5938۔ابو عمار شدادسے رویت ہے کہ انھوں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا؛"اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب کیا اور بنو ہاشم میں سے مجھ کو منتخب کیا۔"
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، ”اللہ نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کا انتخاب فرمایا اور کنانہ سے قریش کا منتخب کیا اور قریش سے بنو ہاشم کو چنا اور بنو ہاشم سے مجھے برگزیدہ فرمایا۔“
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں مکہ میں اس پتھر کو اچھی طرح پہچانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا، بلاشبہ میں اس پتھر کو اب بھی پہچانتا ہوں۔"
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں،مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں،جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کہتا تھا، میں اب بھی اس کو پہچانتا ہوں۔“
عبداللہ بن فروخ نے کہا: مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں قیامت کے دن (تمام) اولاد آدم کا سردار ہوں گا، پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر کھلے گی، سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلا ہوں گا جس کی شفاعت قبول ہوگی۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں قیامت کے دن آدم ؑ کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے آپ کی قبر پھٹے گی اور سب سے پہلے آپ سفارش کریں گے اور سب سے پہلے آپ کی سفارش قبول ہوگی۔“
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا تو ایک کھلا ہوا پیالہ لایا گیا، لوگ اس سے وضو کرنے لگے، میں نے ساٹھ سے اسی تک کی تعداد کا اندازہ لگایا، میں (اپنی آنکھوں سے) اس پانی کی طرف دیکھنے لگا، وہ آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا تو آپ کے پاس ایک کھلا پیالا لایا گیا تو لوگ وضو کرنے لگے، میں نے اندازہ لگایا،وہ ساٹھ اور اسی کے درمیان تھے۔ اور میں پانی کو دیکھنے لگا، وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہا تھا۔“
وحدثني إسحاق بن موسى الانصاري ، حدثنا معن ، حدثنا مالك . ح وحدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، عن مالك بن انس ، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، عن انس بن مالك ، انه قال: " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحانت صلاة العصر، فالتمس الناس الوضوء، فلم يجدوه، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بوضوء، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك الإناء يده، وامر الناس ان يتوضئوا منه، قال: فرايت الماء ينبع من تحت اصابعه، فتوضا الناس حتى توضئوا من عند آخرهم ".وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوءَ، فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ يَدَهُ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ، قَالَ: فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ، فَتَوَضَّأَ النَّاسُ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ ".
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ عصر کا وقت آچکا تھا، لوگوں نے وضو کا پانی تلاش کیا اور انھیں نہ ملا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا کچھ پانی لایاگیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا دست مبارک رکھ دیا اور لوگوں کو اس پانی میں سے وضو کا حکم دیا۔کہا: تو میں نے د یکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پھوٹ رہا تھا اور لوگوں نے اپنے آخری آدمی تک (اس سے) وضو کرلیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جبکہ عصر کی نماز کا وقت قریب آ چکا تھا، لوگوں نے پانی تلاش کیا اور وہ نہ ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھوڑا سا پانی لایا گیا، سو آپ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور لوگوں کو اس سے وضو کرنے کا حکم دیا، میں نے دیکھا، پانی آپصلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے پھوٹ رہا ہے، لوگ وضو کرنے لگے حتیٰ کہ آخری فرد تک نے وضو کر لیا۔
معاذ کے والد ہشام نے قتادہ سے روایت کی، کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب (مقام) زوراء میں تھے { اور زوراء مدینہ میں مسجد اور بازار کے نزدیک ایک مقام ہے } آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اپنی ہتھیلی اس میں رکھ دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹنے لگا اور تمام اصحاب رضی اللہ عنہم نے وضو کر لیا۔ قتادہ نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوحمزہ! اس وقت آپ کتنے آدمی ہوں گے؟ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تین سو کے قریب تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ساتھی زوراء مقام پر تھے (اور زوراء مدینہ کے بازار میں مسجد کے قریب ایک جگہ ہے) آپ نے پانی کا پیالہ طلب کیا اور اس میں آپ نے اپنی ہتھیلی رکھ دی تو پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹنے لگا سو آپ کے تمام ساتھیوں نے وضو کرلیا، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کہتے ہیں، میں نے پوچھا،اے ابوحمزہ! ان کی تعداد کتنی تھی؟ جواب دیا، وہ تین سو کے قریب تھے۔
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن انس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، كان بالزوراء، فاتي بإناء ماء لا يغمر اصابعه، او قدر ما يواري اصابعه، ثم ذكر نحو حديث هشام.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ بِالزَّوْرَاءِ، فَأُتِيَ بِإِنَاءِ مَاءٍ لَا يَغْمُرُ أَصَابِعَهُ، أَوْ قَدْرَ مَا يُوَارِي أَصَابِعَهُ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ هِشَامٍ.
سعید نے قتادہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زوراء میں تھے، آپ کے پاس پانی کا ایک برتن لایا گیا، وہ آپ کی انگلیوں کے اوپر تک بھی نہیں آتاتھا (جس میں آپ کی انگلیاں بھی نہیں ڈوبتی تھیں) یا اس قدر تھا کہ (شاید) آپ کی انگلیوں کو ڈھانپ لیتا۔پھر ہشام کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زوراء جگہ پر تھے تو پانی کا ایک برتن لایاگیا، جس میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیاں نہیں ڈوبتی تھیں یا وہ آپ کی انگلیوں کو چھپانے کے بقدر تھا، پھر مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
وحدثني سلمة بن شبيب ، حدثنا الحسن بن اعين ، حدثنا معقل ، عن ابي الزبير ، عن جابر : " ان ام مالك، كانت تهدي للنبي صلى الله عليه وسلم في عكة لها سمنا، فياتيها بنوها فيسالون الادم، وليس عندهم شيء، فتعمد إلى الذي كانت تهدي فيه للنبي صلى الله عليه وسلم، فتجد فيه سمنا فما زال يقيم لها ادم بيتها حتى عصرته، فاتتا لنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: عصرتيها؟، قالت: نعم، قال: لو تركتيها ما زال قائما ".وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ : " أَنَّ أُمَّ مَالِكٍ، كَانَتْ تُهْدِي لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُكَّةٍ لَهَا سَمْنًا، فَيَأْتِيهَا بَنُوهَا فَيَسْأَلُونَ الْأُدْمَ، وَلَيْسَ عِنْدَهُمْ شَيْءٌ، فَتَعْمِدُ إِلَى الَّذِي كَانَتْ تُهْدِي فِيهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَجِدُ فِيهِ سَمْنًا فَمَا زَالَ يُقِيمُ لَهَا أُدْمَ بَيْتِهَا حَتَّى عَصَرَتْهُ، فَأَتَتْا لنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَصَرْتِيهَا؟، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: لَوْ تَرَكْتِيهَا مَا زَالَ قَائِمًا ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام مالک رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپی میں بطور تحفہ کے گھی بھیجا کرتی تھیں، پھر اس کے بیٹے آتے اور اس سے سالن مانگتے اور گھر میں کچھ نہ ہوتا تو ام مالک رضی اللہ عنہا اس کپی کے پاس جاتی، تو اس میں گھی ہوتا۔ اسی طرح ہمیشہ اس کے گھر کا سالن قائم رہتا۔ ایک بار ام مالک نے (حرص کر کے) اس کپی کو نچوڑ لیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ کیا تم نے اس کو نچوڑ لیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو اس کو یوں ہی رہنے دیتی (اور ضرورت کے وقت لیتی) تو وہ ہمیشہ قائم رہتا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے ایک کپہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھی کا تحفہ دیتی تھیں،اس کے بیٹے اس کےپاس آکر سالن مانگتے اور ان کے پاس کوئی چیز نہ ہوتی تو وہ اس کپہ کا رخ کرتی، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ دیتی تھیں تو اس میں گھی پاتی،وہ کپہ ہمیشہ اس کے گھر کا سالن مہیا کرتا رہا حتیٰ کہ اس نے اس کو نچوڑلیا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”کیا تو نے اسے نچوڑ لیا ہے؟“ اس نے کہا، جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو اسے چھوڑدیتی تو ہمیشہ سالن ملتارہتا۔“
وحدثني سلمة بن شبيب ، حدثنا الحسن بن اعين ، حدثنا معقل ، عن ابي الزبير ، عن جابر : " ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم يستطعمه، فاطعمه شطر وسق شعير، فما زال الرجل ياكل منه وامراته وضيفهما حتى كاله، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: لو لم تكله لاكلتم منه، ولقام لكم ".وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ : " أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَطْعِمُهُ، فَأَطْعَمَهُ شَطْرَ وَسْقِ شَعِيرٍ، فَمَا زَالَ الرَّجُلُ يَأْكُلُ مِنْهُ وَامْرَأَتُهُ وَضَيْفُهُمَا حَتَّى كَالَهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَوْ لَمْ تَكِلْهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ، وَلَقَامَ لَكُمْ ".
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا حاصل کرنے کے لئے آیا، آپ نے اسے آدھا وسق (تقریباً 120کلو) جو دیے تو وہ آدمی، اس کی بیوی اور ان دونوں کے مہمان مسلسل اس میں سے کھاتے رہے، یہاں تک کہ (ایک دن) اس نے ان کو ماپ لیا، پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آیا (اور ماجرابتایا) تو آپ نے فرمایا؛"اگرتم اس کو نہ ماپتے تو مسلسل اس میں سے کھاتے رہتے اور یہ (سلسلہ) تمھارے لئے قائم رہتا۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانا طلب کرنے کے لیے آیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آدھا وسق جو دیے تو اس سے وہ آدمی، اس کی بیوی اور ان کا مہمان کھاتے رہے، حتیٰ کہ اس نے اس کو ماپ لیا، (تو وہ ختم ہوگیا) سو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس کو نہ ماپتے تو اس سے کھاتے رہتے اور تمہارے لیے باقی رہتا۔“
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، حدثنا ابو علي الحنفي ، حدثنا مالك وهو ابن انس ، عن ابي الزبير المكي ، ان ابا الطفيل عامر بن واثلة اخبره، ان معاذ بن جبل اخبره، قال: " خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام غزوة تبوك، فكان يجمع الصلاة، فصلى الظهر والعصر جميعا، والمغرب والعشاء جميعا، حتى إذا كان يوما اخر الصلاة، ثم خرج فصلى الظهر، والعصر جميعا، ثم دخل، ثم خرج بعد ذلك، فصلى المغرب والعشاء جميعا، ثم قال: " إنكم ستاتون غدا إن شاء الله عين تبوك، وإنكم لن تاتوها حتى يضحي النهار، فمن جاءها منكم، فلا يمس من مائها شيئا، حتى آتي فجئناها وقد سبقنا إليها رجلان، والعين مثل الشراك تبض بشيء من ماء، قال: فسالهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل مسستما من مائها شيئا؟، قالا: نعم، فسبهما النبي صلى الله عليه وسلم، وقال لهما: ما شاء الله ان يقول، قال: ثم غرفوا بايديهم من العين قليلا قليلا، حتى اجتمع في شيء، قال: وغسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه يديه ووجهه ثم اعاده فيها، فجرت العين بماء منهمر، او قال غزير شك ابو علي ايهما، قال: حتى استقى الناس، ثم قال: يوشك يا معاذ إن طالت بك حياة، ان ترى ما هاهنا قد ملئ جنانا ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ وَهُوَ ابْنُ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ ، أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ عَامِرَ بْنَ وَاثِلَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَكَانَ يَجْمَعُ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمًا أَخَّرَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ ذَلِكَ، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّكُمْ سَتَأْتُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَيْنَ تَبُوكَ، وَإِنَّكُمْ لَنْ تَأْتُوهَا حَتَّى يُضْحِيَ النَّهَارُ، فَمَنْ جَاءَهَا مِنْكُمْ، فَلَا يَمَسَّ مِنْ مَائِهَا شَيْئًا، حَتَّى آتِيَ فَجِئْنَاهَا وَقَدْ سَبَقَنَا إِلَيْهَا رَجُلَانِ، وَالْعَيْنُ مِثْلُ الشِّرَاكِ تَبِضُّ بِشَيْءٍ مِنْ مَاء، قَالَ: فَسَأَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ مَسَسْتُمَا مِنْ مَائِهَا شَيْئًا؟، قَالَا: نَعَمْ، فَسَبَّهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لَهُمَا: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، قَالَ: ثُمَّ غَرَفُوا بِأَيْدِيهِمْ مِنَ الْعَيْنِ قَلِيلًا قَلِيلًا، حَتَّى اجْتَمَعَ فِي شَيْءٍ، قَالَ: وَغَسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ ثُمَّ أَعَادَهُ فِيهَا، فَجَرَتِ الْعَيْنُ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ، أَوَ قَالَ غَزِيرٍ شَكَّ أَبُو عَلِيٍّ أَيُّهُمَا، قَالَ: حَتَّى اسْتَقَى النَّاسُ، ثُمَّ قَالَ: يُوشِكُ يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، أَنْ تَرَى مَا هَاهُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا ".
ہمیں ابو علی حنفی نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں مالک بن انس نے ابو زبیر مکی سے حدیث بیان کی کہ ابو طفیل عامر بن واثلہ نے انھیں خبردی، انھیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بتایا، کہا: کہ ہم غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سال نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر میں دو نمازوں کو جمع کرتے تھے۔ پس ظہر اور عصر دونوں ملا کر پڑھیں اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دیر کی۔ پھر نکلے اور ظہر اور عصر ملا کر پڑھیں پھر اندر چلے گئے۔ پھر اس کے بعد نکلے تو مغرب اور عشاء ملا کر پڑھیں اس کے بعد فرمایا کہ کل تم لوگ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور دن نکلنے سے پہلے نہیں پہنچ سکو گے اور جو کوئی تم میں سے اس چشمے کے پاس جائے، تو اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے جب تک میں نہ آؤں۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اس چشمے پر پہنچے اور ہم سے پہلے وہاں دو آدمی پہنچ گئے تھے۔ چشمہ کے پانی کا یہ حال تھا کہ جوتی کے تسمہ کے برابر ہو گا، وہ بھی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں آدمیوں سے پوچھا کہ تم نے اس کے پانی میں ہاتھ لگایا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہا (اس لئے کہ انہوں نے حکم کے خلاف کیا تھا) اور اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سنایا۔ پھر لوگوں نے چلوؤں سے تھوڑا تھوڑا پانی ایک برتن میں جمع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھویا، پھر وہ پانی اس چشمہ میں ڈال دیا تو وہ چشمہ جوش مار کر بہنے لگا اور لوگوں نے (اپنے جانوروں اور آدمیوں کو) پانی پلانا شروع کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ! اگر تیری زندگی رہی تو تو دیکھے گا کہ یہاں جو جگہ ہے وہ گھنے باغات سے لہلہااٹھے گی۔"
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم دو نمازوں کو جمع کرتے تھے، آپ نے ظہر اور عصر اکٹھی پڑھیں اور مغرب وعشاء کو جمع کیا، حتیٰ کہ آپ نے ایک دن نماز کو مؤخر کیا، پھر نکلے اورظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھا، پھر اپنے خیمےمیں داخل ہوگئے، پھر اس کے بعد نکلے اور مغرب وعشاء کو جمع کیا، پھر فرمایا، ”تم کل ان شاء اللہ تبوک کے چشمہ پر پہنچ جاؤ گے اور تم اس پردن چڑھے ہی پہنچو گے تو تم میں سے جو اس پر پہنچے،میرے پہنچنے سے پہلے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے،“ ہم اس پر پہنچے تو ہم سے پہلے دو آدمی پہنچ گئے تھے اور چشمہ میں تسمہ کی مانند تھوڑا تھوڑا پانی بہہ رہا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا، ”کیا تم نے اس کے پانی کو ہاتھ لگایاہے؟“ انہوں نے کہا، جی ہاں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹا، سخت سست کہا اوراللہ کو جو منظورتھا، انہیں کہا،پھر لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے چشمہ سے تھوڑا تھوڑا پانی نکالا، حتیٰ کہ وہ کس چیز میں جمع ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ دھویا، پھر پانی اس چشمے میں لوٹا دیا تو چشمہ سے پانی جوش یا کثرت سے نکلنے لگا، حتیٰ کہ لوگوں نے (پی لیا اور) پلایا اورپھر فرمایا: ”اے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ!قریب ہے،اگر تجھے لمبی عمر ملی تو تم یہاں کے علاقہ کو باغوں سے بھرا ہوا دیکھو گے۔“