Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الرُّؤْيَا
خواب کا بیان
4. باب رُؤْيَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 5934
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ، فَذَهَبَ وَهْلِي إِلَى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ، أَوْ هَجَرُ، فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبُ، وَرَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ أَنِّي هَزَزْتُ سَيْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ، فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ، ثُمَّ هَزَزْتُهُ أُخْرَى، فَعَادَ أَحْسَنَ مَا كَانَ، فَإِذَا هُوَ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَيْضًا بَقَرًا وَاللَّهُ خَيْرٌ، فَإِذَا هُمُ النَّفَرُ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَإِذَا الْخَيْرُ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْخَيْرِ بَعْدُ، وَثَوَابُ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا اللَّهُ بَعْدَ يَوْمِ بَدْرٍ ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے اس زمین کی طرف ہجرت کرتا ہوں جہاں کھجور کے درخت ہیں، میرا گمان یمامہ اور حجر کی طرف گیا لیکن وہ مدینہ نکلا، جس کا نام یثرب بھی ہے اور میں نے اپنے اسی خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار کو ہلایا تو وہ اوپر سے ٹوٹ گئی، اس کی تعبیر احد کے دن مسلمانوں کی شکست نکلی۔ پھر میں نے تلوار کو دوسری بار ہلایا تو آگے سے ویسی ہی ثابت اور اچھی ہو گئی۔ اس کی تعبیر یہ نکلی کہ اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب کی اور مسلمانوں کی جماعت قائم ہو گئی (یعنی جنگ احد کے بعد خیبر اور مکہ فتح ہوا اور اسلام کے لشکر نے زور پکڑا) اور میں نے اسی خواب میں گائیں دیکھیں (جو کاٹی جاتی تھیں) اور اللہ تعالیٰ بہتر ہے (جیسے یہ جملہ بولا جاتا ہے اللہ خیر) اس سے مسلمانوں کے وہ لوگ مراد تھے جو احد میں شہید ہوئے اور خیر سے مراد وہ خیر تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد بھیجی اور سچائی کا ثواب جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدر کے بعد عنایت کیا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نےخواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کررہا ہوں، جہاں کھجوریں وافر ہیں تو میرا خیال اس طرف گیا کہ یہ یمامہ یا ہجر کاعلاقہ ہے اور وہ یثرب کا شہر نکلا اور میں نے اس خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار ہلائی تو اس کا اگلا حصہ ٹوٹ گیا تو اس سے مراد وہ مصیبت نکلی، جس سےمسلمان احد کے دن دوچار ہوئے، پھر میں نے اس کو دوبارہ ہلایا تو وہ انتہائی عمدہ حالت کی طرف لوٹ آئی تو اس سے مراد اللہ کی عطا کردہ فتح اورمسلمانوں کا اجتماع نکلا، اور اس میں، میں نے ایک گائے دیکھی اور اللہ کا فیصلہ ہی بہترہے تو اس سے مراد مومنوں کا گروہ ہے، جو احد کے دن شہید ہوا اور خیر سے مراد وہ خیر ہے،جو بعد میں حاصل ہوئی یا اللہ نے عطاکی اور لڑائی میں جم جانے کا وہ بدلا، جو اللہ نے ہمیں بدر کے بعد عطاء فرمایا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5934 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5934  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ہجر اور یمامہ،
یمن کی طرف دو علاقے ہیں،
جہاں کھجوریں بہت ہوتی ہیں،
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
خواب کی تعبیر میں،
اجتہاد کو دخل ہے،
اس لیے اس میں غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے،
انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے،
لیکن اگر وحی میں اس کی پوری تفصیل نہ ہو تو پھر اس میں اجتہاد کی بنا پر غلطی ہو سکتی ہے،
آپﷺ کو وحی کے ذریعہ یہ بتایا گیا کہ آپ ایسے علاقہ کی طرف ہجرت کریں گے،
جہاں کھجوریں بہت ہوتی ہیں،
لیکن وحی میں اس علاقہ کی تعیین نہیں کی گئی،
اس لیے آپ نے یہ خیال فرمایا کہ اس سے مراد یمامہ یا ہجر کا علاقہ ہے،
لیکن بعد میں یہ حقیقت کھلی کہ اس سے مراد،
مدینہ ہے،
جس کو لوگ یثرب کہتے تھے اور خواب میں تلوار کا ٹوٹنا اس سے مراد وہ غم و حزن ہے،
جو مسلمانوں کو آپ کے چہرہ مبارک کے زخمی ہونے اور آپ کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہنچا اور بقر کے اندر خود کاٹنے کا مفہوم موجود ہے اور وہ آپ کو ذبح ہوتے دکھائی گئی،
اس لیے اس سے مراد،
اُحد کے شہداء ہوئے اور اس خواب میں واللہ خیر کا جملہ آپ کی اور مسلمانوں کی تسلی و تشفی اور جمعیت خاطر کے لیے تھا کہ مسلمانوں کی شہادت،
خیر و خوبی کا باعث ہو گی اور جنگ اُحد کے فورا بعد مسلمانوں کا کفار کے تعاقب میں نکلنا اور صدق دل سے جہاد کرنا یا کافروں کا غزوہ اُحد کے بعد یہ کہہ کر جانا کہ اگلے سال بدر کے میدان میں لڑائی ہو گی اور مسلمانوں کا اگلے سال اس وعدہ کے مطابق نکلنا،
وعدہ کو سچ کر دکھانا تھا،
اس لیے اس کے نتیجہ میں بعد کی فتوحات حاصل ہوئیں اور یہاں بدر سے مراد بدر الموعد ہے،
جو بدر ثانی ہے،
جس کے لیے کافر دھمکی دے کر گئے تھے،
لیکن آنے کی جراءت نہ کر سکے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5934   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7035  
´جب گائے کو خواب میں ذبح ہوتے دیکھے`
«. . . عَنْ أَبِي مُوسَى، أُرَاهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ، فَذَهَبَ وَهَلِي إِلَى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ أَوْ هَجَرٌ فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبُ، وَرَأَيْتُ فِيهَا بَقَرًا وَاللَّهِ خَيْرٌ فَإِذَا هُمُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَإِذَا الْخَيْرُ مَا جَاءَ اللَّهُ مِنَ الْخَيْرِ وَثَوَابِ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا اللَّهُ بِهِ بَعْدَ يَوْمِ بَدْرٍ . . .»
. . . ابوبردہ نے، ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجوریں ہیں۔ میرا ذہن اس طرف گیا کہ یہ جگہ یمامہ ہے یا ہجر۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مدینہ یعنی یثرب ہے اور میں نے خواب میں گائے دیکھی (زبح کی ہوئی) اور یہ آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ اور اللہ کے یہاں ہی خیر ہے تو اس کی تعبیر ان مسلمانوں کی صورت میں آئی جو جنگ احد میں شہید ہوئے اور خیر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے خیر اور سچائی کے ثواب کی صورت میں دیا یعنی وہ جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے بعد (دوسری فتوحات کی صورت میں) دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّعْبِيرِ: 7035]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7035 کا باب: «بَابُ إِذَا رَأَى بَقَرًا تُنْحَرُ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے «بقرًا تنحر» یعنی گائے ذبح ہوتے ہوئے دیکھی، کے الفاظ منعقد فرمائے ہیں، جبکہ حدیث میں گائے کا ذکر موجود ہے مگر اس کے ذبح ہونے کا ذکر موجود نہیں ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ یہاں پر اس روایت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جس میں واضح طور پر گائے کے ذبح کا ذکر موجود ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كذا ترجم بقيد النحر، ولم يقع ذالك فى الحديث الذى ذكره عن أبى موسى، وكأنه أشار بذالك إلى ما ورد فى بعض طرق الحديث كما سأبينه.» [فتح الباري لابن حجر: 360/13]
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب نحر کی قید کے ساتھ قائم فرمایا ہے جبکہ تحت الباب حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے، گویا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بعض طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں نحر کے الفاظ ہیں، جس کی وضاحت میں آگے کروں گا۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ذكر البخاري فى الباب حديث أبى موسى، و ليس فيه قيد النحر، فكأن البخاري أشار إلى ما ورد فى بعض طرق الحديث.» [لب اللباب: 140/5]
اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر فرمائی ہے جس میں «نحر» کے الفاظ نہیں ہیں گویا کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس کے بعض دیگر طرق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں (جس میں نحر کے الفاظ موجود ہیں)۔

علامہ محمد التاودی رحمہ اللہ صحیح بخاری کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:
«لم يذكر النحر فى حديث أبى موسى الذى أورده لكنه وارد فى بعض طرق الحديث.» [حاشية التاودي بن سودة: 337/6]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث میں «نحر» کا ذکر نہیں فرمایا لیکن یہاں پر بعض طرق کی طرف اشارہ ہے (جس میں نحر کا ذکر موجود ہے)۔

امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یقینا بعض روایات میں «بقر تنحر» کے الفاظ وارد ہیں اور اس کی تفسیر یہ ہے کہ احد کے دن ایمان والے شہید ہوئے۔ [الكواكب الدراري: 101/24]

علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«مطابقة للترجمة فى قوله: ورأيت فيها بقرًا فان قلت: ترجم بقيد النحر، ولم يقع ذالك فى حديث الباب؟ قلت: كأنه أشار ذالك إلى ما ورد فى بعض طرق الحديث و هو ما رواه أحمد من حديث جابر: أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: رأيت كأني فى درع حصينة و رأيت بقرًا تنحر . . . . .» [عمدة القاري للعيني: 236/24]
ترجمۃ الباب سے مطابقت اس قول میں ہے: «ورأيت فيها بقرًا» اگر آپ کہیں کہ باب میں «نحر» کی قید ہے جبکہ حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں، میں (علامہ عینی) کہتا ہوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ نے روایت فرمایا ہے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: آج میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا میں ایک محفوظ زرہ میں ہوں اور میں نے ایک گائے دیکھی جسے ذبح کر دیا گیا ہے۔ [مسند احمد: 204/6، رقم الحديث: 14847 عن جابر رضي الله عنه]
ان تمام تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں واضح طور پر گائے (بقرہ) کو نحر کرنے کا ذکر موجود ہے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 280   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3921  
´خواب کی تعبیر کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سر زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجور کے درخت (بہت) ہیں، پھر میرا خیال یمامہ (ریاض) یا ہجر (احساء) کی طرف گیا، لیکن وہ مدینہ (یثرب) نکلا، اور میں نے اسی خواب میں یہ بھی دیکھا کہ میں نے ایک تلوار ہلائی جس کا سرا ٹوٹ گیا، اس کی تعبیر وہ صدمہ ہے جو احد کے دن مسلمانوں کو لاحق ہوا، اس کے بعد میں نے پھر تلوار لہرائی تو وہ پہلے سے بھی بہتر ہو گئی، اس کی تعبیر وہ فتح اور وہ اجتماعیت ہے جو اللہ نے بعد میں مسلمانوں کو عطا کی، پھر میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3921]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  تلوار سے مراد مسلمانوں کی اجتماعی قوت تلوار ٹوٹنے سے مراد اس قوت میں کمی اور تلوار درست ہوجانے کا مطلب ہے اس نقصان کا ازالہ تھا۔

(2)
گائے کا ذبح ہونا ممکن کی شہادت کا اشارہ ہے۔

(3)
ہجرت والا خواب اس لحاظ سے سچ تھا کہ کھجوروں والے علاقے کی طرف ہجرت ہوئی البتہ اس علاقے کے تعین میں اشتباہ ہوا یعنی اصل تعبیر مدینہ منورہ ہی تھی۔

(4)
جاہلیت میں مدینہ شریف کا نام یثرب تھا۔
ہجرت نبوی کے بعد اس کا نام مدينة النبي نبی کا شہر ہوگیا۔
نبی ﷺ نے اس کا نام طیبہ اور طابہ (پاک زمین)
رکھا۔
اب اسے یثرب نہیں کہنا چاہیے۔
نبی ﷺ نے صرف وضا حت کے لیے یثرب کا لفظ فرمایا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3921   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3987  
3987. حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اچانک خیر و برکت وہ تھی جو اللہ تعالٰی نے ہمیں غزوہ اُحد کے بعد عطا فرمائی اور خلوص عمل کا ثواب وہ ہے جو اللہ تعالٰی نے ہمیں بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3987]
حدیث حاشیہ:
حادثہ احد کے بعد بھی مسلمانوں کے حو صلوں میں فرق نہیں آیا اور وہ دوبارہ خیر و بھلائی کے مالک بن گئے اللہ نے بعد میں ان کو فتوحات سے نوازا اور بدر میں اللہ نے جو فتح عنایت کی وہ ان کے خلوص عمل کا ثمرہ تھا مسلمان بہر حال خیر وبر کت کا مالک ہو تا ہے اور غازی وشہید ہر دو خطاب اس کے لیے صد عزتوں کا مقام رکھتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3987   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7035  
7035. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ مکرمہ سے ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجوریں ہیں تو میرا ذہن اس طرف گیا کہ وہ مقام یمامہ یا ہجر ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مدینہ یعنی یثرب ہے۔ اور میں ںے خواب میں گائے دیکھی، اور اللہ کے ہاں خیر ہی خیر ہے، تو اس کی تعبیر ان مسلمانوں کی صورت میں آئی جو جنگ اُحد میں شہید ہوئے، اور خیر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے مال وغیرہ دیا اور سچائی کا بدلہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بدر کے بعد عنایت فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7035]
حدیث حاشیہ:
یمامہ مکہ اور یمن کے درمیان ایک بستی ہے۔
ہجر کا پایہ تخت تھا یا یمن کا ایک شہر اس روایت میں گائے کے ذبح ہونے کا ذکر نہیں ہے۔
حضرت امام بخاری نے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جو مسند احمد میں ہے۔
اس میں صاف یوں ہے بقر النحر تو باب کی مطابقت حاصل ہو گئی۔
گائے کا اس حال میں خواب دیکھنا کہ کچھ بے گناہ لوگوں کا دکھ میں مبتلا ہونامراد ہے جیسا کہ جنگ احد میں ہوا۔
خیر سے مراد وہ فتوحات ہیں جو بعد میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7035   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7041  
7041. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے خواب میں خود کو تلوار لہراتے ہوئے دیکھا تو وہ درمیان سے ٹوٹ گئی۔ اس کی تعبیر غزوہ اُحد میں مسلمانوں کے شہید ہونے کی صورت میں سامنے آئی۔ پھر میں نے اسے دوبارہ لہرایا تو وہ تلوار پہلے سے بھی اچھی حالت میں ٹوٹی تو اس کی تعبیر فتح اور مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کی صورت میں سامنے آئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7041]
حدیث حاشیہ:
مہلب نے کہا کہ اس خواب میں صحابہ کرام کے حملوں کو تلوار سے تعبیر کیا گیا اور اس کے ہلانے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ جنگ مراد ہے اور ٹوٹنے سے مراد وہ جانی نقصان جو جنگ میں پیش آیا اور جوڑنے سے احد کے بعد مسلمانوں کا پھر متحد ہو کر جنگ کے لیے تیار ہونا اور کامیابی حاصل کرنا۔
(فتح)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7041   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3622  
3622. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجوروں کے درخت ہیں۔ میرا خیال اس طرف گیا کہ وہ یمامہ یا ہجر ہے لیکن وہ مدینہ یثرب تھا۔ اور میں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ میں نے تلوار کو حرکت دی تو اس کا اگلا حصہ ٹوٹ گیا تو یہ وہ مصیبت تھی جو غزوہ اُحد میں مسلمانوں کو پیش آئی۔ پھر میں نے اسے دوبارہ حرکت دی تو وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گئی اور یہ فتح اور اہل ایمان کا اجتماع تھا جو اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا فرمایا، نیز میں نے خواب میں ایک گائے بھی دیکھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ خیر ہے جو اُحد کی لڑائی میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔ گائے سے مراد اہل ایمان اور خیر سے مرادوہ بھلائی تھی جو اللہ تعالیٰ اس کے بعد لے آیا اور سچا بدلہ تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3622]
حدیث حاشیہ:

امام نووی ؒنے لکھا ہے کہ بعض روایات میں خواب کے یہ الفاظ ہیں۔
میں نے خواب میں گائے دیکھی جسے ذبح کیا جا رہا تھا۔
اس اضافے سے خواب کی تعبیر مکمل ہو جاتی ہے کیونکہ گائے کا ذبح ہونا غزوہ اُحد میں مسلمانوں کا شہید ہونا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے خواب میں واللہ خیر کا کلمہ بھی سنا تھا۔
اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ثواب بہتر ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے غزوہ اُ حد میں شہید ہونے والوں کا معاملہ اچھا کیا کیونکہ ان کے دنیا میں رہنے سے ان کا شہید ہونا بہتر تھا اور "ثواب الصدق"سے مراد غزوہ احد کے بعد آنے والے حالات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بدر ثانیہ کے بعد عنایت فرمائے۔
یعنی اہل ایمان کے دلوں کو ثابت رکھا۔
اہل ایمان کو خبر دی گئی تھی کہ تمھارے مقابلے کے لیے بہت سے کفار جمع ہیں اور انھیں بہت ہراساں کیا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو محفوظ اور مضبوط رکھا اور ان میں ایمان کا استحکام ہوا۔
انھوں نے برجستہ کہا:
﴿حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾ (آل عمران: 173/3)
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن سے مسلمانوں کو ڈرایا گیا تھا وہ خود ہیبت ناک شکست سے دوچار ہوئے۔
(عمدة القاري: 258/11)

یہ حدیث نبوت کی دلیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سچے خواب کی خبر دی پھر خود ہی اس کی تعمیر فرمائی۔
وہ تعبیر حرف بہ حرف پوری ہوئی۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں۔
حدیث میں بدر سے مراد موعد بدر یعنی بدر ثانیہ ہے جواحد کے بعد ہوا تھا جس میں لرائی نہیں ہوئی تھی کیونکہ حسب وعدہ مشرکین نہ آئے البتہ مسلمانوں نے وعدہ خلافی نہیں کی بلکہ اپنے وعدے کو سچا کر دکھایا۔
صدق سے اسی طرف اشارہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ یہ دیا کہ بعد ازاں فتح قریظہ اور فتح خیبر واقع ہوئی۔
(فتح الباري: 512/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3622   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3987  
3987. حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اچانک خیر و برکت وہ تھی جو اللہ تعالٰی نے ہمیں غزوہ اُحد کے بعد عطا فرمائی اور خلوص عمل کا ثواب وہ ہے جو اللہ تعالٰی نے ہمیں بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3987]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے ایک خواب میں دیکھا کہ گائے کو ذبح کیا جا رہا ہے اور ایک آدمی یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ کے ہاں خیرو برکت ہے۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 2236)
اس حدیث میں خواب کی تعبیر بیان ہوئی ہے کہ گائے کے ذبح ہونے سے مراد وہ مصیبت ہے جو مسلمانوں کو احد کی لڑائی میں برداشت کرنی پڑی اور لفظ خیر کی تعبیر وی خیر و برکت تھی جو بدر ثانی میں لوگوں کا پہنچی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل مضبوط کیے حالانکہ ان سے کہا گیا تھا کہ لوگ تمھارے خلاف لڑنے کے لیے جمع ہوئے ہیں تو اس میں ان کا ایمان مزید مضبوط ہو گیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے۔
(آل عمران: 173/3)

اس خیر کا یہ مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ خیر سے مراد وہ شہادت کا درجہ ہے جو مسلمانوں میں سے خوش قسمت حضرات کو نصیب ہوا اور ثواب الصدق سے مراد وہ صلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں فتح کی صورت میں عنایت فرمایا:
بہر حال مسلمان ہر صورت میں خیرو برکت کا مالک ہوتا ہے کیونکہ غازی و شہید ہر دو نام اس کے لیے صد عزوشرف کا باعث ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3987   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4081  
4081. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار کو حرکت دی تو اس کا اگلا حصہ جدا ہو گیا۔ اس کی تعبیر مسلمانوں کے اس نقصان کی صورت میں ظاہر ہوئی جو غزوہ اُحد میں انہیں اٹھانا پڑا۔ میں نے دوبارہ اس کو لہرایا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ اچھی ہو گئی۔ اس کی تعبیر یہ ہوئی کہ مسلمانوں کو اللہ تعالٰی نے فتح سے ہمکنار کیا اور وہ ازسرنو مجتمع ہو گئے۔ میں نے اسی خواب میں گائے دیکھی (جو ذبح ہو رہی تھی) اور اللہ تعالٰی کے تمام امور خیر و برکت سے بھرپور ہوتے ہیں، اس کی تعبیر وہی تھی جو اُحد میں مسلمان شہید کیے گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4081]
حدیث حاشیہ:

بعض روایات میں صراحت ہے کہ گائے کوذبح کیاجا رہا تھا۔
اس اضافے سے خواب کی تعبیر پوری ہوجاتی ہے کیونکہ گائے کا ذبح ہونا میدان اُحد میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا شہید ہونا تھا، بظاہر احد کا حادثہ بہت حوصلہ شکن تھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان جلد ہی سنبھل گئے اور اسلامی طاقت دوبارہ مجتمع ہوگئی، گویا احد کا حادثہ مسلمانوں کی آئندہ زندگی کے لیے بہت نفع بخش ثابت ہوا۔
کفار کے سالار، خالد بن ولید ؓ اور ابوسفیان ؓ جیسے بہادر حضرات اسلام میں داخل ہوگئے۔

حدیث میں "واللہ خیر" کامطلب یہ ہے کہ شہدائے احد کے دنیا میں رہنے کی بجائے آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4081   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7035  
7035. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ مکرمہ سے ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجوریں ہیں تو میرا ذہن اس طرف گیا کہ وہ مقام یمامہ یا ہجر ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مدینہ یعنی یثرب ہے۔ اور میں ںے خواب میں گائے دیکھی، اور اللہ کے ہاں خیر ہی خیر ہے، تو اس کی تعبیر ان مسلمانوں کی صورت میں آئی جو جنگ اُحد میں شہید ہوئے، اور خیر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے مال وغیرہ دیا اور سچائی کا بدلہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بدر کے بعد عنایت فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7035]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں اگرچہ گائے کے متعلق ذبح ہونے کا ذکر نہیں ہے تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں محفوظ قلعے میں ہوں اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ گائے کو ذبح کیا جا رہا ہے۔
(مسندأحمد: 351/3)
اس اضافے سے خواب کی تعبیر پوری ہو جاتی ہے کیونکہ محفوظ قلعے سے مراد مدینہ طیبہ تھا اور گائے کا ذبح ہونا، غزوہ اُحد میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا شہید ہونا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ آپ مدینہ طیبہ ہی میں دفاع کریں، کسی صورت میں باہر نہ نکلیں لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پروگرام تبدیل کیا اور میدان اُحد میں جانے کی پالیسی اختیار کی، جس کا مذکورہ خواب میں ذکر ہے۔
(فتح الباري: 527/12)

واضح رہے کہ خواب میں "خیر" سے مراد وہ فتوحات ہیں جو مسلمانوں کو غزوہ اُحد کے بعد حاصل ہوئیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7035   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7041  
7041. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے خواب میں خود کو تلوار لہراتے ہوئے دیکھا تو وہ درمیان سے ٹوٹ گئی۔ اس کی تعبیر غزوہ اُحد میں مسلمانوں کے شہید ہونے کی صورت میں سامنے آئی۔ پھر میں نے اسے دوبارہ لہرایا تو وہ تلوار پہلے سے بھی اچھی حالت میں ٹوٹی تو اس کی تعبیر فتح اور مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کی صورت میں سامنے آئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7041]
حدیث حاشیہ:

مہلب نے کہا ہے کہ اس قسم کے خواب ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

تلوار سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سمیت کفار پر حملہ آور ہونا ہے اور اس کے لہرانے سے مراد مسلمانوں کو لڑنے کا حکم دینا ہے تلوار کا درمیان سے ٹوٹ جانا مسلمانوں کے جانی نقصان کی طرف اشارہ ہے۔
پھر دوبارہ لہرانے سے اچھی حالت میں واپس ہونے سےمراد مسلمانوں کا جمع ہونا اور ان کا کافروں پر فتح پانا ہے۔
(فتح الباري: 532/12)

اہل تعبیر نے خواب میں تلوار دیکھنے کی مختلف تعبیریں کی ہیں مثلاً:
جس نے میان میں تلوار دیکھی تو اس کی عنقریب شادی ہو گی۔
اگر کسی کو تلوار ماری تو تلوار مارنے والا اس کے حق میں زبان درازی کا مرتکب ہوگا۔
اگر کسی ایسے شخص سے لڑتا ہے جس کی تلوار اس سے بڑی ہے تو وہ اس پر غالب آئے گا۔
اور جس نے میان سمیت تلوار گلے میں لٹکائی تو وہ کسی سر کاری عہدے پر فائز ہوگا۔
(فتح الباري: 533/12، 534)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7041