حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، حدثنا ابو علي الحنفي ، حدثنا مالك وهو ابن انس ، عن ابي الزبير المكي ، ان ابا الطفيل عامر بن واثلة اخبره، ان معاذ بن جبل اخبره، قال: " خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام غزوة تبوك، فكان يجمع الصلاة، فصلى الظهر والعصر جميعا، والمغرب والعشاء جميعا، حتى إذا كان يوما اخر الصلاة، ثم خرج فصلى الظهر، والعصر جميعا، ثم دخل، ثم خرج بعد ذلك، فصلى المغرب والعشاء جميعا، ثم قال: " إنكم ستاتون غدا إن شاء الله عين تبوك، وإنكم لن تاتوها حتى يضحي النهار، فمن جاءها منكم، فلا يمس من مائها شيئا، حتى آتي فجئناها وقد سبقنا إليها رجلان، والعين مثل الشراك تبض بشيء من ماء، قال: فسالهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل مسستما من مائها شيئا؟، قالا: نعم، فسبهما النبي صلى الله عليه وسلم، وقال لهما: ما شاء الله ان يقول، قال: ثم غرفوا بايديهم من العين قليلا قليلا، حتى اجتمع في شيء، قال: وغسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه يديه ووجهه ثم اعاده فيها، فجرت العين بماء منهمر، او قال غزير شك ابو علي ايهما، قال: حتى استقى الناس، ثم قال: يوشك يا معاذ إن طالت بك حياة، ان ترى ما هاهنا قد ملئ جنانا ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ وَهُوَ ابْنُ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ ، أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ عَامِرَ بْنَ وَاثِلَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَكَانَ يَجْمَعُ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمًا أَخَّرَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ ذَلِكَ، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّكُمْ سَتَأْتُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَيْنَ تَبُوكَ، وَإِنَّكُمْ لَنْ تَأْتُوهَا حَتَّى يُضْحِيَ النَّهَارُ، فَمَنْ جَاءَهَا مِنْكُمْ، فَلَا يَمَسَّ مِنْ مَائِهَا شَيْئًا، حَتَّى آتِيَ فَجِئْنَاهَا وَقَدْ سَبَقَنَا إِلَيْهَا رَجُلَانِ، وَالْعَيْنُ مِثْلُ الشِّرَاكِ تَبِضُّ بِشَيْءٍ مِنْ مَاء، قَالَ: فَسَأَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ مَسَسْتُمَا مِنْ مَائِهَا شَيْئًا؟، قَالَا: نَعَمْ، فَسَبَّهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لَهُمَا: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، قَالَ: ثُمَّ غَرَفُوا بِأَيْدِيهِمْ مِنَ الْعَيْنِ قَلِيلًا قَلِيلًا، حَتَّى اجْتَمَعَ فِي شَيْءٍ، قَالَ: وَغَسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ ثُمَّ أَعَادَهُ فِيهَا، فَجَرَتِ الْعَيْنُ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ، أَوَ قَالَ غَزِيرٍ شَكَّ أَبُو عَلِيٍّ أَيُّهُمَا، قَالَ: حَتَّى اسْتَقَى النَّاسُ، ثُمَّ قَالَ: يُوشِكُ يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، أَنْ تَرَى مَا هَاهُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا ".
ہمیں ابو علی حنفی نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں مالک بن انس نے ابو زبیر مکی سے حدیث بیان کی کہ ابو طفیل عامر بن واثلہ نے انھیں خبردی، انھیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بتایا، کہا: کہ ہم غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سال نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر میں دو نمازوں کو جمع کرتے تھے۔ پس ظہر اور عصر دونوں ملا کر پڑھیں اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دیر کی۔ پھر نکلے اور ظہر اور عصر ملا کر پڑھیں پھر اندر چلے گئے۔ پھر اس کے بعد نکلے تو مغرب اور عشاء ملا کر پڑھیں اس کے بعد فرمایا کہ کل تم لوگ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور دن نکلنے سے پہلے نہیں پہنچ سکو گے اور جو کوئی تم میں سے اس چشمے کے پاس جائے، تو اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے جب تک میں نہ آؤں۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اس چشمے پر پہنچے اور ہم سے پہلے وہاں دو آدمی پہنچ گئے تھے۔ چشمہ کے پانی کا یہ حال تھا کہ جوتی کے تسمہ کے برابر ہو گا، وہ بھی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں آدمیوں سے پوچھا کہ تم نے اس کے پانی میں ہاتھ لگایا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہا (اس لئے کہ انہوں نے حکم کے خلاف کیا تھا) اور اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سنایا۔ پھر لوگوں نے چلوؤں سے تھوڑا تھوڑا پانی ایک برتن میں جمع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھویا، پھر وہ پانی اس چشمہ میں ڈال دیا تو وہ چشمہ جوش مار کر بہنے لگا اور لوگوں نے (اپنے جانوروں اور آدمیوں کو) پانی پلانا شروع کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ! اگر تیری زندگی رہی تو تو دیکھے گا کہ یہاں جو جگہ ہے وہ گھنے باغات سے لہلہااٹھے گی۔"
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم دو نمازوں کو جمع کرتے تھے، آپ نے ظہر اور عصر اکٹھی پڑھیں اور مغرب وعشاء کو جمع کیا، حتیٰ کہ آپ نے ایک دن نماز کو مؤخر کیا، پھر نکلے اورظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھا، پھر اپنے خیمےمیں داخل ہوگئے، پھر اس کے بعد نکلے اور مغرب وعشاء کو جمع کیا، پھر فرمایا، ”تم کل ان شاء اللہ تبوک کے چشمہ پر پہنچ جاؤ گے اور تم اس پردن چڑھے ہی پہنچو گے تو تم میں سے جو اس پر پہنچے،میرے پہنچنے سے پہلے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے،“ ہم اس پر پہنچے تو ہم سے پہلے دو آدمی پہنچ گئے تھے اور چشمہ میں تسمہ کی مانند تھوڑا تھوڑا پانی بہہ رہا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا، ”کیا تم نے اس کے پانی کو ہاتھ لگایاہے؟“ انہوں نے کہا، جی ہاں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹا، سخت سست کہا اوراللہ کو جو منظورتھا، انہیں کہا،پھر لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے چشمہ سے تھوڑا تھوڑا پانی نکالا، حتیٰ کہ وہ کس چیز میں جمع ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ دھویا، پھر پانی اس چشمے میں لوٹا دیا تو چشمہ سے پانی جوش یا کثرت سے نکلنے لگا، حتیٰ کہ لوگوں نے (پی لیا اور) پلایا اورپھر فرمایا: ”اے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ!قریب ہے،اگر تجھے لمبی عمر ملی تو تم یہاں کے علاقہ کو باغوں سے بھرا ہوا دیکھو گے۔“
خرجنا مع رسول الله عام غزوة تبوك فكان يجمع الصلاة فصلى الظهر والعصر جميعا والمغرب والعشاء جميعا حتى إذا كان يوما أخر الصلاة ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا ثم دخل ثم خرج بعد ذلك فصلى المغرب والعشاء جميعا ثم قال إنكم ستأتون غدا إن شاء ال
في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى أن يجمعها إلى العصر فيصليهما جميعا وإذا ارتحل بعد زيغ الشمس عجل العصر إلى الظهر وصلى الظهر والعصر جميعا ثم سار وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فص
إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر حتى يجمعها إلى العصر فيصليهما جميعا وإذا ارتحل بعد زيغ الشمس صلى الظهر والعصر جميعا ثم سار وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب
في غزوة تبوك إذا زاغت الشمس قبل أن يرتحل جمع بين الظهر والعصر وإن يرتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر حتى ينزل للعصر وفي المغرب مثل ذلك إن غابت الشمس قبل أن يرتحل جمع بين المغرب والعشاء وإن يرتحل قبل أن تغيب الشمس أخر الم
إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر حتى يصليها مع العصر وإذا ارتحل بعد زيغ الشمس عجل العصر حتى يصليهما جميعا وإذا ارتحل قبل غروب الشمس أخر المغرب حتى يصليهما جميعا وإذا ارتحل بعد غروب الشمس صلاها مع المغرب
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5947
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) تبض: تھوڑا تھوڑا بہہ رہا ہے، قطرہ قطرہ نکل رہا ہے۔ (2) ماؤ منهمر: مسلسل بہنے والا۔ (3) غزير: بہت زیادہ۔ (4) جنان: جنة کی جمع ہے، باغ، یہ آپ کا معجزہ ہے کہ آپ کی پیشن گوئی کے مطابق اس چشمہ کے اردگرد سرسبز و شاداب باغات لہلہانے لگے۔ فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کے چشمہ پر پہنچ کر لوگوں کو اس پانی کے استعمال کرنے سے روک دیا تھا، تاکہ آپ سے پہلے، اس کو ہاتھ لگانے سے کہیں، وہ بالکل خشک نہ ہو جائے اور برکت کے ظہور کے لیے پانی ہی نہ مل سکے، اللہ چاہے تو پتھر سے بھی پانی کے 12 چشمے نکل پڑتے ہیں۔ اور امام کسی مصلحت کے تحت مفاد عامہ کی چیز کے استعمال سے روک سکتا ہے، ان دو آدمیوں نے نادانی، جہالت یا بھول کے سبب آپ کے حکم کی مخالفت کی اور مخالفت کے سبب آپ نے ان کو سرزنش اور توبیخ فرمائی کہ تمہیں میرے فرمان کا پاس کرنا چاہیے تھا اور بقول بعض وہ دونوں منافق تھے، دو نمازیں جمع کرنے کا مسئلہ، نماز کے مسائل میں گزر چکا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5947
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 172
´سفر میں نماز جمع کر کے پڑھنا جائز ہے` «. . . فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر کی اور مغرب و عشاء کی (نمازیں) جمع کرتے تھے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 172]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 706/10 بعدح 2281، من حديث ما لك به وصرح ابوالبيز بالسماع عند احمد 229/5، وابن خزيمه 966]
تفقه ➊ سفر میں ظہر و عصر کی دو نمازیں (دو رکعتیں دو رکعتیں) اور مغرب و عشاء کی نمازیں (تین رکعتیں دو رکعتیں) جمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔ ➋ خلیفہ بذات خود اپنی فوجوں کے ساتھ کافروں سے جنگ کر سکتا ہے۔ ➌ غزوہ تبوک شام کے عیسائیوں کے خلاف تھا جو مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ یہ واقعہ رجب 9 ہجری میں ہوا تھا۔ دیکھئے: [التمهيد 196/12] ➍ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر دوران سفر حالت قیام میں دو نمازیں میں جمع کر سکتا ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 196/12] ➎ جمع تقدیم کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کے وقت عصر کی اور مغرب کے وقت عشاء کی نماز پڑھنا اور جمع تاخیر عصر کے وقت ظہر اور عشاء کے وقت مغرب پڑھنے کو کہتے ہیں۔ جمع صوری کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کے آخری وقت میں ظہر کی نماز اور عصر کے ابتدائی وقت میں عصر کی نماز پڑھ کر جمع کرنا، اسی طرح مغرب کے آخری وقت میں مغرب کی اور عشاء کے ابتدائی وقت میں عشاء کی نماز پڑھنا ہے۔ جمع کی یہ تینوں قسمیں جائز ہیں۔ ان میں سے کسی ایک قسم کا اقرار اور باقی کا انکار صحیح نہیں ہے۔ ➏ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم معجزے کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کی برکت سے اللہ نے چشمہ جاری کر دیا۔ بعد میں صدیوں بعد محمد بن وضاح نے یہ چشمہ دیکھا تھا۔ دیکھئے: [التمهيد 208/12 وسندہ صحیح] ➐ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اللہ کی وحی سے) غیب کی خبریں بیان کرتے تھے۔ حافظ ابن عبدالبر نے کہا: «وفيه إخباره - صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ - بغيب كان بعده وهذا غير عجيب منه ولا مجهول من شأنه۔ صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ۔ وأعلى ذكره» ”اور اس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد غیب کی خبر دی اور یہ عجیب نہیں ہے اور نہ آپ صلى الله عليه وسلم کی شان سے غیر معلوم ہے۔ اللہ آپ کا ذکر بلند فرمائے۔“[االتمهيد 12/ 208،] ● یاد رہے کہ عالم الغیب ہونا صرف الله تعالی کی ہی صفت خاصہ ہے۔ ➑ ارشاد نبوی کی مخالفت کرنا کبھی جائز نہیں ہے۔ ➒ ابن شہاب الزہری نے سالم بن عبداللہ بن عمر سے پوچھا: کیا سفر میں ظہر و عصر کی نمازیں میں جمع کی جا سکتی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ”جی ہاں! اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیا تم نے عرفات میں لوگوں کو (جمع کی) نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا؟“[موطأ مالك 145/1 ح 330 وسنده صحيح] ➓ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث 109، 199، ومسلم 703، 705]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 108
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 588
´مسافر کس وقت ظہر اور عصر کو جمع کرے؟` ابوالطفیل عامر بن واثلۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے سال نکلے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے رہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز کو مؤخر کیا، پھر نکلے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ ادا کیا، پھر اندر داخل ہوئے، پھر نکلے تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 588]
588 ۔ اردو حاشیہ: اس میں بطاہر جمع تاخیر کا بیان ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 588
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1208
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔` معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں سفر سے پہلے سورج ڈھل جانے کی صورت میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کو ظہر کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے، اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ آپ عصر کے لیے قیام کرتے، اسی طرح آپ مغرب میں کرتے، اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈوب جاتا تو عشاء کو مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج ڈوبنے سے پہلے کوچ کرتے تو مغرب کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ عشاء کے لیے قیام کرتے پھر دونوں کو ملا کر پڑھ لیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشام بن عروہ نے حصین بن عبداللہ سے حصین نے کریب سے، کریب نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مفضل اور لیث کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1208]
1208۔ اردو حاشیہ: ➊ اثنائے سفر میں ”جمع بین الصلٰواتین“ مسنون ہے۔ ➋ عصر کو ظہر کے وقت میں اور عشاء کو مغرب کے وقت میں پڑھنا ”جمع تقدیم“ کہلاتا ہے، اور ظہر کو عصر کے وقت میں اور مغرب کو عشاء کے وقت میں پڑھنا ”جمع تاخیر“ اور حسب احوال دونوں ہی صورتیں جائز ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف ”جمع صوری“ جائز ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر کو اس کے آخری وقت میں پڑھا جائے اور عصر کو اس کے ابتدائی وقت میں اسی طرح مغرب، عشاء کو جمع کرنے کا مسئلہ ہے۔ یعنی مغرب کو اس کے آخری وقت میں اور عشاء کو اس کے ابتدائی وقت میں پڑھا جائے، لیکن اس طرح جمع کر کے پڑھنے کو، کیا جمع کر کے پڑھنا کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو ہر نماز اپنے اپنے ہی وقت پر ادا ہوئی ہے، اسے جمع کہنا ہی غلط ہے، اس لئے انہوں نے اس کا نام ہی ”جمع صوری“ رکھا ہے۔ یعنی دیکھنے میں جمع ہے لیکن حقیقت میں جمع نہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”جمع تقدیم“ یا ”جمع تاخیر“ کی ہے۔ کیا وہ جمع صرف صورتاً اسی طرح تھیں، جس طرح ”جمع صوری“ کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ ظاہری بات ہے حدیث کے الفاظ اس کو قبول نہیں کرتے، حدیث سے تو واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ جمع تقدیم کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز کو اس کے اول وقت میں (ظہر یا مغرب کی نماز کو) پڑھا اور اس کے ساتھ ہی فوراً دوسری نماز (عصر یا عشاء) پڑھ لی۔ اور تاخیر کی صورت میں پہلی نماز کا وقت نکل جانے کے بعد دوسری نماز کے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں نمازیں (عصرکے وقت میں عصر کے ساتھ نماز ظہر بھی اور عشاء کے وقت میں عشاء کی نماز کے ساتھ مغرب کی نماز بھی) پڑھیں، ان کو کسی طرح بھی ”جمع صوری“ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ حقیقی جمع تھیں اس لئے حالات کے مطابق جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طریقے جائز ہیں۔ اور یہ واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ یہ اسلام کے ان محاسن میں سے ایک ہے، جن کی بنا پر اسلام کو «دين يسر . . .»(آسان دین) اور دین رحمت کہا جاتا ہے اس کو صرف جمع صوری کی شکل میں محدود کر دینے والے اس «یسر» آسانی اور رحمت سے مسلمانوں کو محروم کر دینا چاہتے ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امتیوں کو عطا کی ہیں۔ «هداهم الله إلى صراط المستقيم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1208
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1070
´سفر میں جمع بین الصلاتین (دو نمازیں جمع کرنے) کا بیان۔` معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر، اور مغرب و عشاء کی نماز کو غزوہ تبوک کے سفر میں جمع فرمایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1070]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سفر میں جس طرح نماز قصرکرنا جائز ہے۔ اسی طرح دو نمازوں کو ملا کر ایک وقت میں پڑھ لینا بھی جائز ہے۔
(2) سفر میں نمازیں جمع کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ پہلی نماز کو مؤخر کرکے دوسری نماز کے وقت میں ادا کیاجائے۔ یعنی ظہر کی نماز عصر کے وقت پڑھی جائے۔ اور مغرب کی نماز عشاء کےوقت پڑھی جائےاسے جمع تاخیر کہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسری نماز کو معروف وقت سے پہلے پہلی نماز کے وقت ہی میں پڑھ لیا جائے۔ یعنی عصر کو ظہر کے وقت اور عشاء کو مغرب کے وقت پڑھ لیا جائے اسے جمع تقدیم کہتے ہیں۔ دیکھئے: (جامع الترمذي، الصلاۃ، باب ما جاء فی الجمع بین الصلاتین، حدیث: 553)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1070
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 553
´دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔` معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عصر کے ساتھ ملا دیتے اور دونوں کو ایک ساتھ پڑھتے، اور جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو عصر کو پہلے کر کے ظہر سے ملا دیتے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے۔ اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے، اور جب مغرب کے بعد کوچ فرماتے تو عشاء کو پہلے کر کے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 553]
اردو حاشہ: 1؎: جو آگے آ رہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 553