صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2092. ‏(‏351‏)‏ بَابُ ذِكْرِ النَّاسِي بَعْضَ نُسُكِهِ يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ يَذْكُرُهُ‏.‏
2092. قربانی والے دن حاجی کچھ مناسک حج بھول جائے تو پھر اسے یاد آجائے تو وہ کیا کرے
حدیث نمبر: 2955
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثني عمرو بن عاصم ، حدثنا ابو العوام وهو عمران بن داود القطان , حدثني محمد بن جحادة ، عن زياد بن علاقة ، عن اسامة بن شريك ، قال: شهدت النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، وهو يخطب جاءه رجل، فقال: إنه نسي ان يرمي، قال: " ارم ولا حرج"، ثم اتاه آخر، فقال: إنه نسي ان يطوف، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" طف ولا حرج"، ثم اتاه آخر، فقال نسيت ان اذبح، قال:" اذبح ولا حرج"، فما سئل عن شيء يومئذ، إلا قال:" لا حرج"، وقال:" لقد اذهب الله الحرج، إلا امرا اقترض من مسلم فذاك حرج" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ وَهُوَ عِمْرَانُ بْنُ دَاوُدَ الْقَطَّانُ , حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاقَةَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَهُوَ يَخْطُبُ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ نَسِيَ أَنْ يَرْمِيَ، قَالَ: " ارْمِ وَلا حَرَجَ"، ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ، فَقَالَ: إِنَّهُ نَسِيَ أَنْ يَطُوفَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" طُفْ وَلا حَرَجَ"، ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ، فَقَالَ نَسِيتُ أَنْ أَذْبَحَ، قَالَ:" اذْبَحْ وَلا حَرَجَ"، فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ يَوْمَئِذٍ، إِلا قَالَ:" لا حَرَجَ"، وَقَالَ:" لَقَدْ أَذْهَبَ اللَّهُ الْحَرَجَ، إِلا امْرَأً اقْتَرَضَ مِنْ مُسْلِمٍ فَذَاكَ حَرَجٌ"
سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا جبکہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، آپ کے پاس ایک شخص آیا تو اُس نے عرض کیا کہ وہ کنکریاں مارنا بھول گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں اب مار لو پھر ایک اور شخص آپ کے پاس حاضر ہوا تو اُس نے عرض کیا کہ وہ طواف کرنا بھول گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب طواف کرلو کوئی حرج نہیں پھر ایک اور شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ میں قربانی کرنا بھول گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب قربانی کرلو اور کوئی گناہ نہیں ہے۔ آپ سے اُس دن جس چیز کے بارے میں بھی پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی گناہ نہیں اور آپ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی نے (ان کاموں کی ترتیب میں غلطی کے) گناہ کو معاف کر دیا ہے سوائے اُس شخص کے جو مسلمان شخص کی غیبت کرتا ہے تو یہ گناہ ہے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
2093. ‏(‏352‏)‏ بَابُ الْبَيْتُوتَةِ بِمِنًى لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ‏.‏
2093. ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنے کا بیان
حدیث نمبر: 2956
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله بن سعيد الاشج ، حدثنا ابو خالد يعني سليمان بن حسان ، عن محمد بن إسحاق ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن عائشة ، قالت: " افاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من آخر يومه حين صلى الظهر، ثم رجع فمكث بمنى ليالي ايام التشريق يرمي الجمرة إذا زالت الشمس كل جمرة بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة، ويقف عند الاولى وعند الثانية، فيطيل القيام، ويتضرع، ثم يرمي الثالثة ولا يقف عندها" ، قال ابو بكر: هذه اللفظة: حين صلى الظهر، ظاهرها خلاف خبر ابن عمر الذي ذكرناه قبل ان النبي صلى الله عليه وسلم فاض يوم النحر، ثم رجع فصلى الظهر بمنى، واحسب ان معنى هذه اللفظة لا تضاد خبر ابن عمر لعل عائشة ارادت افاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من آخر يومه حين صلى الظهر بعد رجوعه إلى منى، فإذا حمل خبر عائشة على هذا المعنى لم يكن مخالفا لخبر ابن عمر، وخبر ابن عمر اثبت إسنادا من هذا الخبر، وخبر عائشة ما تاولت من الجنس الذي نقول: إن الكلام مقدم ومؤخر، كقوله: الحمد لله الذي انزل على عبده الكتاب ولم يجعل له عوجا سورة الكهف آية 1، ومثل هذا في القرآن كثير، قد بينت بعضه في كتاب معاني القرآن، وسابين باقيه إن شاء الله، وهذا كقوله: ولقد خلقناكم ثم صورناكم ثم قلنا للملائكة اسجدوا لآدم سورة الاعراف آية 11، فمعنى قول عائشة على هذا التاويل افاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من آخر يومه، ثم رجع حين صلى الظهر فقدم حين صلى الظهر قبل قوله ثم رجع، كما قدم الله عز وجل خلقناكم قبل قوله: ثم صورناكم، والمعنى صورناكم، ثم خلقناكمحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ رَجَعَ فَمَكَثَ بِمِنًى لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ يَرْمِي الْجَمْرَةَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ كُلَّ جَمْرَةٍ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، وَيَقِفُ عِنْدَ الأُولَى وَعِنْدَ الثَّانِيَةِ، فَيُطِيلُ الْقِيَامَ، وَيَتَضَرَّعُ، ثُمَّ يَرْمِي الثَّالِثَةَ وَلا يَقِفُ عِنْدَهَا" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ: حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ، ظَاهِرُهَا خِلافُ خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ الَّذِي ذَكَرْنَاهُ قَبْلُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاضَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَلَّى الظُّهْرَ بِمِنًى، وَأَحْسَبُ أَنَّ مَعْنَى هَذِهِ اللَّفْظَةِ لا تُضَادُّ خَبَرَ ابْنِ عُمَرَ لَعَلَّ عَائِشَةَ أَرَادَتْ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ بَعْدَ رُجُوعِهِ إِلَى مِنًى، فَإِذَا حُمِلَ خَبَرُ عَائِشَةَ عَلَى هَذَا الْمَعْنَى لَمْ يَكُنْ مُخَالِفًا لِخَبَرِ ابْنِ عُمَرَ، وَخَبَرُ ابْنِ عُمَرَ أَثْبَتُ إِسْنَادًا مِنْ هَذَا الْخَبَرِ، وَخَبَرُ عَائِشَةَ مَا تَأَوَّلْتُ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّ الْكَلامَ مُقَدَّمٌ وَمُؤَخَّرٌ، كَقَوْلِهِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجَا سورة الكهف آية 1، وَمَثَلُ هَذَا فِي الْقُرْآنِ كَثِيرٌ، قَدْ بَيَّنْتُ بَعْضَهُ فِي كِتَابِ مَعَانِي الْقُرْآنِ، وَسَأُبَيِّنُ بَاقِيَهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَهَذَا كَقَوْلِهِ: وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ سورة الأعراف آية 11، فَمَعْنَى قَوْلِ عَائِشَةَ عَلَى هَذَا التَّأْوِيلِ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ، ثُمَّ رَجَعَ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ فَقَدَّمَ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ قَبْلَ قَوْلِهِ ثُمَّ رَجَعَ، كَمَا قَدَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقْنَاكُمْ قَبْلَ قَوْلِهِ: ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ، وَالْمَعْنَى صَوَّرْنَاكُمْ، ثُمَّ خَلَقْنَاكُمْ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن دوسرے پہر میں طواف افاضہ کیا جب آپ نے ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر آپ واپس منیٰ آگئے اور ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزاریں۔ آپ جمرات پر رمی کرتے جبکہ سورج ڈھل جاتا ہر جمرے پر سات کنکریاں مارتے اور ہرکنکری کے ساتھ «‏‏‏‏اللهُ أَكْبَرُ» ‏‏‏‏ پڑھتے۔ آپ پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس بڑا طویل قیام کرتے اور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے، پھر تیسرے جمرے کو کنکریاں مارنے کے بعد اس کے پاس نہ ٹھہرتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ جب آپ نے ظہر کی نماز پڑھی ان کا ظاہری مفہوم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے خلاف ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن طواف افاضہ کیا پھر آپ نے منیٰ واپس آ کر ظہر کی نماز پڑھی۔ میرے خیال میں یہ الفاظ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے متضاد نہیں ہیں شاید کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن دوسرے پہر طواف افاضہ کیا جب ظہر کی نماز پڑھی منیٰ لوٹنے کے بعد۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا یہی معنی کیا جائے تو پھر یہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مخالف نہیں رہتی۔ لیکن سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سند کے اعتبار سے زیادہ مضبوط ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ اس میں تقدیم و تأخیر ہوئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے «‏‏‏‏الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا» ‏‏‏‏ [ سورة الكهف: 1 ] سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی قسم کی کجی نہیں رکھی۔ اس قسم کی بیشمار مثالیں موجود ہیں، میں نے کچھ مثالیں کتاب معاني القرآن میں بیان کی ہیں اور عنقریب اس طرح باقی مثالیں بھی بیان کروں گا، ان شاء اللہ۔ اور یہ اس فرمان جیسا ہے «‏‏‏‏وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ» ‏‏‏‏ [ سورة الأعراف: 11 ] اور ہم نے ہی تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری شکلیں بنائیں پھر فرشتوں کو حُکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو اس تاویل کے مطابق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن آخری پہر طواف افاضہ کیا پھر آپ واپس آئے جب ظہر کی نماز پڑھی اس طرح یہ الفاظ پہلے آگئے، جب ظہر کی نماز پڑھی اور یہ مؤخر ہوگئے، پھر واپس آئے۔ جبکہ الله تعالیٰ نے یہ الفاظ مقدم کیے ہیں ہم نے تمہیں پیدا کیا اور یہ مؤخر کیے ہیں پھر ہم نے تمھاری شکلیں بنائیں حالانکہ اصل ترتیب یہ ہے کہ ہم نے تمہاری شکلیں بنائیں پھر ہم نے تمہیں پیدا کیا۔

تخریج الحدیث: صحيح: قوله حين صلى الظهر فانه منكر - سنن ابی داؤد کتاب الحج باب في رمي الجمار: 1973 - مسند احمد: 90/6
2094. ‏(‏353‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الْبَيْتُوتَةِ لِآلِ الْعَبَّاسِ بِمَكَّةَ أَيَّامَ مِنًى مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِمْ لِيَقُومُوا بِإِسْقَاءِ النَّاسِ مِنْهَا‏.‏
2094. آل عباس کو حاجیوں کو پانی پلانے کے لئے منیٰ کے ایام میں رات کو مکّہ مکرّمہ میں رہنے کی اجازت ہے
حدیث نمبر: 2957
Save to word اعراب
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی تھی جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کی راتیں مکّہ مکرّمہ میں گزارنے کی اجازت مانگی تھی، کیونکہ وہ حاجیوں کو زمزم کا پانی پلاتے تھے تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
2095. ‏(‏354‏)‏ بَابُ النَّهْيِ عَنِ الطِّيبِ وَاللِّبَاسِ إِذَا أَمْسَى الْحَاجُّ يَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ أَنْ يُفِيضَ،
2095. جب حاجی قربانی والے دن شام تک طواف افاضہ نہ کرسکے تو اسے کپڑے پہننا اور خوشبو لگانا منع ہے۔
حدیث نمبر: Q2958
Save to word اعراب
وكل ما زجر الحاج عنه قبل رمي الجمرة يوم النحر‏.‏ وَكُلِّ مَا زُجِرَ الْحَاجُّ عَنْهُ قَبْلَ رَمْيِ الْجَمْرَةِ يَوْمَ النَّحْرِ‏.‏
اور قربانی والے دن جمرہ عقبہ کی رمی سے پہلے جو چیزیں ممنوع تھیں وہ بھِی منع ہوںگی۔ (جب تک طواف افاضہ نہ کرلے)

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2958
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابن ابي عدي ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، حدثني ابو عبيدة بن عبد الله بن زمعة ، عن ابيه ، وعن امه زينب بنت ابي سلمة ، عن ام سلمة يحدث، انه ذلك جميعا عنها، قالت: لما كانت ليلتي التي يصير إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها مساء يوم النحر، فصار إلي، قالت: فدخل علي وهب ومعه رجال من آلي ابي امية متقمصين، فقالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لوهب:" هل افضت بعد يا ابا عبد الله؟" قال: لا والله يا رسول الله، قال:" فانزع القميص" , فنزعه من راسه، قال: ونزع صاحبه قميصه من راسه، قالوا: ولم يا رسول الله؟ قال: " هذا يوم رخص لكم إذا انتم رميتم الجمرة ان تحلوا من كل ما حرمتم منه، إلا من النساء، فإذا امسيتم قبل ان تطوفوا بهذا البيت صرتم حرما كهيئتكم قبل ان ترموا الجمرة" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَعَنْ أُمِّهِ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ يُحَدِّثَ، انِهِ ذَلِكَ جَمِيعًا عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي يَصِيرُ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا مَسَاءَ يَوْمِ النَّحْرِ، فَصَارَ إِلَيَّ، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيَّ وَهْبٌ وَمَعَهُ رِجَالٌ مِنْ آلِي أَبِي أُمَيَّةَ مُتَقَمِّصِينَ، فَقَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَهْبٍ:" هَلْ أَفَضْتَ بَعْدُ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ؟" قَالَ: لا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَانْزِعِ الْقَمِيصَ" , فَنَزَعَهُ مِنْ رَأْسِهِ، قَالَ: وَنَزَعَ صَاحِبُهُ قَمِيصَهُ مِنْ رَأْسِهِ، قَالُوا: وَلِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هَذَا يَوْمٌ رُخِّصَ لَكُمْ إِذَا أَنْتُمْ رَمَيْتُمُ الْجَمْرَةَ أَنْ تَحِلُّوا مِنْ كُلِّ مَا حُرِمْتُمْ مِنْهُ، إِلا مِنَ النِّسَاءِ، فَإِذَا أَمْسَيْتُمْ قَبْلَ أَنْ تَطُوفُوا بِهَذَا الْبَيْتِ صِرْتُمْ حُرُمًا كَهَيْئَتِكُمْ قَبْلَ أَنْ تَرْمُوا الْجَمْرَةَ"
سیدنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب میری رات کی باری آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس تشریف لانا تھا تو وہ قربانی والے دن کی شام تھی چنانچہ آپ میرے پاس تشریف لائے، آپ فرماتی ہیں کہ اتنے میں میرے پاس وہب اور ابو امیہ کے گھرانے کے کچھ افراد بھی قمیصیں پہنے ہوئے آگئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہب سے کہا: کیا تم نے طواف افاضہ کرلیا ہے، اے ابو عبداللہ؟ اُس نے عرض کیا کہ نہیں اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول، نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر یہ قمیص اتار دو تو اس نے اسے سر کی جانب سے اتار دیا اور ان کے ساتھی نے بھی اپنی قمیص سر سے اتار دی انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ہم قمیص کیوں اتار دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دن تمہیں رخصت دی گئی ہے کہ جب تم جمرہ عقبہ پر رمی کرلو تو تمھارے لئے احرام کی وجہ سے ممنوع ہونے والی ہر چیز حلال ہو جاتی ہے سوائے بیوی کے۔ پھر اگر تم نے طواف زیارہ کرنے سے پہلے ہی شام کرلی تو تم پھر اسی طرح احرام والے ہو جاؤ گے جیسے جمرہ عقبہ کی رمی سے پہلے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
2096. ‏(‏355‏)‏ بَابُ النَّهْيِ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ النَّحْرِ‏.‏
2096. عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے دن روزہ رکھنا منع ہے
حدیث نمبر: 2959
Save to word اعراب
حدثنا عبد الجبار بن العلاء ، وسعيد بن عبد الرحمن , قالا: حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن ابي عبيد ، وقال المخزومي: مولى ابن ازهر , قال: شهدت العيد مع عمر بن الخطاب ، فقال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صيام هذين اليومين، واما يوم الفطر ففطركم من صيامكم، واما يوم الاضحى، فتاكلون فيه من نسككم" ، خرجت هذا الباب بتمامه في كتاب الصيام كتابي الكبير، قال ابو بكر: ابو عبيد هذا اختلف الرواة في ذكر ولائه، فقال بعض الرواة: مولى عبد الرحمن بن عوف، ومثل هذا لا يكون عندي متضاد قد يجوز ان يكون ابن ازهر، وعبد الرحمن بن عوف اشتركا في عتقه، فقال بعضهم: مولى عبد الرحمن بن عوف، وقال بعضهم: مولى ابن ازهر، لان ولاءه لمعتقيه جميعاحَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ ، وَقَالَ الْمَخْزُومِيُّ: مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرٍ , قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ:" إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ، وَأَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ فَفِطْرُكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ، وَأَمَّا يَوْمُ الأَضْحَى، فَتَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ" ، خَرَّجْتُ هَذَا الْبَابَ بِتَمَامِهِ فِي كِتَابِ الصِّيَامِ كِتَابِي الْكَبِيرِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَبُو عُبَيْدٍ هَذَا اخْتَلَفَ الرُّوَاةُ فِي ذِكْرِ وَلائِهِ، فَقَالَ بَعْضُ الرُّوَاةِ: مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَمِثْلُ هَذَا لا يَكُونُ عِنْدِي مُتَضَادٌّ قَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ أَزْهَرَ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ اشْتَرَكَا فِي عِتْقِهِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرِ، لأَنَّ وَلاءَهُ لِمُعْتِقَيْهِ جَمِيعًا
جناب ابو عبید مولی ابن ازہر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید میں شرکت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو (عیدین کے) دنوں کے روزے سے منع کیا ہے، رہی عید الفطر تو وہ اس لئے کہ وہ تمھارے روزے ختم کرنے کا دن ہے اور عید الاضحیٰ (کو روزہ اس لئے منع ہے) کہ تم اس دن اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔ میں نے مکمّل باب کتاب الکبیر میں کتاب الصیام کے تحت بیان کردیا ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوعبید کی ولاء میں راویوں کا اختلاف ہے، کچھ راوی اسے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا مولیٰ قرار دیتے ہیں اور کچھ ابن ازہر کا) لیکن میرے نزدیک اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ یہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ابن ازہر کے مشترکہ غلام ہوں اور ان دونوں نے ہی انہیں آزاد کر دیا ہو لہٰذا بعض راویوں نے انہیں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام قرار دیدیا اور بعض نے اسے ابن ازہر کا غلام کہہ دیا کیونکہ اس کی نسبت ولاء دونوں آزاد کرنے والے حضرات کی طرف ہے .

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
2097. ‏(‏356‏)‏ بَابُ النَّهْيِ عَنْ صِيَامِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ بِدِلَالَةٍ لَا بِتَصْرِيحٍ‏.‏
2097. ایام تشریق کے روزں کی ممانعت کا بیان۔ حدیث کی دلالت سے ممانعت ثابت ہوتی ہے لیکن حدیث میں ممانعت کی صراحت نہیں ہے
حدیث نمبر: 2960
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن عبدة الضبي ، عن حماد بن زيد ، عن عمرو . ح وحدثنا سعيد بن عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن نافع بن جبير بن مطعم ، عن بشر بن سحيم ،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امره ان ينادي ايام التشريق" ، وقال المخرمي: بعثه ايام منى ان ينادي:" لا يدخل الجنة، إلا نفس مؤمنة، وإنها ايام اكل وشرب"، قد خرجت هذا الباب بتمامه، كتاب الصومحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرٍو . ح وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ سُحَيْمٍ ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ" ، وَقَالَ الْمُخَرِّمِيُّ: بَعَثَهُ أَيَّامَ مِنًى أَنْ يُنَادِيَ:" لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ، إِلا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، وَإِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ"، قَدْ خَرَّجْتُ هَذَا الْبَابَ بِتَمَامِهِ، كِتَابَ الصَّوْمِ
سیدنا بشر بن سُحیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایام تشریق میں اعلان کرنے کا حُکم دیا۔ جناب مخرمی کی روایت میں ہے کہ آپ نے انھیں منیٰ کے دنوں میں اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ جنّت میں صرف مؤمن داخل ہوںگے اور بیشک منیٰ کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔ میں نے یہ مکمّل باب کتاب الصوم میں بیان کردیا ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح
2098. ‏(‏357‏)‏ بَابُ الزَّجْرِ عَنْ صَوْمِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ بِتَصْرِيحٍ لَا بِكِنَايَةٍ وَلَا بِدِلَالَةٍ مِنْ غَيْرِ تَصْرِيحٍ‏.‏
2098. ایام تشریق کے روزوں کی صریح ممانعت کا بیان، ممانعت کے لئے اشارے کنائے کی بجائے صراحت کا بیان
حدیث نمبر: 2961
Save to word اعراب
حدثنا الربيع بن سليمان ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني ابن لهيعة ، ومالك بن انس ، عن ابن الهاد ، عن ابي مرة مولى عقيل بن ابي طالب، انه قال: دخلت مع عبد الله بن عمرو بن العاص على ابيه في ايام التشريق، فإذا هو يتغذى فدعانا إلى الطعام، فقال له عبد الله بن عمرو: إني صائم، فقال له عمرو: " اما علمت ان هذه الايام التي نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صومهن وامر بفطرهن" ، فامرهم فافطروا , احدهما يزيد على الآخرحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَلَى أَبِيهِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، فَإِذَا هُوَ يَتَغَذَّى فَدَعَانَا إِلَى الطَّعَامِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ لَهُ عَمْرٌو: " أَمَّا عَلِمْتَ أَنَّ هَذِهِ الأَيَّامَ الَّتِي نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِهِنَّ وَأَمَرَ بِفِطْرِهِنَّ" ، فَأَمَرَهُمْ فَأَفْطَرُوا , أَحَدُهُمَا يَزِيدُ عَلَى الآخَرِ
سیدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام جناب ابو مرہ بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایام تشریق میں اُن کے والد گرامی سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ کھانا کھا رہے تھے، انھوں نے ہمیں کھانے کی دعوت دی۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے اُنھیں کہا کہ بیشک میں تو روزے سے ہوں۔ تو سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کے روزے رکھنے سے منع کیا ہے اور ان دنوں میں روزہ نہ رکھنے کا حُکم دیا ہے۔ لہذا اُنھوں نے انھیں روزہ کھولنے کا حُکم دیا تو انھوں نے روزہ کھول دیا۔ ایک راوی نے دوسرے سے کچھ زیادہ الفاظ بیان کیے ہیں۔

تخریج الحدیث:
2099. ‏(‏358‏)‏ بَابُ سُنَّةِ الصَّلَاةِ بِمِنًى
2099. منیٰ میں نماز پڑھنے کے مسنون طریقے کا بیان
حدیث نمبر: Q2962
Save to word اعراب
للحاج من غير اهل مكة، وغير من قد اقام بمكة إقامة يجب عليه إتمام الصلاة بذكر خبر غلط في الاحتجاج به بعض اهل العلم ممن زعم ان سنة الصلاة بمنى لاهل الآفاق واهل مكة جميعا ركعتين كصلاة المسافر سواء‏.‏لِلْحَاجِّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِ مَكَّةَ، وَغَيْرِ مَنْ قَدْ أَقَامَ بِمَكَّةَ إِقَامَةً يَجِبُ عَلَيْهِ إِتْمَامُ الصَّلَاةِ بِذِكْرِ خَبَرٍ غَلَطَ فِي الِاحْتِجَاجِ بِهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِمَّنْ زَعَمَ أَنَّ سُنَّةَ الصَّلَاةِ بِمِنًى لِأَهْلِ الْآفَاقِ وَأَهْلِ مَكَّةَ جَمِيعًا رَكْعَتَيْنِ كَصَلَاةِ الْمُسَافِرِ سَوَاءً‏.‏

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2962
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله بن سعيد الاشج ، حدثنا ابن نمير . ح وحدثنا علي بن خشرم ، اخبرنا عيسى . ح وحدثنا سلم بن جنادة ، حدثنا ابو معاوية . ح وحدثنا محمد بن بشار ، حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان . ح وحدثنا يوسف بن موسى ، حدثنا ابو معاوية ، وجرير ، كلهم عن الاعمش ، غير ان في حديث الثوري , عن سليمان وهو الاعمش، عن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، قال: صلى عثمان بمنى اربعا، فقال عبد الله : " صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين، ومع ابي بكر ركعتين، ومع عمر ركعتين، ثم تفرقت بكم الطرق، فوددت ان لي من اربع ركعات ركعتين متقبلتين" ، هذا لفظ حديث سلم بن جنادةحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى . ح وحَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةُ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَجَرِيرٌ ، كُلُّهُمْ عَنِ الأَعْمَشِ ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ الثَّوْرِيّ , عَنْ سُلَيْمَانَ وَهُوَ الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: صَلَّى عُثْمَانُ بِمِنًى أَرْبَعًا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : " صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُمَرَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ تَفَرَّقَتْ بِكُمُ الطُّرُقَ، فَوَدِدْتُ أَنَّ لِي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَيْنِ مُتَقَبَّلَتَيْنِ" ، هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ سَلْمِ بْنِ جُنَادَةَ
جناب عبدالرحمن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعات پڑھائیں تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعات پڑھی ہیں، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی دو دورکعات ہی پڑھی تھیں، پھر تم میں اختلاف ہوگیا میری تو خواہش ہے کہ کاش مجھے ان چار رکعات کی بجائے دو قبول کی ہوئی رکعات نصیب ہو جائیں۔ یہ الفاظ سلم بن جنادہ کی روایت کے ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري

Previous    36    37    38    39    40    41    42    43    44    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.