حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، قال: سمعت ابا عثمان النهدي ، قال: جاءنا كتاب عمر ونحن باذربيجان مع عتبة بن فرقد او بالشام اما بعد، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن الحرير إلا هكذا إصبعين "، قال ابو عثمان: فما عتمنا انه يعني الاعلام.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قال: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ ، قَالَ: جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ وَنَحْنُ بِأَذْرَبِيجَانَ مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ أَوْ بِالشَّامِ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنِ الْحَرِيرِ إِلَّا هَكَذَا إِصْبَعَيْنِ "، قَالَ أَبُو عُثْمَانَ: فَمَا عَتَّمْنَا أَنَّهُ يَعْنِي الْأَعْلَامَ.
شعبہ نے قتادہ سے روایت کی، کہا: میں نے ابوعثمان نہدی سے سنا، کہا: ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مکتوب آیا، اس وقت ہم آزر بائیجان میں عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے یا شام میں تھے، اس میں یہ لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی مقدار یعنی دو انگلیوں سے زیادہ ریشم پہننے سے منع کیا ہے۔ ابوعثمان نے کہا: ہم نے یہ سمجھنے میں ذرا توقف نہ کیا کریں ان کی مراد نقش ونگار سے ہے (جو کناروں پر ہوتے ہیں)
ابو عثمان النہدی بیان کرتے ہیں، ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا خط آیا، جبکہ ہم حضرت عتبہ بن فرقد رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ آذربائیجان یا شام میں تھے، حمد و صلاۃ کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم سے منع فرمایا ہے، مگر اتنا دو انگلیوں کے بقدر، ابو عثمان کہتے ہیں، ہم نے یہ سمجھنے میں تاخیر نہیں کی کہ ان کا مقصد نقش و نگار ہے۔
معاذ کے والد ہشام نےقتادہ سے، انھوں نے عامر شعبی سے روایت کی، انھوں نے حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نے جابیہ میں خطبہ دیا اور کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایا، سوائے دو یا تین یا چار انگلیوں (کی پٹی) کے۔
امام صاحب اپنے چھ اساتذہ سے حضرت سوید بن غفلہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ میں فرمایا، نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے، مگر دو، یا تین یا چار انگلیوں کے بقدر۔
ابو زبیر نے کہا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن دیباج کی قبا پہنی جو آپ کو ہدیہ کی گئی تھی، پھر فوراً ہی آپ نے اس کو اتار دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دی۔آپ سے کہا گیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اس کو فوراً اتار دیا ہے۔آپ نے فرمایا: "مجھے جبریل علیہ السلام نے اس سے منع کردیا۔" پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ایک چیز نا پسند کی اور وہ مجھے دے دی!اب میرے لئے کیا (راستہ) ہے؟آپ نے فرمایا؛" میں نے یہ تمھیں پہننے کےلیے نہیں دی، میں نے تمھیں اس لئے دی کہ اس کو بیچ لو۔"تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو دو ہزار درہم میں فروخت کردیا۔
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت بیان کرتے ہیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیباج کی قبا پہنی، جو آپصلی اللہ علیہ وسلم کو تحفتا دی گئی تھی، پھر آپ نے اسے جلدی کھینچ ڈالا اور اسے حضرت عمر بن خطاب کی طرف بھیج دیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اسے فورا ہی اتار ڈالا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”مجھے جبریل علیہ السلام نے اس سے منع کر دیا ہے“ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ روتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! ایک چیز آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمائی ہے اور وہ مجھے عطا کر دی ہے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے وہ تمہیں پہننے کے لیے نہیں دی، صرف اس لیے دی ہے کہ تم اسے بیچ لو۔“ تو انہوں نے وہ دو ہزار درہم میں فروخت کردی۔
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن مهدي ، حدثنا شعبة ، عن ابي عون ، قال: سمعت ابا صالح يحدث، عن علي ، قال: اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حلة سيراء، فبعث بها إلي فلبستها، فعرفت الغضب في وجهه، فقال: " إني لم ابعث بها إليك لتلبسها إنما بعثت بها إليك لتشققها خمرا بين النساء ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ ، قال: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ ، قال: أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةُ سِيَرَاءَ، فَبَعَثَ بِهَا إِلَيَّ فَلَبِسْتُهَا، فَعَرَفْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ: " إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ بِهَا إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا إِنَّمَا بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتُشَقِّقَهَا خُمُرًا بَيْنَ النِّسَاءِ ".
عبدالرحمان بن مہدی نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابو عون سے حدیث بیان کی، کہا: میں نے ابو صالح سے سنا، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حدیث سنارہے تھے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشمی حلہ ہدیہ کیا گیا، آپ نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں نے اسکو پہن لیا، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ محسوس کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں نے یہ تمھارے پاس اس لئے نہیں بھیجا تھا کہ تم اس کو پہن لو، میں نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ تم اس کو کاٹ کر عورتوں میں دوپٹے بانٹ دو۔"
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں ریشمی دھاری دار جوڑا دیا گیا اور آپ نے وہ مجھے بھیج دیا تو میں نے وہ پہن لیا، پھر میں نے آپ کے چہرے پر ناراضی کے آثار دیکھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں، یہ اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اس کو پہن لو، میں نے تو صرف اس لیے یہ بھیجا تھا کہ تم اسے پھاڑ کر عورتوں میں دوپٹے بانٹ دو۔“
عبیداللہ کے والد معاذ اور محمد بن جعفر، دونوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابو عون سے اسی سند کے ساتھ حدیث سنائی۔معاذ کی بیان کردہ حدیث میں ہے؛" آپ نے مجھے حکم دیا تو میں نے کاٹ کر (اپنے گھرکی) عورتوں میں بانٹ دیا"اور محمد بن جعفر کی حدیث میں ہے: " میں نے اس کوکاٹ کر (اپنے گھرکی) عورتوں میں بانٹ دیا۔"اور انھوں نے" آپ نے مجھے حکم دیا" (کےالفاظ) ذکر نہیں کیے۔
یہی روایت امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، معاذ کی روایت میں ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا اور محمد بن جعفر کی روایت میں ہے، میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا، اس میں حکم دینے کا ذکر نہیں ہے۔
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو کریب اور زہیر بن حرب نے ہمیں حدیث بیان کی۔الفاظ زہیر کے ہیں۔کہا: ہیں وکیع نے مسعر سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو عون ثقفی سے، انھوں نے ابو صالح حنفی سے، انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ دومۃ الجندل کے (حکمران) اکیدر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ریشم کا ایک کپڑا ہدیہ بھیجا، آپ نے وہ کپڑاحضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا اور فرمایا: "اس کو کاٹ کر (تینوں) فاطماؤں (فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فاطمہ بنت اسد، یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ، اور فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنھن میں اوڑھنیاں بانٹ دو۔" ابو بکر اور ابو کریب نے ("فاطماؤں کے مابین" کے بجائے) "عورتوں کے مابین"کہا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، دومہ علاقہ کے رئیس اکیدر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشم کپڑا تحفتا بھیجا، آپ نے وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دے دیا اور فرمایا: ”اسے فاطمات میں دوپٹے بنا کر تقسیم کر دو۔“
زید بن وہب نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی حلہ دیا، میں اسے پہنکر نکلا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پرغصہ دیکھا، کہا: پھر میں نے اس کو پھاڑ کر اپنے گھر کی عورتوں میں تقسیم کردیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے داری دار ریشمی جوڑا دیا، میں اسے پہن کر نکلا تو آپ کے چہرے پر ناراضی کے آثار دیکھے تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں بانٹ دیا۔
وحدثنا شيبان بن فروخ ، وابو كامل ، واللفظ لابي كامل، قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن عبد الرحمن بن الاصم ، عن انس بن مالك ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمر بجبة سندس، فقال عمر: بعثت بها إلي وقد قلت فيها ما قلت، قال: " إني لم ابعث بها إليك لتلبسها، وإنما بعثت بها إليك لتنتفع بثمنها ".وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصَمِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قال: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُمَرَ بِجُبَّةِ سُنْدُسٍ، فَقَالَ عُمَرُ: بَعَثْتَ بِهَا إِلَيَّ وَقَدْ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ، قَالَ: " إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ بِهَا إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا، وَإِنَّمَا بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتَنْتَفِعَ بِثَمَنِهَا ".
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سُندس (باریک ریشم) کا ایک جبہ بھیجا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےکہا: آپ نے میرے پاس یہ جبہ بھیجا ہے۔حالانکہ آپ نے اس کے متعلق (پہلے) جو فرمایاتھا وہ فرماچکے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے یہ تمھارے پاس اس لئے نہیں بھیجا کہ تم اس کو پہنو، میں نے تمھارے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ تم اس کی قیمت سے فائدہ اٹھاؤ۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سندس کا ایک جبہ بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا، آپ نے یہ مجھے بھیجا ہے، حالانکہ آپ اس کے بارے میں جو فرما چکے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تجھے اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو، میں نے تو صرف اس لیے بھیجا ہے کہ تم اس کی قیمت سے فائدہ اٹھا لو۔“