیٰ نے۔۔۔کسی بندے کو جو میرا ہے۔۔۔ابن مثنیٰ نے کہا: میرے کسی بندے کو۔۔۔نہیں چا ہیے کہ وہ کہے: میں یو نس بن متیٰ علیہ السلام سے بہتر ہوں۔"ابن ابی شیبہ نے کہا: محمد بن جعفر نے شعبہ سے روایت کی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"اللہ تبارک وتعالیٰ کافرمان ہے،میرے کسی بندہ کے لیے زیبا نہیں ہے،ابن المثنیٰ کی روایت میں لعبد کی جگہ عبدی ہے کہ وہ یوں کہے،میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6160
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، قال: سمعت ابا العالية ، يقول: حدثني ابن عم نبيكم صلى الله عليه وسلم يعني ابن عباس ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ما ينبغي لعبد ان يقول: انا خير من يونس بن متى "، ونسبه إلى ابيه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَمِّ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ ، عنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى "، وَنَسَبَهُ إِلَى أَبِيهِ.
قتادہ سے روایت ہے کہا: میں نے ابو العالیہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " کسی بندے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کہے: میں یو نس بن متیٰ علیہ السلام سے افضل ہوں۔"آپ نے ان کے والد کی نسبت سے ان کا نام لیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:" کسی بندے کے لیے زیبا نہیں ہے کہ وہ یہ کہے،میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔"آپ نے ان کی نسبت،اس کے باپ کی طرف کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
44. باب مِنْ فَضَائِلِ يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ:
44. باب: سیدنا یوسف علیہ السلام کی بزرگی کا بیان۔
Chapter: The Virtues Of Yusuf, Peace Be Upon Him
حدیث نمبر: 6161
Save to word اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، ومحمد بن المثنى ، وعبيد الله بن سعيد ، قالوا: حدثنا يحيي بن سعيد ، عن عبيد الله ، اخبرني سعيد بن ابي سعيد ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قيل: يا رسول الله، " من اكرم الناس، قال: اتقاهم، قالوا: ليس عن هذا نسالك؟ قال: فيوسف نبي الله، ابن نبي الله، ابن نبي الله، ابن خليل الله، قالوا: ليس عن هذا نسالك؟ قال: فعن معادن العرب تسالوني؟ خيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام، إذا فقهوا ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، " مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ، قَالَ: أَتْقَاهُمْ، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ؟ قَالَ: فَيُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ، ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ، ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ، ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ؟ قَالَ: فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي؟ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ، إِذَا فَقُهُوا ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! لو گوں میں سب سے زیادہ کریم (معزز) کو ن ہے؟آپ نے فرمایا: " جو ان میں سب سے زیادہ متقی ہو۔" صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: ہم اس کے متعلق آپ سے نہیں پوچھ رہے۔آپ نے فرمایا: " تو (پھر سب سے بڑھ کر کریم) اللہ کے نبی حضرت یوسف علیہ السلام ہیں اللہ کے نبی کے بیٹے ہیں وہ (ان کے والد) بھی اللہ کے نبی کے بیٹے ہیں اور وہ اللہ کے خلیل (حضرت ابرا ہیم علیہ السلام) کے بیٹے ہیں۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: ہم اس کے بارے میں بھی آپ سے نہیں پو چھ رہے۔آپ نے فرما یا: " پھر تم قبائل عرب کے حسب و نسب کے بارے میں مجھ سے پو چھ رہے ہو۔؟جو لوگ جاہلیت میں اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں اگر دین کو سمجھ لیں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لو گوں میں سب سے زیادہ کریم (معزز) کو ن ہے؟آپ نے فر یا:" جو ان میں سب سے زیادہ متقی ہو۔" صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: ہم اس کے متعلق آپ سے نہیں پوچھ رہے۔آپ نے فر یا:" تو (پھر سب سے بڑھ کر کریم) اللہ کے نبی حضرت یوسف ؑ ہیں اللہ کے نبی کے بیٹے ہیں وہ (ان کے والد) بھی اللہ کے نبی کے بیٹے ہیں اور وہ اللہ کے خلیل (حضرت ابرا ہیم ؑ) کے بیٹے ہیں۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: ہم اس کے بارے میں بھی آپ سے نہیں پو چھ رہے۔آپ نے فر یا:" پھر تم قبائل عرب کے حسب و نسب کے بارے میں مجھ سے پو چھ رہے ہو۔؟جو لوگ جاہلیت میں اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں اگر دین کو سمجھ لیں۔"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
45. باب مِنْ فَضَائِلِ زَكَرِيَّاءَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ:
45. باب: سیدنا زکریا علیہ السلام کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: The Virtues Of Zakariyya, Peace Be Upon Him
حدیث نمبر: 6162
Save to word اعراب
حدثنا هداب بن خالد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن ابي رافع ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " كان زكرياء نجارا ".حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَانَ زَكَرِيَّاءُ نَجَّارًا ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " حضرت زکریا صلی اللہ علیہ وسلم (پیشے کے اعتبار سے) بڑھئی تھے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"زکریا ؑ بڑھئی،ترکھان تھے۔"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
46. باب مِنْ فَضَائِلِ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ:
46. باب: سیدنا خضر علیہ السلام کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: The Virtues Of Al-Khadir, Peace Be Upon Him
حدیث نمبر: 6163
Save to word اعراب
حدثنا عمرو بن محمد الناقد ، وإسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، وعبيد الله بن سعيد ، ومحمد بن ابي عمر المكي كلهم، عن ابن عيينة واللفظ لابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، حدثنا عمرو بن دينار ، عن سعيد بن جبير ، قال: قلت لابن عباس : إن نوفا البكالي، يزعم ان موسى عليه السلام، صاحب بني إسرائيل، ليس هو موسى، صاحب الخضر عليه السلام، فقال: كذب عدو الله، سمعت ابي بن كعب ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " قام موسى عليه السلام، خطيبا في بني إسرائيل، فسئل اي الناس اعلم؟ فقال: انا اعلم، قال: فعتب الله عليه، إذ لم يرد العلم إليه، فاوحى الله إليه، ان عبدا من عبادي بمجمع البحرين، هو اعلم منك، قال موسى: اي رب، كيف لي به؟ فقيل له: احمل حوتا في مكتل، فحيث تفقد الحوت فهو ثم فانطلق، وانطلق معه فتاه، وهو يوشع بن نون، فحمل موسى عليه السلام، حوتا في مكتل، وانطلق هو وفتاه يمشيان، حتى اتيا الصخرة، فرقد موسى عليه السلام، وفتاه، فاضطرب الحوت في المكتل، حتى خرج من المكتل، فسقط في البحر، قال: وامسك الله عنه جرية الماء، حتى كان مثل الطاق، فكان للحوت سربا، وكان لموسى وفتاه عجبا، فانطلقا بقية يومهما، وليلتهما، ونسي صاحب موسى ان يخبره، فلما اصبح موسى عليه السلام، قال لفتاه: آتنا غداءنا، لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، قال: ولم ينصب، حتى جاوز المكان الذي امر به، قال: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت الحوت، وما انسانيه، إلا الشيطان ان اذكره، واتخذ سبيله في البحر عجبا، قال موسى: ذلك ما كنا نبغ، فارتدا على آثارهما قصصا، قال: يقصان آثارهما، حتى اتيا الصخرة، فراى رجلا مسجى عليه بثوب، فسلم عليه موسى، فقال له الخضر: انى بارضك السلام، قال: انا موسى، قال موسى: بني إسرائيل، قال: نعم، قال: إنك على علم من علم الله، علمكه الله، لا اعلمه، وانا على علم من علم الله، علمنيه، لا تعلمه، قال له موسى عليه السلام: هل اتبعك على ان تعلمني مما علمت رشدا؟ قال: إنك لن تستطيع معي صبرا، وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا، قال ستجدني إن شاء الله صابرا، ولا اعصي لك امرا، قال له الخضر: فإن اتبعتني، فلا تسالني عن شيء، حتى احدث لك منه ذكرا، قال: نعم، فانطلق الخضر، وموسى يمشيان على ساحل البحر، فمرت بهما سفينة، فكلماهم ان يحملوهما، فعرفوا الخضر، فحملوهما بغير نول، فعمد الخضر إلى لوح من الواح السفينة، فنزعه، فقال له موسى: قوم حملونا بغير نول، عمدت إلى سفينتهم، فخرقتها لتغرق اهلها، لقد جئت شيئا إمرا، قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا، قال: لا تؤاخذني بما نسيت، ولا ترهقني من امري عسرا، ثم خرجا من السفينة، فبينما هما يمشيان على الساحل، إذا غلام يلعب مع الغلمان، فاخذ الخضر براسه، فاقتلعه بيده، فقتله، فقال موسى: اقتلت نفسا زاكية بغير نفس، لقد جئت شيئا نكرا، قال: الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا، قال: وهذه اشد من الاولى، قال: إن سالتك عن شيء بعدها، فلا تصاحبني، قد بلغت من لدني عذرا، فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية، استطعما اهلها، فابوا ان يضيفوهما، فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض، فاقامه يقول مائل، قال الخضر بيده هكذا فاقامه، قال له موسى: قوم اتيناهم فلم يضيفونا، ولم يطعمونا لو شئت لتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك سانبئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يرحم الله موسى لوددت انه كان صبر حتى يقص علينا من اخبارهما، قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كانت الاولى من موسى نسيانا، قال: وجاء عصفور حتى وقع على حرف السفينة ثم نقر في البحر، فقال له الخضر: ما نقص علمي وعلمك من علم الله، إلا مثل ما نقص هذا العصفور من البحر "، قال سعيد بن جبير: وكان يقرا وكان امامهم ملك ياخذ كل سفينة صالحة غصبا، وكان يقرا، واما الغلام فكان كافرا.
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ كُلُّهُمْ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ : إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ، يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ، لَيْسَ هُوَ مُوسَى، صَاحِبَ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " قَامَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، قَالَ: فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ، إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ، أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ، هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ مُوسَى: أَيْ رَبِّ، كَيْفَ لِي بِهِ؟ فَقِيلَ لَهُ: احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ، وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ، وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ، فَحَمَلَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، وَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ، حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، فَرَقَدَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، وَفَتَاهُ، فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ، حَتَّى خَرَجَ مِنَ الْمِكْتَلِ، فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ، قَالَ: وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَاءِ، حَتَّى كَانَ مِثْلَ الطَّاقِ، فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا، وَلَيْلَتِهِمَا، وَنَسِيَ صَاحِبُ مُوسَى أَنْ يُخْبِرَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا، لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ: وَلَمْ يَنْصَبْ، حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، وَمَا أَنْسَانِيهُ، إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا، قَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، قَالَ: يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا، حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، فَرَأَى رَجُلًا مُسَجًّى عَلَيْهِ بِثَوْبٍ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ: أَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، عَلَّمَكَهُ اللَّهُ، لَا أَعْلَمُهُ، وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، عَلَّمَنِيهِ، لَا تَعْلَمُهُ، قَالَ لَهُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا؟ قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا، قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا، وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، قَالَ لَهُ الْخَضِرُ: فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي، فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ، حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا، قَالَ: نَعَمْ، فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ، وَمُوسَى يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ، فَكَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا، فَعَرَفُوا الْخَضِرَ، فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ، فَنَزَعَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ، فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا، ثُمَّ خَرَجَا مِنَ السَّفِينَةِ، فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ، إِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ، فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ، فَقَتَلَهُ، فَقَالَ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاكِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، قَالَ: وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنَ الْأُولَى، قَالَ: إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا، فَلَا تُصَاحِبْنِي، قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا، فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ، اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا، فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ، فَأَقَامَهُ يَقُولُ مَائِلٌ، قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَكَذَا فَأَقَامَهُ، قَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا، وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَتَخِذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْتُ أَنَّهُ كَانَ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا، قَالَ: وَجَاءَ عُصْفُورٌ حَتَّى وَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ: مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنَ الْبَحْرِ "، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: وَكَانَ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا، وَكَانَ يَقْرَأُ، وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا.
عمرو بن محمد ناقد، اسحاق بن ابراہیم حنظلی، عبیداللہ بن سعید اور محمد بن ابی عمر مکی، ان سب نے ہمیں ابن عیینہ سے حدیث بیان کی۔الفاظ ابن ابی عمر کے ہیں۔سفیان بن عیینہ نے کہا: ہمیں عمرو بن دینار نے سعید بن جبیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، وہ اور ہیں اور جو موسیٰ خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ اور ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے، ان سے پوچھا گیا کہ سب لوگوں میں زیادہ علم کس کو ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہے (یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر اس وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے ملاپ پر میرا ایک بندہ ہے، وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے پروردگار! میں اس سے کیسے ملوں؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل (ٹوکرے) میں رکھ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے، وہیں وہ بندہ ملے گا۔ یہ سن کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھی یوشع بن نون علیہ السلام کو ساتھ لے کر چلے اور انہوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ دونوں چلتے چلتے صخرہ (ایک مقام ہے) کے پاس پہنچے تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی سو گئے۔ مچھلی تڑپی یہاں تک کہ زنبیل سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہنا اس پر سے روک دیا، یہاں تک کہ پانی کھڑا ہو کر طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لئے تعجب ہوا پھر دونوں چلے دن بھر اور رات بھر اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی مچھلی کا حال ان سے کہنا بھول گئے جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں اور تھکاوٹ اسی وقت ہوئی جب اس جگہ سے آگے بڑھے جہاں جانے کا حکم ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم (مقام) صخرہ پر اترے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے مجھے بھلایا اور تعجب ہے کہ اس مچھلی نے دریا میں جانے کی راہ لی۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم تو اسی مقام کو ڈھونڈھتے تھے، پھر دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے یہاں تک کہ صخرہ پر پہنچے۔ وہاں ایک شخص کو کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک میں سلام کہاں سے ہے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ سیدنا موسیٰ نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے وہ علم دیا ہے جو میں نہیں جانتا۔ اور مجھے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ مجھے وہ علم سکھلاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے اور تم سے اس بات پر کیسے صبر ہو سکے گا جس کو تم نہیں جانتے ہو۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ اچھا اگر میرے ساتھ ہوتے ہو تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بہت اچھا۔ پس خضر علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام دونوں سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک کشتی سامنے سے نکلی، دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، انہوں نے سیدنا خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر کرایہ چڑھا لیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ کے چڑھایا اور تم نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ کشتی والوں کو ڈبو دو، یہ تم نے بڑا بھاری کام کیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نہیں کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بھول چوک پر مت پکڑو اور مجھ پر تنگی مت کرو۔ پھر دونوں کشتی سے باہر نکلے اور سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اکھیڑ لیا اور مار ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم نے ایک بےگناہ کو ناحق مار ڈالا، یہ تو بہت برا کام کیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نہ کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ اور یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اب میں تم سے کسی بات پر اعتراض کروں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا بیشک تمہارا اعتراض بجا ہو گا۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں میں پہنچے، گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کیا، پھر ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی اور جھک گئی تھی، سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان گاؤں والوں سے ہم نے کھانا مانگا اور انہوں نے انکار کیا اور کھانا نہ کھلایا (ایسے لوگوں کا کام مفت کرنا کیا ضروری تھا؟) اگر تم چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ بس، اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، اب میں تم سے ان باتوں کا مطلب کہے دیتا ہوں جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے، مجھے آرزو ہے کہ کاش وہ صبر کرتے اور ہمیں ان کی اور باتیں معلوم ہوتیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی بات سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھولے سے کی۔ پھر ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھی اور اس نے سمندر میں چونچ ڈالی، سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ میں نے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا ہی علم سیکھا ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں سے پانی کم کیا ہے۔ سیدنا سعید بن جبیر نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس طرح پڑھتے تھے کہ ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ثابت کشتی کو ناحق جبر سے چھین لیتا تھا اور پڑھتے تھے کہ وہ لڑکا کافر تھا۔
حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،میں نے سیدنا ابن عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰ ؑ جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، وہ اور ہیں اور جو موسیٰ خضر ؑ کے پاس گئے تھے وہ اور ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں نے سیدنا ابی بن کعب ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ سیدنا موسیٰ ؑ اپنی قوم بنی اسرائیل پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے، ان سے پوچھا گیا کہ سب لوگوں میں زیادہ علم کس کو ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہے (یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر اس وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے ملاپ پر میرا ایک بندہ ہے، وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے سیدنا موسیٰ ؑ نے عرض کیا کہ اے پروردگار! میں اس سے کیسے ملوں؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل (ٹوکرے) میں رکھ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے، وہیں وہ بندہ ملے گا۔ یہ سن کر سیدنا موسیٰ ؑ اپنے ساتھی یوشع بن نون ؑ کو ساتھ لے کر چلے اور انہوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ دونوں چلتے چلتے صخرہ (ایک مقام ہے) کے پاس پہنچے تو سیدنا موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی سو گئے۔ مچھلی تڑپی یہاں تک کہ زنبیل سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہنا اس پر سے روک دیا، یہاں تک کہ پانی کھڑا ہو کر طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ سیدنا موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی کے لئے تعجب ہوا پھر دونوں چلے دن بھر اور رات بھر اور موسیٰ ؑ کے ساتھی مچھلی کا حال ان سے کہنا بھول گئے جب صبح ہوئی تو موسیٰ ؑ نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں اور تھکاوٹ اسی وقت ہوئی جب اس جگہ سے آگے بڑھے جہاں جانے کا حکم ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم (مقام) صخرہ پر اترے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے مجھے بھلایا اور تعجب ہے کہ اس مچھلی نے دریا میں جانے کی راہ لی۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ ہم تو اسی مقام کو ڈھونڈھتے تھے، پھر دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے یہاں تک کہ صخرہ پر پہنچے۔ وہاں ایک شخص کو کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا تو سیدنا موسیٰ ؑ نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک میں سلام کہاں سے ہے؟ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ سیدنا موسیٰ نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے وہ علم دیا ہے جو میں نہیں جانتا۔ اور مجھے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ مجھے وہ علم سکھلاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے اور تم سے اس بات پر کیسے صبر ہو سکے گا جس کو تم نہیں جانتے ہو۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ اچھا اگر میرے ساتھ ہوتے ہو تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ بہت اچھا۔ پس خضر ؑ اور سیدنا موسیٰ ؑ دونوں سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک کشتی سامنے سے نکلی، دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، انہوں نے سیدنا خضر ؑ کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر کرایہ چڑھا لیا۔ سیدنا خضر ؑ نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ کے چڑھایا اور تم نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ کشتی والوں کو ڈبو دو، یہ تم نے بڑا بھاری کام کیا۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ کیا میں نہیں کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ بھول چوک پر مت پکڑو اور مجھ پر تنگی مت کرو۔ پھر دونوں کشتی سے باہر نکلے اور سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، سیدنا خضر ؑ نے اس کا سر پکڑ کر اکھیڑ لیا اور مار ڈالا۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ تم نے ایک بےگناہ کو ناحق مار ڈالا، یہ تو بہت برا کام کیا۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ کیا میں نہ کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ اور یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ اب میں تم سے کسی بات پر اعتراض کروں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا بیشک تمہارا اعتراض بجا ہو گا۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں میں پہنچے، گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کیا، پھر ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی اور جھک گئی تھی، سیدنا خضر ؑ نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ ان گاؤں والوں سے ہم نے کھانا مانگا اور انہوں نے انکار کیا اور کھانا نہ کھلایا (ایسے لوگوں کا کام مفت کرنا کیا ضروری تھا؟) اگر تم چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ بس، اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، اب میں تم سے ان باتوں کا مطلب کہے دیتا ہوں جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ پر رحم کرے، مجھے آرزو ہے کہ کاش وہ صبر کرتے اور ہمیں ان کی اور باتیں معلوم ہوتیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی بات سیدنا موسیٰ ؑ نے بھولے سے کی۔ پھر ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھی اور اس نے سمندر میں چونچ ڈالی، سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ میں نے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا ہی علم سیکھا ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں سے پانی کم کیا ہے۔ سیدنا سعید بن جبیر نے کہا کہ سیدنا ابن عباس ؓ اس طرح پڑھتے تھے کہ ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ثابت کشتی کو ناحق جبر سے چھین لیتا تھا اور پڑھتے تھے کہ وہ لڑکا کافر تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6164
Save to word اعراب
حدثني محمد بن عبد الاعلى القيسي ، حدثنا المعتمر بن سليمان التيمي ، عن ابيه ، عن رقبة ، عن ابي إسحاق ، عن سعيد بن جبير ، قال: قيل لابن عباس : إن نوفا يزعم ان موسى الذي ذهب يلتمس العلم، ليس بموسى بني إسرائيل، قال: اسمعته يا سعيد؟ قلت: نعم، قال: كذب نوف.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَقَبَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ : إِنَّ نَوْفًا يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى الَّذِي ذَهَبَ يَلْتَمِسُ الْعِلْمَ، لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: أَسَمِعْتَهُ يَا سَعِيدُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: كَذَبَ نَوْفٌ.
۔ معتمر کے والد سلیمان تیمی نے رقبہ سے، انھوں نے ابو اسحق سے انھوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی، کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ نوف سمجھتا ہے۔کہ جو موسیٰ علیہ السلام علم کے حصول کے لئے گئے تھے وہ بنی اسرائیل کے موسیٰ علیہ السلام نہ تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: سعید!کیا آپ نے خود اس سے سنا ہے؟میں نے کہا: جی ہاں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: نوف نے جھوٹ کہا۔
سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ نوف سمجھتا ہے۔کہ جو موسیٰ ؑ علم کے حصول کے لئے گئے تھے وہ بنی اسرائیل کے موسیٰ ؑ نہ تھے،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:سعید!کیا آپ نے خود اس سے سنا ہے؟میں نے کہا:جی ہاں،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:نوف نے جھوٹ کہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6165
Save to word اعراب
حدثنا ابي بن كعب ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إنه بينما موسى عليه السلام في قومه يذكرهم بايام الله، وايام الله نعماؤه وبلاؤه، إذ قال: ما اعلم في الارض رجلا خيرا واعلم مني، قال: فاوحى الله إليه إني اعلم بالخير منه، او عند من هو إن في الارض رجلا هو اعلم منك، قال: يا رب فدلني عليه، قال: فقيل له: تزود حوتا مالحا فإنه حيث تفقد الحوت، قال: فانطلق هو وفتاه حتى انتهيا إلى الصخرة، فعمي عليه فانطلق وترك فتاه، فاضطرب الحوت في الماء فجعل لا يلتئم عليه، صار مثل الكوة، قال: فقال فتاه: الا الحق نبي الله فاخبره، قال: فنسي، فلما تجاوزا، قال لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، قال: ولم يصبهم نصب حتى تجاوزا، قال: فتذكر، قال: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، واتخذ سبيله في البحر عجبا، قال: ذلك ما كنا نبغي فارتدا على آثارهما قصصا، فاراه مكان الحوت، قال: هاهنا وصف لي، قال: فذهب يلتمس فإذا هو بالخضر، مسجى ثوبا مستلقيا على القفا، او قال: على حلاوة القفا، قال: السلام عليكم فكشف الثوب عن وجهه، قال: وعليكم السلام، من انت؟ قال: انا موسى، قال: ومن موسى؟ قال: موسى بني إسرائيل، قال مجيء: ما جاء بك؟ قال: جئت تعلمن مما علمت رشدا {66} قال إنك لن تستطيع معي صبرا {67} وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا {68} سورة الكهف آية 66-68 شيء امرت به ان افعله إذا رايته لم تصبر قال ستجدني إن شاء الله صابرا ولا اعصي لك امرا {69} قال فإن اتبعتني فلا تسالني عن شيء حتى احدث لك منه ذكرا {70} فانطلقا حتى إذا ركبا في السفينة خرقها سورة الكهف آية 69-71 قال: انتحى عليها، قال له موسى عليه السلام: اخرقتها لتغرق اهلها لقد جئت شيئا إمرا {71} قال الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا {72} قال لا تؤاخذني بما نسيت ولا ترهقني من امري عسرا {73} فانطلقا حتى إذا لقيا سورة الكهف آية 71-74 غلمانا يلعبون، قال: فانطلق إلى احدهم بادي الراي فقتله، فذعر عندها موسى عليه السلام ذعرة منكرة قال اقتلت نفسا زكية بغير نفس لقد جئت شيئا نكرا سورة الكهف آية 74 فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عند هذا المكان رحمة الله علينا وعلى موسى لولا انه عجل لراى العجب، ولكنه اخذته من صاحبه ذمامة قال إن سالتك عن شيء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني عذرا سورة الكهف آية 76 ولو صبر لراى العجب، قال: وكان إذا ذكر احدا من الانبياء بدا بنفسه رحمة الله علينا وعلى اخي كذا رحمة الله علينا فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية سورة الكهف آية 77 لئاما فطافا في المجالس فاستطعما اهلها فابوا ان يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض فاقامه قال لو شئت لاتخذت عليه اجرا {77} قال هذا فراق بيني وبينك سورة الكهف آية 77-78 واخذ بثوبه، قال سانبئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا {78} اما السفينة فكانت لمساكين يعملون في البحر سورة الكهف آية 78-79 إلى آخر الآية، فإذا جاء الذي يسخرها وجدها منخرقة، فتجاوزها فاصلحوها بخشبة واما الغلام سورة الكهف آية 80 فطبع يوم طبع كافرا، وكان ابواه قد عطفا عليه، فلو انه ادرك ارهقهما طغيانا وكفرا فاردنا ان يبدلهما ربهما خيرا منه زكاة واقرب رحما {81} واما الجدار فكان لغلامين يتيمين في المدينة وكان تحته سورة الكهف آية 81-82 إلى آخر الآية ".
حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّهُ بَيْنَمَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فِي قَوْمِهِ يُذَكِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ، وَأَيَّامُ اللَّهِ نَعْمَاؤُهُ وَبَلَاؤُهُ، إِذْ قَالَ: مَا أَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا خَيْرًا وَأَعْلَمَ مِنِّي، قَالَ: فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنِّي أَعْلَمُ بِالْخَيْرِ مِنْهُ، أَوْ عِنْدَ مَنْ هُوَ إِنَّ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: يَا رَبِّ فَدُلَّنِي عَلَيْهِ، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: تَزَوَّدْ حُوتًا مَالِحًا فَإِنَّهُ حَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَعُمِّيَ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ وَتَرَكَ فَتَاهُ، فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمَاءِ فَجَعَلَ لَا يَلْتَئِمُ عَلَيْهِ، صَارَ مِثْلَ الْكُوَّةِ، قَالَ: فَقَالَ فَتَاهُ: أَلَا أَلْحَقُ نَبِيَّ اللَّهِ فَأُخْبِرَهُ، قَالَ: فَنُسِّيَ، فَلَمَّا تَجَاوَزَا، قَالَ لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ: وَلَمْ يُصِبْهُمْ نَصَبٌ حَتَّى تَجَاوَزَا، قَالَ: فَتَذَكَّرَ، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا، قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، فَأَرَاهُ مَكَانَ الْحُوتِ، قَالَ: هَاهُنَا وُصِفَ لِي، قَالَ: فَذَهَبَ يَلْتَمِسُ فَإِذَا هُوَ بِالْخَضِرِ، مُسَجًّى ثَوْبًا مُسْتَلْقِيًا عَلَى الْقَفَا، أَوَ قَالَ: عَلَى حَلَاوَةِ الْقَفَا، قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَكَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، قَالَ: وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ، مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: وَمَنْ مُوسَى؟ قَالَ: مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ مَجِيءٌ: مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: جِئْتُ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا {66} قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا {67} وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا {68} سورة الكهف آية 66-68 شَيْءٌ أُمِرْتُ بِهِ أَنْ أَفْعَلَهُ إِذَا رَأَيْتَهُ لَمْ تَصْبِرْ قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا {69} قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا {70} فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا سورة الكهف آية 69-71 قَالَ: انْتَحَى عَلَيْهَا، قَالَ لَهُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام: أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا {71} قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا {72} قَالَ لا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا {73} فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا لَقِيَا سورة الكهف آية 71-74 غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ إِلَى أَحَدِهِمْ بَادِيَ الرَّأْيِ فَقَتَلَهُ، فَذُعِرَ عِنْدَهَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام ذَعْرَةً مُنْكَرَةً قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا سورة الكهف آية 74 فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عِنْدَ هَذَا الْمَكَانِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى مُوسَى لَوْلَا أَنَّهُ عَجَّلَ لَرَأَى الْعَجَبَ، وَلَكِنَّهُ أَخَذَتْهُ مِنْ صَاحِبِهِ ذَمَامَةٌ قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا سورة الكهف آية 76 وَلَوْ صَبَرَ لَرَأَى الْعَجَبَ، قَالَ: وَكَانَ إِذَا ذَكَرَ أَحَدًا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ بَدَأَ بِنَفْسِهِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى أَخِي كَذَا رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ سورة الكهف آية 77 لِئَامًا فَطَافَا فِي الْمَجَالِسِ فَاسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا {77} قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سورة الكهف آية 77-78 وَأَخَذَ بِثَوْبِهِ، قَالَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا {78} أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ سورة الكهف آية 78-79 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَإِذَا جَاءَ الَّذِي يُسَخِّرُهَا وَجَدَهَا مُنْخَرِقَةً، فَتَجَاوَزَهَا فَأَصْلَحُوهَا بِخَشَبَةٍ وَأَمَّا الْغُلامُ سورة الكهف آية 80 فَطُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا، وَكَانَ أَبَوَاهُ قَدْ عَطَفَا عَلَيْهِ، فَلَوْ أَنَّهُ أَدْرَكَ أَرْهَقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا {81} وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ سورة الكهف آية 81-82 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ ".
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "ایک دن موسیٰ علیہ السلام اپنے لوگوں میں بیٹھے انھیں اللہ کے دن یاد دلارہے تھے (اور) اللہ کے دنوں سے مراد اللہ کی نعمتیں اوراس کی آزمائشیں ہیں، اس وقت انھوں نے (ایک سوال کے جواب میں) کہا: میرے علم میں اس وقت روئے زمین پر مجھ سے بہتر اور مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا اور کوئی نہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں اس شخص کو جانتاہوں جوان (موسیٰ علیہ السلام) سے بہتر ہےیا (فرمایا:) جس کے پاس ان سے بڑھ کر ہے زمین پر ایک آدمی ہے جو آپ سے بڑھ کر عالم ہے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: میرے پروردگار مجھے اس کا پتہ بتائیں، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ان سے کہا گیا: ایک نمکین مچھلی کا زاد راہ لے لیں، وہ آدمی وہیں ہوگا جہاں آپ سے وہ مچھلی گم ہوجائے گی۔فرمایا: موسیٰ علیہ السلام اور ان کا نوجوان ساتھی چل پڑے، یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچے تو ان (حضرت موسیٰ علیہ السلام) پر ایک طرح کی بے خبری طاری ہو گئی اور وہ اپنے جوان کو چھوڑ کر آگے چلے گئے۔ مچھلی (زندہ ہو کر) تڑپی اور پانی میں چلی گئی۔پانی اس کے اوپر اکٹھا نہیں ہو رہا تھا، ایک طاقچے کی طرح ہو گیا تھا۔اس نو جوان نے (اس مچھلی کو پانی میں جاتا ہوا دیکھ لیا اور) کہا: کیا میں اللہ کے نبی (موسیٰ علیہ السلام) کے پاس پہنچ کر انھیں اس بات کی خبر نہ دوں!فرمایا: پھر اسے بھی یہ بات بھلا دی گئی۔جب وہ آگے نکل گئے تو انھوں نے اپنے جوان سے کہا: ہمارا دن کا کھانا لے آؤ، اس سفر میں ہمیں بہت تھکاوٹ ہوگئی فرمایا: ان کو اس وقت تک تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی تھی۔یہاں تک کہ وہ (اس جگہ سے) آگے نکل گئے تھے۔فرمایا: تو اس (جوان) کو یادآگیا اور اس نے کہا: آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے یہ بات بھلائی کہ میں اس کا ذکر کروں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس (مچھلی) نے (زندہ ہوکر) پانی میں اپنا ر استہ پکڑ لیا۔انھوں نے فرمایا ہمیں اسی کی تلاش تھی پھر وہ دونوں واپس اپنے قدموں کےنشانات پر چل پڑے۔اس نے انھیں مچھلی کی جگہ دیکھائی۔انھوں نے کہا مجھے اسی جگہ کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ تلاش میں چل پڑے تو انھیں حضرت خضر علیہ السلام اپنے اردگرد کپڑا لپیٹے نظرآگئے گدی کے بل (سیدھے) لیٹے ہوئے تھے یا کہا: گدی کے درمیانے حصے کےبل لیٹے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا: السلام علیکم! (خضر علیہ السلام نے) کہا: وعلیکم السلام! پوچھا: آپ کون ہیں؟کہا: میں موسیٰ علیہ السلام ہوں، پوچھا، کون موسیٰ؟کہا: بنی اسرائیل کے موسیٰ، پوچھا: کیسے آنا ہوا ہے؟ کہا: میں اس لئے آیا ہوں کہ صحیح ر استے کا جو علم آپ کو دیاگیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔ (خضر علیہ السلام نے) کہا: میری معیت میں آپ صبر نہ کرپائیں گے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: ان شاء اللہ، آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔انھوں نے کہا: اگر آپ میرے پیچھے چلتے ہیں تو مجھ سے اس وقت تک کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کریں جب تک میں خود اس کا ذکر شروع نہ کروں، پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو انھوں (خضر علیہ السلام) نے اس میں لمبا سا سوراخ کردیا۔کہا: انھوں نے کشتی پر اپنا پہلو کازور ڈالا (جس سے اس میں درز آگئی) موسیٰ علیہ السلام نے انھیں کہا: آپ نے اس لئے اس میں درز ڈالی کہ انھیں غرق کردیں۔آپ نے عجیب کام کیا۔ (خضر علیہ السلام نے) کہا: میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ کسی صورت صبر نہ کرسکیں گے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: میرے بھول جانے پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھ سے سخت برتاؤ نہ کریں۔دونوں (پھر) چل پڑے یہاں تک کہ وہ کچھ لڑکوں کے پاس پہنچے،، وہ کھیل رہے تھے۔وہ (خضر علیہ السلام) تیزی سے ایک لڑکے کی طرف بڑھے اور اسے قتل کردیا۔اس پر موسیٰ علیہ السلام سخت گھبراہٹ کا شکار ہوگئے۔انھوں نے کہا: کیا آپ نے ایک معصوم جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر مار دیا؟"اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم پر اور موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو! اگر وہ جلدبازی نہ کرتے تو (اور بھی) عجیب کام دیکھتے، لیکن انھیں اپنے ساتھی سے شرمندگی محسوس ہو ئی، کہا: اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں، آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے اور (فرما یا:) اگر موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو (اوربھی) عجائبات کا مشاہدہ کرتے۔" (ابھی بن کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب انبیاء علیہ السلام میں سے کسی کا ذکر کرتے تو اپنی ذات سے شروع (فرما تے): "ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور ہمارے فلاں بھا ئی پر ہم اللہ کی رحمت ہو!۔۔۔پھر وہ دونوں (آگے) چل پڑے یہاں تک کہ ایک بستی کے بخیل لو گوں کے پاس آئے۔کئی مجا لس میں پھر ےاور ان لوگوں سے کھا نا طلب کیا لیکن انھوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا، پھر انھوں نے اس (بستی) میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی کہ انھوں (خضر علیہ السلام) نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: اگرآپ چاہتے تو اس پر اُجرت (بھی) لے سکتے تھے۔انھوں نےکہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان مفارقت (کا وقت) ہے۔اور انھوں (موسیٰ علیہ السلام) نے ان کا کپڑا تھام لیا (تاکہ وہ جدا نہ ہوجائیں اور کہا کہ مجھے ان کی حقیقت بتادو) کہا: میں ابھی آپ کوان (کاموں) کی حقیقت بتاتاہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔جو کشتی تھی وہ ایسے مسکین لوگوں کی تھی جو سمندر میں (ملاحی کا) کام کرتے ہیں۔"آیت کے آخر تک"جب اس پر قبضہ کرنے والا آئے گا تو اسے سوراخ والی پائے گا اور آگے بڑھ جائے گا اور یہ لوگ ایک لکڑی (کے تختے) سے اس کو ٹھیک کرلیں گے اور جو لڑکا تھا تو جس دن اس کی سرشت (فطرت) بنائی گئی وہ کفر پر بنائی گئی۔اس کے والدین کو اس کے ساتھ شدید لگاؤ ہے۔اگروہ اپنی بلوغت تک پہنچ جاتا تو اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں عاجز کردیتا۔ہم نے چاہا کہ اللہ ان دنوں کو اس کے بدلے میں پاکبازی میں بڑھ کر صلہ رحمی کے اعتبارسے بہتر بدل عطا فرمادے اور رہی دیوار تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی (اور اس کے نیچے ان دونوں کاخزانہ دفن تھا۔) "آیت کے آخرتک۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"ایک دن موسیٰ ؑ اپنے لوگوں میں بیٹھے انھیں اللہ کے دن یاد دلارہے تھے(اور) اللہ کے دنوں سے مراد اللہ کی نعمتیں اوراس کی آزمائشیں ہیں،اس وقت انھوں نے(ایک سوال کے جواب میں)کہا:میرے علم میں اس وقت روئے زمین پر مجھ سے بہتر اور مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا اور کوئی نہیں،اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں اس شخص کو جانتاہوں جوان(موسیٰ ؑ) سے بہتر ہےیا(فرمایا:)جس کے پاس ان سے بڑھ کر ہے زمین پر ایک آدمی ہے جو آپ سے بڑھ کر عالم ہے۔(موسیٰ ؑ نے) کہا:میرے پروردگار مجھے اس کا پتہ بتائیں،(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا:ان سے کہا گیا:ایک نمکین مچھلی کا زاد راہ لے لیں،وہ آدمی وہیں ہوگا جہاں آپ سے وہ مچھلی گم ہوجائے گی۔فرمایا:موسیٰ ؑ اور ان کا نوجوان ساتھی چل پڑے،یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچے تو ان(حضرت موسیٰ ؑ)پر ایک طرح کی بے خبری طاری ہو گئی اور وہ اپنے جوان کو چھوڑ کر آگے چلے گئے۔ مچھلی (زندہ ہو کر)تڑپی اور پانی میں چلی گئی۔پانی اس کے اوپر اکٹھا نہیں ہو رہا تھا،ایک طاقچے کی طرح ہو گیا تھا۔اس نو جوان نے(اس مچھلی کو پانی میں جاتا ہوا دیکھ لیا اور)کہا:کیا میں اللہ کے نبی (موسیٰ ؑ) کے پاس پہنچ کر انھیں اس بات کی خبر نہ دوں!فرمایا:پھر اسے بھی یہ بات بھلا دی گئی۔جب وہ آگے نکل گئے تو انھوں نے اپنے جوان سے کہا:ہمارا دن کا کھانا لے آؤ،اس سفر میں ہمیں بہت تھکاوٹ ہوگئی فرمایا:ان کو اس وقت تک تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی تھی۔یہاں تک کہ وہ(اس جگہ سے) آگے نکل گئے تھے۔فرمایا:تو اس(جوان) کو یادآگیا اور اس نے کہا:آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے یہ بات بھلائی کہ میں اس کا ذکر کروں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس (مچھلی) نے(زندہ ہوکر)پانی میں اپنا ر استہ پکڑ لیا۔انھوں نے فرمایا ہمیں اسی کی تلاش تھی پھر وہ دونوں واپس اپنے قدموں کےنشانات پر چل پڑے۔اس نے انھیں مچھلی کی جگہ دیکھائی۔انھوں نے کہا مجھے اسی جگہ کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ تلاش میں چل پڑے تو انھیں حضرت خضر ؑ اپنے اردگرد کپڑا لپیٹے نظرآگئے گدی کے بل(سیدھے) لیٹے ہوئے تھے یا کہا:گدی کے درمیانے حصے کےبل لیٹے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا:السلام علیکم!(خضر ؑ نے) کہا:وعلیکم السلام! پوچھا: آپ کون ہیں؟کہا: میں موسیٰ ؑ ہوں،پوچھا،کون موسیٰ؟کہا:بنی اسرائیل کے موسیٰ،پوچھا:کیسے آنا ہوا ہے؟ کہا: میں اس لئے آیا ہوں کہ صحیح ر استے کا جو علم آپ کو دیاگیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔(خضر ؑ نے) کہا:میری معیت میں آپ صبر نہ کرپائیں گے۔(موسیٰ ؑ نے)کہا:ان شاء اللہ،آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔انھوں نے کہا:اگر آپ میرے پیچھے چلتے ہیں تو مجھ سے اس وقت تک کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کریں جب تک میں خود اس کا ذکر شروع نہ کروں،پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو انھوں(خضر ؑ) نے اس میں لمبا سا سوراخ کردیا۔کہا:انھوں نے کشتی پر اپنا پہلو کازور ڈالا(جس سے اس میں درز آگئی)موسیٰ ؑ نے انھیں کہا:آپ نے اس لئے اس میں درز ڈالی کہ انھیں غرق کردیں۔آپ نے عجیب کام کیا۔(خضر ؑ نے) کہا:میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ کسی صورت صبر نہ کرسکیں گے۔(موسیٰ ؑ نے) کہا:میرے بھول جانے پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھ سے سخت برتاؤ نہ کریں۔دونوں(پھر) چل پڑے یہاں تک کہ وہ کچھ لڑکوں کے پاس پہنچے،،وہ کھیل رہے تھے۔وہ(خضر ؑ) تیزی سے ایک لڑکے کی طرف بڑھے اور اسے قتل کردیا۔اس پر موسیٰ ؑ سخت گھبراہٹ کا شکار ہوگئے۔انھوں نے کہا: کیا آپ نے ایک معصوم جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر مار دیا؟"اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"ہم پر اور موسیٰ ؑ پر اللہ کی رحمت ہو! اگر وہ جلدبازی نہ کرتے تو (اور بھی)عجیب کام دیکھتے،لیکن انھیں اپنے ساتھی سے شرمندگی محسوس ہو ئی،کہا: اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں،آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے اور (فر یا:) اگر موسیٰ ؑ صبر کرتے تو (اوربھی) عجائبات کا مشاہدہ کرتے۔"(ابھی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب انبیاء ؑ میں سے کسی کا ذکر کرتے تو اپنی ذات سے شروع (فر تے):"ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور ہمارے فلاں بھا ئی پر ہم اللہ کی رحمت ہو!۔۔۔پھر وہ دونوں (آگے) چل پڑے یہاں تک کہ ایک بستی کے بخیل لو گوں کے پاس آئے۔کئی مجا لس میں پھر ےاور ان لوگوں سے کھا نا طلب کیا لیکن انھوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا،پھر انھوں نے اس(بستی) میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی کہ انھوں(خضر ؑ) نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔(موسیٰ ؑ نے) کہا:اگرآپ چاہتے تو اس پر اُجرت(بھی) لے سکتے تھے۔انھوں نےکہا:یہ میرے اور آپ کے درمیان مفارقت(کا وقت) ہے۔اور انھوں(موسیٰ ؑ) نے ان کا کپڑا تھام لیا(تاکہ وہ جدا نہ ہوجائیں اور کہا کہ مجھے ان کی حقیقت بتادو)کہا:میں ابھی آپ کوان(کاموں) کی حقیقت بتاتاہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔جو کشتی تھی وہ ایسے مسکین لوگوں کی تھی جو سمندر میں(ملاحی کا) کام کرتے ہیں۔"آیت کے آخر تک"جب اس پر قبضہ کرنے والا آئے گا تو اسے سوراخ والی پائے گا اور آگے بڑھ جائے گا اور یہ لوگ ایک لکڑی(کے تختے) سے اس کو ٹھیک کرلیں گے اور جو لڑکا تھا تو جس دن اس کی سرشت(فطرت) بنائی گئی وہ کفر پر بنائی گئی۔اس کے والدین کو اس کے ساتھ شدید لگاؤ ہے۔اگروہ اپنی بلوغت تک پہنچ جاتا تو اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں عاجز کردیتا۔ہم نے چاہا کہ اللہ ان دنوں کو اس کے بدلے میں پاکبازی میں بڑھ کر صلہ رحمی کے اعتبارسے بہتر بدل عطا فرمادے اور رہا دیوار کا معاملہ تو وہ شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ ایک اچھا نیک آدمی تھا،آیت نمبر۔82 کے آخر تک۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6166
Save to word اعراب
وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، اخبرنا محمد بن يوسف . ح وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبيد الله بن موسى كلاهما، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق بإسناد التيمي، عن ابي إسحاق، نحو حديثه.وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى كِلَاهُمَا، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ بِإِسْنَادِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، نَحْوَ حَدِيثِهِ.
اسرائیل نے ابو اسحاق سے تیمی کی سند کے ساتھ ابو اسحاق سے اس کی ابو اسحاق سے روایت کردہ حدیث کے مانند روایت کی۔
امام صاحب اپنے دو اوراساتذہ کی سندوں سے مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6167
Save to word اعراب
وحدثنا عمرو الناقد ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، عن ابي بن كعب " ان النبي صلى الله عليه وسلم قرا: 0 لتخذت عليه اجرا 0 ".وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ: 0 لَتَّخِذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا 0 ".
عمروناقد نے کہا: ہمیں سفیان بن عینیہ نے عمرو (بن دینار) سے حدیث بیان کی، انھوں نے سعید بن جبیر سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (لاتخذتکی بجائے) اس طرح پڑھا: (لَاتَّخَذْتَ عَلَیْہِ أَجْرًا)۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے "لَاتَّخَذْتَ" کی بجائے"لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا"پڑھا،یعنی اتَّخَذَ کی جگہ تَّخَذْ،معنی ایک ہی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

Previous    19    20    21    22    23    24    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.