یو نس اور معمر دونوں نے اسی سند کے ساتھ زہری سے روایت کی اور معمر کی حدیث میں مزید بیان ہے۔"وہ آدمی جس نے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا اور اس کے بارے میں کریدا "اور یونس کی حدیث میں کہا: عا مر بن سعد (سے روایت ہے) انھوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے سنا۔
یہی روایت امام صاحب کو دو اساتذہ نے اپنی اپنی سند سے سنائی،معمر کی حدیث میں یہ اضافہ ہے، ”وہ آدمی جس نے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا اور اس کی کرید کی، تفتیش کی۔“
حدثنا محمود بن غيلان ، ومحمد بن قدامة السلمي ، ويحيى بن محمد اللؤلئي والفاظهم متقاربة، قال محمود: حدثنا النضر بن شميل ، وقال الآخران: اخبرنا النضر، اخبرنا شعبة ، حدثنا موسى بن انس ، عن انس بن مالك ، قال: بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اصحابه شيء، فخطب، فقال: " عرضت علي الجنة والنار، فلم ار كاليوم في الخير والشر، ولو تعلمون ما اعلم لضحكتم قليلا، ولبكيتم كثيرا "، قال: فما اتى على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم اشد منه، قال: غطوا رءوسهم ولهم خنين، قال: فقام عمر، فقال: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا، قال: فقام ذاك الرجل، فقال: من ابي، قال: ابوك فلان، فنزلت: يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ السُّلَمِيُّ ، ويحيى بن محمد اللؤلئي وألفاظهم متقاربة، قَالَ مَحْمُودٌ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَصْحَابِهِ شَيْءٌ، فَخَطَبَ، فَقَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، وَلَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا "، قَالَ: فَمَا أَتَى عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمٌ أَشَدُّ مِنْهُ، قَالَ: غَطَّوْا رُءُوسَهُمْ وَلَهُمْ خَنِينٌ، قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، قَالَ: فَقَامَ ذَاكَ الرَّجُلُ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي، قَالَ: أَبُوكَ فُلَانٌ، فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101.
نضر بن شمیل نے کہا: ہمیں شعبہ نے خبر دی، انھوں نے کہا: ہمیں موسیٰ بن انس نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھیوں کے بارے میں کوئی بات پہنچی تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا, اور کہا: " جنت اور دوزخ کو میرے سامنے پیش کیا گیا۔میں نے خیر اور شر کے بارے میں آج کے دن جیسی (تفصیلا ت) کبھی نہیں دیکھیں۔جو میں جا نتا ہوں، اگر تم (بھی) جان لو تو ہنسو کم اور روؤزیادہ۔" (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر اس سے زیادہ سخت دن کبھی نہیں آیا۔کہا: انھوں نے اپنے سر ڈھانپ لیے اور ان کے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔کہا: تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو ئے اور کہا: ہم اللہ کے رب ہو نے، اسلام کے دین ہو نے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہو نے پر راضی ہیں۔کہا: ایک آدمی کھڑا ہو گیا اور پو چھا: میرا باپ کون تھا؟آپ نے فرمایا: " تمھارا باپ فلا ں تھا"اس پر آیت اتری: "اے ایمان لا نے والو! ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر تمھارے سامنے ظاہر کر دی جا ئیں تو تمھیں دکھ پہنچائیں۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اپنے ساتھیوں کی کوئی بات پہنچی تو آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا: ”مجھ پر جنت اور جہنم پیش کی گئیں، سو میں نے آج جیسا اچھا اور برا منظر نہیں دیکھا اور اگر تم وہ جان لو، جو میں جانتا ہوں تو ہنسو کم (بالکل نہ ہنسو) اور زیادہ روؤ، (روتے رہو۔)“ حضرت انس کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر اس سے زیادہ سنگین دن نہیں آیا، انہوں نے اپنے سر ڈھانپ لیے اور ہچکیاں لے کر رونے لگے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا، ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں اور اسلام کے دستور زندگی اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے پر مطمئن ہیں، وہی آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا، میرا باپ کون ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ فلاں ہے۔“ اس پر یہ آیت اتری، ”اے ایمان دارو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو، اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں رنج پہنچے۔“
روح بن عباد ہ نے ہمیں حدیث سنائی، کہا ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی کہا: مجھے مو سیٰ بن انس نے خبر دی کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے۔ایک شخص نے پو چھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کون ہے؟آپ نے فرمایا: " تیرا باپ فلا ں ہے "پھر یہ آیت نازل ہو ئی: "اے ایمان لا نے والو! ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر تمھارے سامنے ظاہر کر دی جا ئیں تو تمھیں دکھ پہنچائیں۔"مکمل آیت پڑھی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کےرسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میرا باپ کون ہے؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”تیرا باپ فلاں ہے،“ اور آیت اتری، ”اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمھیں ناگوار ہوں۔“
وحدثني حرملة بن يحيي بن عبد الله بن حرملة بن عمران التجيبي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني انس بن مالك ، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج حين زاغت الشمس، فصلى لهم صلاة الظهر، فلما سلم، قام على المنبر، فذكر الساعة، وذكر ان قبلها امورا عظاما، ثم قال: من احب ان يسالني عن شيء، فليسالني عنه، فوالله لا تسالونني عن شيء إلا اخبرتكم به، ما دمت في مقامي هذا، قال انس بن مالك: فاكثر الناس البكاء حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واكثر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان يقول: سلوني، فقام عبد الله بن حذافة، فقال: من ابي يا رسول الله، قال: ابوك حذافة، فلما اكثر رسول الله صلى الله عليه وسلم، من ان يقول: سلوني، برك عمر، فقال: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد رسولا، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قال عمر ذلك، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اولى والذي نفس محمد بيده، لقد عرضت علي الجنة والنار آنفا، في عرض هذا الحائط، فلم ار كاليوم في الخير والشر، قال ابن شهاب: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال: قالت ام عبد الله بن حذافة لعبد الله بن حذافة: ما سمعت بابن قط، اعق منك، اامنت ان تكون امك قد قارفت بعض ما تقارف نساء اهل الجاهلية، فتفضحها على اعين الناس؟ قال عبد الله بن حذافة: والله لو الحقني بعبد اسود، للحقته ".وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى لَهُمْ صَلَاةَ الظُّهْرِ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَذَكَرَ السَّاعَةَ، وَذَكَرَ أَنَّ قَبْلَهَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَنِي عَنْ شَيْءٍ، فَلْيَسْأَلْنِي عَنْهُ، فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونَنِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ، مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقُولَ: سَلُونِي، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَلَمَّا أَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ أَنْ يَقُولَ: سَلُونِي، بَرَكَ عُمَرُ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ عُمَرُ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْلَى وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا، فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ: مَا سَمِعْتُ بِابْنٍ قَطُّ، أَعَقَّ مِنْكَ، أَأَمِنْتَ أَنْ تَكُونَ أُمُّكَ قَدْ قَارَفَتْ بَعْضَ مَا تُقَارِفُ نِسَاءُ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَتَفْضَحَهَا عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ: وَاللَّهِ لَوْ أَلْحَقَنِي بِعَبْدٍ أَسْوَدَ، لَلَحِقْتُهُ ".
یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور انھیں ظہر کی نماز پڑھائی، جب آ پ نے سلام پھیرا تو منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس سے پہلے بہت بڑے بڑے امور وقوع پزیر ہوں گے، پھر فرمایا: "جو شخص (ان میں سے) کسی چیز کے بارے میں سوال کرنا چاہے تو سوا ل کرلے۔اللہ کی قسم!میں جب تک اس جگہ کھڑا ہوں، تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کروگے میں تمھیں اس کے بارے میں بتاؤں گا۔" حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا اور آپ نے بار بار کہنا شروع کردیا: "مجھ سے پوچھو"تو لوگ بہت روئے، اتنے میں عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرا باپ کون تھا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھارا باپ حذافہ تھا۔"پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ بار"مجھ سے پوچھو"فرمانا شروع کیا (اور پتہ چل گیا کہ آپ غصے میں کہہ رہے ہیں) توحضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرمالیا۔کہا: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے!ابھی ابھی اس دیوار کی چوڑائی کے اندرجنت اور دوزخ کو میرے سامنے پیش کیا گیا تو خیر اورشر کے بارے میں جو میں نے آج دیکھا، کبھی نہیں دیکھا۔" ابن شہاب نے کہا: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے مجھے بتایاکہ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ (کی یہ بات سن کر ان) کی والدہ نے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے کبھی نہیں سنا کہ کوئی بیٹا تم سے زیادہ والدین کا حق پامال کرنے والا ہو۔کیا تم خود کو اس بات سے محفوظ سمجھتے تھے کہ ہوسکتا ہے تمہاری ماں سے بھی کوئی ایسا کام ہوگیا ہو کہ جو اہل جاہلیت کی عورتوں سے ہوجاتا تھا تو تم اس طرح (سوال کرکے) سب لوگوں کے سامنے اپنی ماں کو رسوا کردیتے؟عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم!اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا نسب کسی حبشی غلام سے بھی ملا دیتے تو میں اسی کی ولدیت اختیار کرلیتا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سورج ڈھل گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہیں ظہر کی نماز پڑھائی، جب سلام پھیرا تو منبر پر کھڑے ہو گئے اور قیامت کا تذکرہ کیا اور بتایا، اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ظاہر ہوں گے، پھر فرمایا: ”جو مجھ سے کسی چیزکے بارے میں سوال کرنا چاہے، وہ مجھ سے ا س کے بارے میں پوچھے، سو اللہ کا قسم! تم مجھ سے جس کے بارےمیں بھی سوال کرو گے، جب تک میں یہاں اس جگہ ہوں، اس کے بارےمیں، میں تمہیں بتا دوں گا، “حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی تو بہت روئے اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت یہ فرمایا: ”مجھ سے پوچھ لو۔“ تو حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے اور پوچھا میرا باپ کون ہے؟ اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حذافہ“ توجب رسول اللہ نےبار بار یہ فرمایا: ”مجھ سے پوچھ لو۔“ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے ضابظۂ حیات ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ومطمئن ہیں تو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ الفاظ کہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہلاکت قریب تھی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ابھی اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے جنت او ردوزخ پیش کی گئی، سو میں نے آج جیسا خیرو شر کا منظر نہیں دیکھا۔“ ابن شہاب کہتے ہیں، مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا، عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ نے عبداللہ بن حذافہ سے کہا، میں تجھ جیسا نافرمان بیٹا کبھی نہیں سنا، کیا تم اس بات سے بے خوف تھے کہ تیری ماں نے کسی ایسی حرکت کا ارتکاب کیا ہو جس کا ارتکاب جاہلیت میں عورتیں کرتی تھیں، اس طرح تم اسے لوگوں کے سامنے رسوا کر دیتے،حضرت عبداللہ بن حذافہ نے کہا، اللہ کی قسم! اگر مجھے حبشی کا بچہ قرار دیتے تو میں اس کے ساتھ منسوب ہو جاتا۔
معمر اور شعیب دونوں نے زہری سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث اور اس کے ساتھ عبید اللہ کی حدیث بیان کی، البتہ شعیب نے کہا: زہری سے روایت ہے انھوں نے کہا مجھے عبید اللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، کہا مجھے علم رکھنے والے ایک شخص نے بتا یا کہ عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی والد ہ نے کہا: جس طرح یو نس کی حدیث ہے۔
امام صاحب نے مذکورہ بالاحدیث اپنے دو اساتذہ کی سند سے بیان کی ہے، مگر شعیب کی روایت میں یہ ہے،عبیداللہ بن عبداللہ نے کہا، مجھے اہل علم میں سے ایک آدمی نے بتایا کہ عبداللہ بن حذافہ کی والدہ نے کہا، آگے مذکورہ بالا واقعہ ہے۔
حدثنا يوسف بن حماد المعني ، حدثنا عبد الاعلى ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن انس بن مالك : ان الناس سالوا نبي الله صلى الله عليه وسلم، حتى احفوه بالمسالة، فخرج ذات يوم، فصعد المنبر، فقال: سلوني، لا تسالوني عن شيء، إلا بينته لكم، فلما سمع ذلك القوم ارموا، ورهبوا، ان يكون بين يدي امر قد حضر، قال انس: فجعلت التفت يمينا وشمالا، فإذا كل رجل لاف راسه في ثوبه يبكي، فانشا رجل من المسجد، كان يلاحى، فيدعى لغير ابيه، فقال: يا نبي الله، من ابي؟ قال: ابوك حذافة، ثم انشا عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقال: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد رسولا عائذا بالله من سوء الفتن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لم ار كاليوم قط في الخير والشر، إني صورت لي الجنة والنار، فرايتهما دون هذا الحائط ".حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : أَنَّ النَّاسَ سَأَلُوا نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَحْفَوْهُ بِالْمَسْأَلَةِ، فَخَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: سَلُونِي، لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ، إِلَّا بَيَّنْتُهُ لَكُمْ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ الْقَوْمُ أَرَمُّوا، وَرَهِبُوا، أَنْ يَكُونَ بَيْنَ يَدَيْ أَمْرٍ قَدْ حَضَرَ، قَالَ أَنَسٌ: فَجَعَلْتُ أَلْتَفِتُ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَإِذَا كُلُّ رَجُلٍ لَافٌّ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ يَبْكِي، فَأَنْشَأَ رَجُلٌ مِنَ الْمَسْجِدِ، كَانَ يُلَاحَى، فَيُدْعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا عَائِذًا بِاللَّهِ مِنْ سُوءِ الْفِتَنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ قَطُّ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، إِنِّي صُوِّرَتْ لِي الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَرَأَيْتُهُمَا دُونَ هَذَا الْحَائِطِ ".
سعید نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ لو گوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (بہت زیادہ اور بے فائدہ) سوالات کیےحتی کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سوالات سے تنگ کردیا، تو ایک دن آپ باہر تشر یف لائے، منبر پر رونق افروز ہو ئے اور فرمایا: "اب مجھ سے (جتنے چاہو) سوال کرو، تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھو گے، میں تم کو اس کا جواب دوں گا۔"جب لوگوں نے یہ سنا تو اپنے منہ بند کر لیےاور سوال کرنے سے ڈر گئےکہ کہیں یہ کسی بڑے معاملے (وعید، سزا سخت حکم وغیرہ) کا آغاز نہ ہو رہا ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے دائیں بائیں دیکھا تو ہر شخص کپڑے میں منہ لپیٹ کررورہا تھا تو مسجد میں سے وہ شخص اٹھا کہ جب (لوگوں کا) اس سے جھگڑا ہو تا تھا تو اسے اس کے باپ کے بجا ئے کسی اور کی طرف منسوب کردیا جا تا تھا (ابن فلا ں!کہہ کر پکا را جا تا تھا) اس نے کہا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ کون ہے۔؟آپ نے فرما یا: "تمھا را باپ حذافہ ہے۔ پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا: ہم اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مان کر راضی ہیں اور ہم برے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے والے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر اور شر میں جو کچھ میں نے آج دیکھا ہے کبھی نہیں دیکھا۔میرے لیے جنت اور جہنم کی صورت گری کی گئی تو میں نے اس (سامنے کی) دیوارسےآگے ان دونوں کو دیکھ لیا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیے، حتی کہ آپ سےسوالات پر اصرار کیا، (آپصلی اللہ علیہ وسلم تنگ پڑ گئے) تو آپ ایک دن تشریف لائے اور منبر پر چڑھ گئے اور فرمایا: ”مجھ سے سوال کرلو، تم مجھ سے جو بھی سوال کرو گے، جس چیز کے بارے میں پوچھوگے، میں اس کی حقیقت کھول دوں گا۔ “جب لوگوں نے یہ سنا تو وہ چپ ہو گئے او رڈر گئے کہ کہیں یہ کسی عذاب کا پیش خیمہ نہ ہو، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں دائیں بائیں دیکھنے لگا تو ہر آدمی اپنے کپڑے میں سر لپیٹ کر رو رہا تھا تو ایک آدمی نے مسجد سے آغاز کیا، جس سے لوگ جھگڑتے تو اس کی نسبت باپ کے سوا کسی اور کی طرف کرتے تو اس نے کہا، اللہ کے نبی! میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”حذافہ“ پھر حضرت عمربن خطاب کہنے لگے، ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دستور زندگی ہونے، اور محمد کے رسول ہونے پر خوش ہیں اور اللہ سے برے فتنوں سے پناہ چاہتے ہیں، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے خیر و شر کا آج کی طرح نظارہ کبھی نہیں کیا، میرے لیے جنت اور دوزخ کی تصویر کشی کی گئی ہے او رمیں نے انہیں اس دیوار کے ورے دیکھا ہے۔“
حدثنا عبد الله بن براد الاشعري ، ومحمد بن العلاء الهمداني ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: " سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن اشياء كرهها، فلما اكثر عليه غضب، ثم قال للناس: سلوني عم شئتم، فقال رجل: من ابي؟ قال: ابوك حذافة، فقام آخر، فقال: من ابي يا رسول الله؟ قال: ابوك سالم مولى شيبة، فلما راى عمر ما في وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغضب، قال: يا رسول الله، إنا نتوب إلى الله، وفي رواية ابي كريب، قال: من ابي يا رسول الله، قال: ابوك سالم مولى شيبة ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: سَلُونِي عَمَّ شِئْتُمْ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ ".
عبد اللہ بن براداشعری اور (ابو کریب) محمد بن علاءہمدانی نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے یزید سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند (ایسی) چیزوں کے بارے میں سوال کیے گئے جو آپ کو پسند نہ آئیں جب زیادہ سوال کیے گئے تو آپ غصے میں آگئے، پھر آپ نے لوگوں سے فرما یا: جس چیز کے بارے میں بھی چاہو مجھ سے پوچھو۔ "ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کو ن ہے؟آپ نے فرمایا: تمھا را باپ حذافہ ہے۔ دوسرے شخص نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کو ن ہے؟آپ نے فرمایا: تمھا را باپ شیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے۔" جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے تو کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اللہ سے تو بہ کرتے ہیں ابو کریب کی روایت میں ہے کہ اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کو ن ہے؟آپ نے فرمایا: تمھا را باپ شیبہ کامولیٰ سالم ہے۔"
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کیا گیا، آپ کو ناگوار گزرا، جب سوالات زیادہ ہونے لگے، آپ ناراض ہو گئے، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”مجھ سے جو مرضی ہے پوچھ لو۔“ تو ایک آدمی نے کہا: میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ حذافہ ہے۔“ ایک اور آدمی کھڑا ہوا، اس نے بھی پوچھا، میرا باپ کون ہے؟ اے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا: ”تیرا باپ شیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے۔“ تو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناراضی کے آثار دیکھے، کہنے لگے، اے اللہ کے رسول! ہم اللہ سے توبہ کرتے ہیں، اس کی طرف لوٹتے ہیں، ابو کریب کی روایت ہے، اس نے کہا، میرا باب کون ہے؟ اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ شیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے۔“ یعنی پہلی روایت میں فقال
حدثنا قتيبة بن سعيد الثقفي ، وابو كامل الجحدري ، وتقاربا في اللفظ، وهذا حديث قتيبة، قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن سماك ، عن موسى بن طلحة ، عن ابيه ، قال: " مررت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، بقوم على رءوس النخل، فقال: ما يصنع هؤلاء؟ فقالوا يلقحونه، يجعلون الذكر في الانثى، فيلقح، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما اظن يغني ذلك شيئا، قال: فاخبروا بذلك، فتركوه، فاخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك، فقال: إن كان ينفعهم ذلك، فليصنعوه، فإني إنما ظننت ظنا، فلا تؤاخذوني بالظن، ولكن إذا حدثتكم عن الله شيئا، فخذوا به، فإني لن اكذب على الله عز وجل ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ ، وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، وَهَذَا حَدِيثُ قُتَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " مَرَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِقَوْمٍ عَلَى رُءُوسِ النَّخْلِ، فَقَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟ فَقَالُوا يُلَقِّحُونَهُ، يَجْعَلُونَ الذَّكَرَ فِي الْأُنْثَى، فَيَلْقَحُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَظُنُّ يُغْنِي ذَلِكَ شَيْئًا، قَالَ: فَأُخْبِرُوا بِذَلِكَ، فَتَرَكُوهُ، فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَقَالَ: إِنْ كَانَ يَنْفَعُهُمْ ذَلِكَ، فَلْيَصْنَعُوهُ، فَإِنِّي إِنَّمَا ظَنَنْتُ ظَنًّا، فَلَا تُؤَاخِذُونِي بِالظَّنِّ، وَلَكِنْ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنِ اللَّهِ شَيْئًا، فَخُذُوا بِهِ، فَإِنِّي لَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلّ ".
موسیٰ بن طلحہ نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ لوگوں کے قریب سے گزرا جو درختوں کی چوٹیوں پر چڑھے ہو ئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا یہ لو گ کیا کر رہے ہیں۔؟"لوگوں نے کہا: یہ گابھہ لگا رہے ہیں نر (کھجور کا بور) مادہ (کھجور) میں ڈال رہے ہیں اس طرح یہ (درخت) ثمر آور ہو جا تے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرما یا: "میرا گمان نہیں کہ اس کا کچھ فائدہ ہو تا ہے۔"لوگوں نے کو یہ بات بتا دی گئی تو انھوں نے (گابھہ لگا نے کا) یہ عمل ترک کر دیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتا ئی گئی۔تو آپ نے فرمایا: اگر یہ کا م انھیں فائدہ پہنچاتا ہے تو کریں۔میں نے تو ایک بات کا گمان کیا تھا تو گمان کے حوالے سے مجھے ذمہ دارنہ ٹھہراؤ لیکن جب میں اللہ کی طرف سے تمھا رے ساتھ بات کروں تو اسے اپنالو، کیونکہ اللہ عزوجل پر کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔
موسیٰ بن طلحہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں کے پاس سے گزرا، جو کھجور کے دوختوں پر تھے تو آپ نے پوچھا: ”یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔“ لوگوں نے کہا، کھجوروں میں پیوند لگا رہے ہیں، نر کھجور کو مادہ کھجور کے ساتھ ملاتے ہیں، جس سے وہ بار آور ہو جاتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہیں سمجھتا کہ اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو۔“ لوگو ں کو آپ کی بات کی خبر دی گئی توانہوں نے یہ کام ترک کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے اس عمل کی خبر دی گئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ عمل انہیں فائدہ پہنچاتا ہے تو اسے عمل میں لائیں، میں نے تو بس، ایک خیال و گمان کیا تھا، تم میرے گمان پر عمل نہ کرو، لیکن جب میں تمہیں اللہ کی طرف سے کچھ بتاؤں تو اس کو اختیار کرو، کیونکہ میں اللہ کی طرف جھوٹی بات منسوب نہیں کرتا۔“
عبد اللہ بن رومی یمامی، عباس بن عبد العظیم عنبری اور احمد بن جعفر معقری نے مجھے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں نضر بن محمد نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں عکرمہ بن عمار نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابو نجاشی نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لا ئے تو (وہاں کے) لوگ کھجوروں میں قلم لگا تے تھے، وہ کہا کرتے تھے (کہ) وہ گابھہ لگا تے ہیں۔آپ نےفرمایا: " تم کیا کرتے ہو۔؟انھوں نے کہا: ہم یہ کام کرتے آئے ہیں۔آپ نے فرمایا: "اگر تم لو گ یہ کا م نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔"اس پر ان لوگوں نے (ایساکرنا) چھوڑ دیا، تو ان کا پھل گرگیا یا (کہا) کم ہوا۔کہا: لو گوں نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا ئی تو آپ نے فرمایا: "میں ایک بشر ہی تو ہوں، جب میں تمھیں دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اسے مضبوطی سے پکڑلواور جب میں تمھیں محض اپنی رائے سے کچھ کرنے کو کہوں تو میں بشر ہی تو ہوں۔"عکرمہ نے (شک انداز میں) کہا: یا اسی کے مانند (کچھ فرما یا۔) معقری نے شک نہیں کیا، انھوں نے کہا " تو ان کا پھل گرگیا۔"
حضرت نافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور اہل مدینہ نر کھجوروں کا بور مادہ کھجوروں کے اوپر ڈالتے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تم کیا کرتے ہو؟“ انہوں نے کہا، ہم پہلے سے کرتے آرہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”شاید، اگر تم یہ عمل نہ کرو تو بہتر ہو۔“ انہوں نے اسے چھوڑ دیا تو وہ جھڑ گئیں، صحابہ کرام نے اس کا تذکرہ آپ سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں صرف بشر ہوں۔“جب میں تمہیں تمہارے دین کے بارے میں کچھ کہوں تے اس کو اختیار کرو، اس پر عمل پیرا ہو، اور جب میں تمہیں محض اپنی سوچ سے کہوں تو میں بس بشر ہوں۔“ عکرمہ کہتے ہیں، استاد کا یہی مفہوم تھا، مقبری کی روایت میں بغیر شک کے ہے، وہ جھڑ گئیں۔