ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
جناب مہاجر بن عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو اپنی نماز پڑھنے اور طواف مکمّل کرنے کے بعد مسجد حرام سے باہر نکلتا ہے، اور وہ بیت اللہ شریف کی طرف مُنہ کرتا ہے (اور ہاتھ اُٹھاتا ہے) تو انہوں نے فرمایا کہ میرے خیال میں یہ کام صرف یہودی کرتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہونے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر سلام بھیجے اور یہ دعا پڑھے «اللّهُـمَّ افْتَـحْ لي أَبْوابَ رَحْمَتـِك» ”اے اللہ، میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔“ اور جب مسجد سے نکلنے لگے تو نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود و سلام بھیجے اور یہ دعا پڑھے « اللَّهُمَّ أَجِرْنِيْ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» ”اے الله، مجھے شیطان مردود سے محفوظ فرما۔“
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک طویل حدیث مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے اضطباع کیا (چادر کو دائیں بازو کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالا) اور انہوں نے طواف کے پہلے تین چکّروں میں رمل کیا اور بقیہ چار میں عام رفتار سے چلے۔
وتبقى السنة قائمة إلى الابد إذ النبي صلى الله عليه وسلم إنما رمل في الابتداء واضطبع ليري المشركين قوته وقوة اصحابه فبقي الاضطباع والرمل سنتين إلى آخر الابد وَتَبْقَى السُّنَّةُ قَائِمَةً إِلَى الْأَبَدِ إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا رَمَلَ فِي الِابْتِدَاءِ وَاضْطَبَعَ لِيُرِيَ الْمُشْرِكِينَ قُوَّتَهُ وَقُوَّةَ أَصْحَابِهِ فَبَقِيَ الِاضْطِبَاعُ وَالرَّمَلُ سُنَّتَيْنِ إِلَى آخِرِ الْأَبَدِ
پھر وہ علت ختم ہوجاتی ہے لیکن سنّت نبوی تاقیامت باقی رہتی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں مشرکوں کو اپنی اور اپنے صحابہ کی قوت و طاقت دکھانے کے لئے رمل اور اضطباع کیا تھا، (پھر مکّہ مکرّمہ میں مشرک ختم ہوگئے) لیکن رمل اور اضطباع کی دونوں سنّتیں تاقیامت باقی رہیںگی
حضرت زید بن اسلم اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اب رمل کرنا اور کندھوں کو ننگا کرنا کس لئے ہے جبکہ اللہ تعالی نے اسلام کوقوت و طاقت دیدی ہے اور وہ چار سُو پھیل چکا ہے اور کفر اور کافر مٹ چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم کوئی ایسا عمل نہیں چھوڑیں گے جو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے۔
جناب جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے اُن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کے بارے میں پوچھا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ” ہم صرف حج ہی کے ارادے سے (مد ینہ منوّرہ سے) نکلے، حتّیٰ کہ ہم کعبہ شریف کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کا استلام کیا، پھر (طواف کے) تین چکّروں میں رمل کیا اور چار چکّر عام رفتار سے پورے کیے۔“
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ مکّہ مکرّمہ پہنچے تو آپ نے طواف کی ابتداء میں حجر اسود کا استلام کیا۔ پھر سات میں سے تین چکّروں میں دلکی چال چلے (اور چار چکّر عام رفتار سے چلے)۔“
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجراسود کو بوسہ دیا تو فرمایا کہ آگاه رہ، الله کی قسم کہ مجھے خوب علم ہے کہ تُو ایک پتھر ہی ہے (جو کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں) اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔ جناب عمرو کہتے ہیں کہ مجھے زید بن اسلم نے اپنے والد گرامی اسلم سے اسی طرح حدیث بیان کی ہے۔
ووضع اليدين على الحجر، ومسح الوجه بهما، ولكن خبر محمد بن علي ثابتوَوَضْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى الْحَجَرِ، وَمَسْحِ الْوَجْهِ بِهِمَا، وَلَكِنْ خَبَرُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ثَابِتٌ
دونوں ہاتھ حجر اسود پر رکھنے اور ان کو چہرے پر پھیرنے کا بیان۔ محمد بن علی کی حدیث ثابت ہے
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک حجراسود کی طرف کیا اور حجر اسود کا استلام کیا۔ پھر آپ نے اپنے ہونٹ اس پر رکھ دیئے اور دیر تک روتے رہے پھر مڑ کر دیکھا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی رو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر، اس جگہ آنسو بہائے جاتے ہیں۔“