عبد اللہ بن رومی یمامی، عباس بن عبد العظیم عنبری اور احمد بن جعفر معقری نے مجھے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں نضر بن محمد نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں عکرمہ بن عمار نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابو نجاشی نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لا ئے تو (وہاں کے) لوگ کھجوروں میں قلم لگا تے تھے، وہ کہا کرتے تھے (کہ) وہ گابھہ لگا تے ہیں۔آپ نےفرمایا: " تم کیا کرتے ہو۔؟انھوں نے کہا: ہم یہ کام کرتے آئے ہیں۔آپ نے فرمایا: "اگر تم لو گ یہ کا م نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔"اس پر ان لوگوں نے (ایساکرنا) چھوڑ دیا، تو ان کا پھل گرگیا یا (کہا) کم ہوا۔کہا: لو گوں نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا ئی تو آپ نے فرمایا: "میں ایک بشر ہی تو ہوں، جب میں تمھیں دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اسے مضبوطی سے پکڑلواور جب میں تمھیں محض اپنی رائے سے کچھ کرنے کو کہوں تو میں بشر ہی تو ہوں۔"عکرمہ نے (شک انداز میں) کہا: یا اسی کے مانند (کچھ فرما یا۔) معقری نے شک نہیں کیا، انھوں نے کہا " تو ان کا پھل گرگیا۔"
حضرت نافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور اہل مدینہ نر کھجوروں کا بور مادہ کھجوروں کے اوپر ڈالتے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تم کیا کرتے ہو؟“ انہوں نے کہا، ہم پہلے سے کرتے آرہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”شاید، اگر تم یہ عمل نہ کرو تو بہتر ہو۔“ انہوں نے اسے چھوڑ دیا تو وہ جھڑ گئیں، صحابہ کرام نے اس کا تذکرہ آپ سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں صرف بشر ہوں۔“جب میں تمہیں تمہارے دین کے بارے میں کچھ کہوں تے اس کو اختیار کرو، اس پر عمل پیرا ہو، اور جب میں تمہیں محض اپنی سوچ سے کہوں تو میں بس بشر ہوں۔“ عکرمہ کہتے ہیں، استاد کا یہی مفہوم تھا، مقبری کی روایت میں بغیر شک کے ہے، وہ جھڑ گئیں۔