وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو سعيد الاشج ، قالا: حدثنا وكيع ، عن الاعمش ، عن ابي سفيان ، عن جابر ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، رايت في المنام كان راسي قطع قال، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: " إذا لعب الشيطان باحدكم في منامه، فلا يحدث به الناس "، وفي رواية ابي بكر، إذا لعب باحدكم، ولم يذكر الشيطان.وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ رَأْسِي قُطِعَ قَالَ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " إِذَا لَعِبَ الشَّيْطَانُ بِأَحَدِكُمْ فِي مَنَامِهِ، فَلَا يُحَدِّثْ بِهِ النَّاسَ "، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ، إِذَا لُعِبَ بِأَحَدِكُمْ، وَلَمْ يَذْكُرِ الشَّيْطَانَ.
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو سعید اشج نے کہا: ہمیں وکیع نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو سفیان سے، انھوں نےحضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے خواب میں د یکھا کہ میر اسر کاٹ دیا گیا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا؛"جب خواب میں شیطان تم میں سے کسی کے ساتھ چھیڑ خوانی کرے تو وہ لوگوں کو نہ بتاتا پھرے۔"ابو بکر کی روایت میں ہے: "جب تم میں سے کسی کے ساتھ چھیڑ خوانی کی جائے۔"اور انھوں نے شیطان کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے نیند میں دیکھا ہے، گویا کہ میراسر کاٹ دیا گیا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اورفرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے ساتھ شیطان اس کی نیند میں اٹھکیلیاں کرے تو لوگوں کو نہ بتائے۔“ اور ابوبکر کی روایت میں، شیطان کا لفظ نہیں ہے،صرف اتنا ہے، ”جب تم میں سے کسی کے ساتھ اٹھکیلی کی جائے۔“
حدثنا حاجب بن الوليد ، حدثنا محمد بن حرب ، عن الزبيدي ، اخبرني الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، ان ابن عباس ، او ابا هريرة ، كان يحدث: ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم. ح وحدثني حرملة بن يحيي التجيبيواللفظ له، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، ان عبيد الله بن عبد الله بن عتبة اخبره، ان ابن عباس كان يحدث: " ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني ارى الليلة في المنام ظلة تنطف السمن والعسل، فارى الناس يتكففون منها بايديهم، فالمستكثر، والمستقل، وارى سببا واصلا من السماء إلى الارض، فاراك اخذت به فعلوت، ثم اخذ به رجل من بعدك فعلا، ثم اخذ به رجل آخر فعلا، ثم اخذ به رجل آخر فانقطع به، ثم وصل له فعلا، قال ابو بكر: يا رسول الله، بابي انت، والله لتدعني فلاعبرنها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اعبرها، قال ابو بكر: اما الظلة، فظلة الإسلام، واما الذي ينطف من السمن والعسل، فالقرآن حلاوته ولينه، واما ما يتكفف الناس من ذلك، فالمستكثر من القرآن والمستقل، واما السبب الواصل من السماء إلى الارض، فالحق الذي انت عليه تاخذ به فيعليك الله به، ثم ياخذ به رجل من بعدك فيعلو به، ثم ياخذ به رجل آخر فيعلو به، ثم ياخذ به رجل آخر فينقطع به، ثم يوصل له فيعلو به، فاخبرني يا رسول الله، بابي انت، اصبت ام اخطات؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اصبت بعضا، واخطات بعضا، قال: فوالله يا رسول الله لتحدثني ما الذي اخطات، قال: لا تقسم ".حَدَّثَنَا حَاجِبُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ ، أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ، أَوْ أَبَا هُرَيْرَةَ ، كَانَ يُحَدِّثُ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي التُّجِيبِيُّوَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يُحَدِّثُ: " أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرَى اللَّيْلَةَ فِي الْمَنَامِ ظُلَّةً تَنْطِفُ السَّمْنَ وَالْعَسَلَ، فَأَرَى النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهَا بِأَيْدِيهِمْ، فَالْمُسْتَكْثِرُ، وَالْمُسْتَقِلُّ، وَأَرَى سَبَبًا وَاصِلًا مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، فَأَرَاكَ أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَعَلَا، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ بِهِ، ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ، وَاللَّهِ لَتَدَعَنِّي فَلَأَعْبُرَنَّهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اعْبُرْهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَّا الظُّلَّةُ، فَظُلَّةُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الَّذِي يَنْطِفُ مِنَ السَّمْنِ وَالْعَسَلِ، فَالْقُرْآنُ حَلَاوَتُهُ وَلِينُهُ، وَأَمَّا مَا يَتَكَفَّفُ النَّاسُ مِنْ ذَلِكَ، فَالْمُسْتَكْثِرُ مِنَ الْقُرْآنِ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، فَالْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللَّهُ بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ، فَأَخْبِرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ، أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصَبْتَ بَعْضًا، وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا، قَالَ: فَوَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَتُحَدِّثَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ، قَالَ: لَا تُقْسِمْ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں نے رات کو خواب میں دیکھا ایک ابر کے ٹکڑے سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے لوگ اس کو اپنی لپوں سے لیتے ہیں کوئی زیادہ لیتا ہے کوئی کم اور میں نے دیکھا آسمان سے زمین تک ایک رسی لٹکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پکڑ کر اوپر چڑھ گئے، پھر اور ایک شخص نے تھاما وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر اور ایک شخص نے تھاما وہ بھی چڑھ گیا، پھر اور ایک شخص نے تھاما تو وہ ٹوٹ گئی پھر وہ جڑ گئی اور وہ بھی اوپر چلا گیا۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میر باپ آپ پر قربان ہو، مجھے اس کی تعبیر کہنے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا کہہ۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ ابر کا ٹکڑا تو اسلام ہے۔ گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت اور نرمی مراد ہے اور لوگ جو زیادہ اور کم لیتے ہیں وہ بھی بعض کو بہت قرآن یاد ہے اور بعض کو کم اور رسی جو آسمان سے زمین تک لٹکی وہ دین حق ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دین پر اپنے پاس بلا لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک اور شخص اس کو تھامے گا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ) وہ بھی اسی طرح سے چڑھ جائے گا پھر ایک اور تھامے گا اور اس کا بھی یہی حال ہو گا پھر ایک شخص تھامے گا تو کچھ خلل پڑے گا لیکن وہ آخر خلل مٹ جائے گا اور وہ بھی چڑھ جائے گا اور مجھ سے بیان کیجئیے یا رسول اللہ! میں نے ٹھیک تعبیر کی یا غلط۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ تو نے ٹھیک کہا کچھ تو نے غلط کہا۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! آپ بیان کیجئیے میں نے کیا غلطی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم مت کھا۔“
سفیان نے زہری سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: احد سے واپسی پر ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہا: اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آج رات خواب میں بادل کے ایک ٹکڑے کو سایہ فگن دیکھا ہے جو شہد اور گھی ٹپکا رہا تھا، یونس کی حدیث کے مفہوم کے مطابق (حدیث بیان کی۔)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں،غزوہ احد سے واپسی کے وقت ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا،اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )!آج رات میں نے ایک بادل کا سایہ دار ٹکڑا دیکھا ہے، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے، آگے مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
عبدالرزاق نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی انھوں نےعبیداللہ بن عبداللہ سے بن عتبہ سے (آگے) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، عبدالرزاق نے کہا کہ معمر کبھی کہتے تھے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور کبھی کہتے تھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: میں نے آج رات ایک بادل کو سایہ فگن دیکھا ہے۔ان سب کی بیان کردہ حدیث کے مفہوم کے مطابق۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، معمر رحمۃ اللہ علیہ بعض دفعہ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے اور بعض دفعہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا، میں آج رات ایک سائبان دیکھتا ہوں، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
سلمان بن کثیر نے زہری سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے رویت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے یہ فرمایا کرتے تھے: "تم میں سے جس شخص نے خواب دیکھا ہے، وہ بیان کرے، میں اس کی تعبیر بتاؤں گا۔"کہا: تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے ایک بادل کو سایہ فگن دیکھا۔جس طرح ان سب (بیان کرنے والوں) کی حدیث ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دفعہ اپنے ساتھیوں سے فرماتے، ”تم میں سے جس نے خواب دیکھا ہے تو وہ بیان کرے، میں اسکے لیے، اس کی تعبیر لگاؤں،“ تو ایک آدمی آ کر کہنے لگا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ایک سائبان دیکھا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالاراویوں نے بیان کیا ہے۔
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " رايت ذات ليلة فيما يرى النائم كانا في دار عقبة بن رافع، فاتينا برطب من رطب ابن طاب، فاولت الرفعة لنا في الدنيا، والعاقبة في الآخرة، وان ديننا قد طاب ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ كَأَنَّا فِي دَارِ عُقْبَةَ بْنِ رَافِعٍ، فَأُتِينَا بِرُطَبٍ مِنْ رُطَبِ ابْنِ طَابٍ، فَأَوَّلْتُ الرِّفْعَةَ لَنَا فِي الدُّنْيَا، وَالْعَاقِبَةَ فِي الْآخِرَةِ، وَأَنَّ دِينَنَا قَدْ طَابَ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایک رات کو نیند کی حالت میں دیکھنے والے کی طرح (خواب) دیکھا کہ جیسے ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں، پس ہمارے آگے تر کھجوریں لائی گئیں، جس کو ابن طاب کی کھجور کا نام دیا جاتا ہے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ ہمارا درجہ دنیا میں بلند ہو گا، آخرت میں نیک انجام ہو گا اور یقیناً ہمارا دین بہتر اور عمدہ ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک رات میں نے خواب میں دیکھا،گویا کہ ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں تو ہمارے پاس ابن طاب کی تازہ کھجوروں میں سے کھجوریں لائی گئیں تو میں نے تعبیر لگائی،دنیا میں ہمارے لیے رفعت ہے اور آخرت میں اچھاانجام اور ہمارا دین پختہ اور مکمل ہوگیا ہے۔“
صخر بن جویریہ نے ہمیں نافع سے حدیث سنائی کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے خواب میں خودکو دیکھا کہ میں ایک مسواک سے دانت صاف کررہا ہوں، اس و قت دو آدمیوں نے (مسواک حاصل کرنے کےلیے) میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ان میں ایک دوسرے سے بڑا تھا، میں نے وہ مسواک چھوٹے کو دے دی، پھر مجھ سے کہا گیا: بڑے کو دین تو میں نے وہ بڑے کو دی۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”میں نے خواب میں اپنے آپ کو مسواک کرتے ہوئے دیکھا تو مجھے دو آدمیوں نے کھینچا، ایک دوسرے سے بڑا تھا تو میں نے مسواک ان میں سے چھوٹے کو دے دینی چاہی، سو مجھے کہا گیا، بڑے کو دو، تومیں نے اسے بڑے کے حوالہ کردی۔“
حدثنا ابو عامر عبد الله بن براد الاشعري ، وابو كريب محمد بن العلاء ، وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد ، عن ابي بردة جده، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " رايت في المنام اني اهاجر من مكة إلى ارض بها نخل، فذهب وهلي إلى انها اليمامة، او هجر، فإذا هي المدينة يثرب، ورايت في رؤياي هذه اني هززت سيفا فانقطع صدره، فإذا هو ما اصيب من المؤمنين يوم احد، ثم هززته اخرى، فعاد احسن ما كان، فإذا هو ما جاء الله به من الفتح واجتماع المؤمنين، ورايت فيها ايضا بقرا والله خير، فإذا هم النفر من المؤمنين يوم احد، وإذا الخير ما جاء الله به من الخير بعد، وثواب الصدق الذي آتانا الله بعد يوم بدر ".حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ، فَذَهَبَ وَهْلِي إِلَى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ، أَوْ هَجَرُ، فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبُ، وَرَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ أَنِّي هَزَزْتُ سَيْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ، فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ، ثُمَّ هَزَزْتُهُ أُخْرَى، فَعَادَ أَحْسَنَ مَا كَانَ، فَإِذَا هُوَ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَيْضًا بَقَرًا وَاللَّهُ خَيْرٌ، فَإِذَا هُمُ النَّفَرُ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَإِذَا الْخَيْرُ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْخَيْرِ بَعْدُ، وَثَوَابُ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا اللَّهُ بَعْدَ يَوْمِ بَدْرٍ ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے اس زمین کی طرف ہجرت کرتا ہوں جہاں کھجور کے درخت ہیں، میرا گمان یمامہ اور حجر کی طرف گیا لیکن وہ مدینہ نکلا، جس کا نام یثرب بھی ہے اور میں نے اپنے اسی خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار کو ہلایا تو وہ اوپر سے ٹوٹ گئی، اس کی تعبیر احد کے دن مسلمانوں کی شکست نکلی۔ پھر میں نے تلوار کو دوسری بار ہلایا تو آگے سے ویسی ہی ثابت اور اچھی ہو گئی۔ اس کی تعبیر یہ نکلی کہ اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب کی اور مسلمانوں کی جماعت قائم ہو گئی (یعنی جنگ احد کے بعد خیبر اور مکہ فتح ہوا اور اسلام کے لشکر نے زور پکڑا) اور میں نے اسی خواب میں گائیں دیکھیں (جو کاٹی جاتی تھیں) اور اللہ تعالیٰ بہتر ہے (جیسے یہ جملہ بولا جاتا ہے اللہ خیر) اس سے مسلمانوں کے وہ لوگ مراد تھے جو احد میں شہید ہوئے اور خیر سے مراد وہ خیر تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد بھیجی اور سچائی کا ثواب جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدر کے بعد عنایت کیا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نےخواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کررہا ہوں، جہاں کھجوریں وافر ہیں تو میرا خیال اس طرف گیا کہ یہ یمامہ یا ہجر کاعلاقہ ہے اور وہ یثرب کا شہر نکلا اور میں نے اس خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار ہلائی تو اس کا اگلا حصہ ٹوٹ گیا تو اس سے مراد وہ مصیبت نکلی، جس سےمسلمان احد کے دن دوچار ہوئے، پھر میں نے اس کو دوبارہ ہلایا تو وہ انتہائی عمدہ حالت کی طرف لوٹ آئی تو اس سے مراد اللہ کی عطا کردہ فتح اورمسلمانوں کا اجتماع نکلا، اور اس میں، میں نے ایک گائے دیکھی اور اللہ کا فیصلہ ہی بہترہے تو اس سے مراد مومنوں کا گروہ ہے، جو احد کے دن شہید ہوا اور خیر سے مراد وہ خیر ہے،جو بعد میں حاصل ہوئی یا اللہ نے عطاکی اور لڑائی میں جم جانے کا وہ بدلا، جو اللہ نے ہمیں بدر کے بعد عطاء فرمایا۔“
حدثني محمد بن سهل التميمي ، حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن عبد الله بن ابي حسين ، حدثنا نافع بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: " قدم مسيلمة الكذاب على عهد النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، فجعل يقول: إن جعل لي محمد الامر من بعده تبعته، فقدمها في بشر كثير من قومه، فاقبل إليه النبي صلى الله عليه وسلم، ومعه ثابت بن قيس بن شماس، وفي يد النبي صلى الله عليه وسلم قطعة جريدة، حتى وقف على مسيلمة في اصحابه، قال: لو سالتني هذه القطعة ما اعطيتكها، ولن اتعدى امر الله فيك، ولئن ادبرت ليعقرنك الله، وإني لاراك الذي اريت فيك ما اريت، وهذا ثابت يجيبك عني، ثم انصرف عنه، فقال ابن عباس: فسالت عن قول النبي صلى الله عليه وسلم: إنك ارى الذي اريت فيك ما اريت، فاخبرني ابو هريرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: بينا انا نائم رايت في يدي سوارين من ذهب، فاهمني شانهما فاوحي إلي في المنام ان انفخهما، فنفختهما فطارا، فاولتهما كذابين يخرجان من بعدي، فكان احدهما العنسي صاحب صنعاء، والآخر مسيلمة صاحب اليمامة ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَّابُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: إِنْ جَعَلَ لِي مُحَمَّدٌ الْأَمْرَ مِنْ بَعْدِهِ تَبِعْتُهُ، فَقَدِمَهَا فِي بَشَرٍ كَثِيرٍ مِنْ قَوْمِهِ، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَفِي يَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِطْعَةُ جَرِيدَةٍ، حَتَّى وَقَفَ عَلَى مُسَيْلِمَةَ فِي أَصْحَابِهِ، قَالَ: لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ الْقِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتُكَهَا، وَلَنْ أَتَعَدَّى أَمْرَ اللَّهِ فِيكَ، وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ لَيَعْقِرَنَّكَ اللَّهُ، وَإِنِّي لَأُرَاكَ الَّذِي أُرِيتُ فِيكَ مَا أُرِيتُ، وَهَذَا ثَابِتٌ يُجِيبُكَ عَنِّي، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَسَأَلْتُ عَنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ أَرَى الَّذِي أُرِيتُ فِيكَ مَا أُرِيتُ، فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا فَأُوحِيَ إِلَيَّ فِي الْمَنَامِ أَنِ انْفُخْهُمَا، فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا، فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ مِنْ بَعْدِي، فَكَانَ أَحَدُهُمَا الْعَنْسِيَّ صَاحِبَ صَنْعَاءَ، وَالْآخَرُ مُسَيْلِمَةَ صَاحِبَ الْيَمَامَةِ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ منورہ میں آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے اپنے بعد خلافت دیں تو میں ان کی پیروی کرتا ہوں۔ مسیلمہ کذاب اپنے ساتھ اپنی قوم کے بہت سے لوگ لے کر آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں لکڑی کا ایک ٹکڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسیلمہ کے لوگوں کے پاس ٹھہرے اور فرمایا کہ اے مسیلمہ! اگر تو مجھ سے یہ لکڑی کا ٹکڑا مانگے تو بھی تجھ کو نہ دوں گا اور میں اللہ کے حکم کے خلاف تیرے بارے میں فیصلہ کرنے والا نہیں اور اگر تو میرا کہنا نہ مانے گا تو اللہ تعالیٰ تجھ کو قتل کرے گا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا صحیح ہو گیا) اور یقیناً تجھے وہی جانتا ہوں جو مجھے تیرے بارہ میں خواب میں دکھایا گیا ہے اور یہ ثابت تجھے میری طرف سے جواب دے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے گئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا کہ تو وہی ہے جو مجھے خواب میں تیرے بارے دکھلایا گیا، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ میں سو رہا تھا کہ میں نے (خواب میں) اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے، وہ مجھے برے معلوم ہوئے اور خواب ہی میں مجھ پر القا کیا گیا کہ ان کو پھونک مارو، میں نے پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے ان کی تعبیر یہ کی کہ اس سے مراد دو جھوٹے ہیں، جو میرے بعد نکلیں گے۔ ان میں سے ایک عنسی صنعاء والا اور دوسرا یمامہ والا (مسیلمہ کذاب) ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسیلمہ کذاب مدینہ آیا اور کہنے لگا، اگر محمد خلافت اپنے بعد مجھے دے گا تو میں ان کی پیروی کروں گا، وہ مدینہ میں اپنی قوم کے بہت سے افراد کے ساتھ آیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، ثابت بن قیس بن شماس کی معیت میں اس کی طرف گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کھجوروں کی شاخ کا ایک ٹکڑا تھا، حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم مسیلمہ کے پاس، جہاں وہ اپنے ساتھیوں کےساتھ تھا جا رکے اور فرمایا: ”اگر تو مجھ سے شاخ کا یہ ٹکڑا مانگے تو میں تمھیں یہ بھی نہیں دوں گا اور تیرے بارے میں اللہ کا جو حکم ہے اس سے تجاوز نہیں کروں گا اور اگر تو نے(میری اطاعت سے) منہ موڑا تو اللہ تجھے غارت کردے گا اور میں تمھیں دیکھ رہا ہوں، جس کے بارے میں مجھے خواب دکھائی گئی ہے اور یہ ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، جومیری طرف سے تجھے جو جواب دےگا۔“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم اس سے لوٹ آئے۔
ہمام بن منبہ نے حدیث بیان کی، کہا: یہ احادیث ہیں جو ہمیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں۔انھوں نے کئی احادیث بیان کیں، ان میں سے (ایک) یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب میں سو رہا تھا تو زمین کے خزانے میرے پاس لائے گئے۔اس (خزانے کو لانے والے) نے سونے کے دو کنگن میرے ہاتھوں میں ڈال دیے، یہ دونوں مجھ پر گراں گزرے اور انھوں نے مجھے تشویش میں مبتلا کردیا، تو میری طرف وحی کی گئی کہ ان دونوں پھونک ماریں، میں نے دونوں کو پھونک ماری تو وہ چلے گئے۔میں نے ان سے مراد دو کذب لئے، میں ان کے وسط میں (مقیم) ہوں۔ایک (دائیں ہاتھ پر واقع) صنعاء کا رہنے والا اور دوسرا بائیں ہاتھ پر) یمامہ کارہنے والا۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہمام بن منبہ جو احادیث بیان کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبکہ میں سویا ہوا تھا، میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے دونوں ہاتھوں میں، سونے کے دو کنگن ڈالے گئے، سو وہ مجھے ناگوار گزرے اور مجھے فکر لاحق ہوئی تو مجھے وحی کی گئی ان پر پھونک مارو، میں نے ان پر پھونک ماری تو وہ ختم ہو گئے تو میں نے ان کی تعبیر یہ کی کہ یہ دو جھوٹے ہیں جن کے درمیان میں ہوں، یعنی صنعاء کا باشندہ اور یمامہ کا باشندہ۔“