ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا جبکہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، آپ کے پاس ایک شخص آیا تو اُس نے عرض کیا کہ وہ کنکریاں مارنا بھول گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں اب مار لو “ پھر ایک اور شخص آپ کے پاس حاضر ہوا تو اُس نے عرض کیا کہ وہ طواف کرنا بھول گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب طواف کرلو کوئی حرج نہیں “ پھر ایک اور شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ میں قربانی کرنا بھول گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب قربانی کرلو اور کوئی گناہ نہیں ہے۔“ آپ سے اُس دن جس چیز کے بارے میں بھی پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی گناہ نہیں“ اور آپ نے فرمایا: ”یقیناً اللہ تعالی نے (ان کاموں کی ترتیب میں غلطی کے) گناہ کو معاف کر دیا ہے سوائے اُس شخص کے جو مسلمان شخص کی غیبت کرتا ہے تو یہ گناہ ہے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن دوسرے پہر میں طواف افاضہ کیا جب آپ نے ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر آپ واپس منیٰ آگئے اور ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزاریں۔ آپ جمرات پر رمی کرتے جبکہ سورج ڈھل جاتا ہر جمرے پر سات کنکریاں مارتے اور ہرکنکری کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھتے۔ آپ پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس بڑا طویل قیام کرتے اور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے، پھر تیسرے جمرے کو کنکریاں مارنے کے بعد اس کے پاس نہ ٹھہرتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ”جب آپ نے ظہر کی نماز پڑھی“ ان کا ظاہری مفہوم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے خلاف ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن طواف افاضہ کیا پھر آپ نے منیٰ واپس آ کر ظہر کی نماز پڑھی۔ میرے خیال میں یہ الفاظ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے متضاد نہیں ہیں شاید کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن دوسرے پہر طواف افاضہ کیا جب ظہر کی نماز پڑھی منیٰ لوٹنے کے بعد۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا یہی معنی کیا جائے تو پھر یہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مخالف نہیں رہتی۔ لیکن سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سند کے اعتبار سے زیادہ مضبوط ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ اس میں تقدیم و تأخیر ہوئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا» [ سورة الكهف: 1 ]”سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی قسم کی کجی نہیں رکھی۔“ اس قسم کی بیشمار مثالیں موجود ہیں، میں نے کچھ مثالیں کتاب معاني القرآن میں بیان کی ہیں اور عنقریب اس طرح باقی مثالیں بھی بیان کروں گا، ان شاء اللہ۔ اور یہ اس فرمان جیسا ہے «وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ» [ سورة الأعراف: 11 ]”اور ہم نے ہی تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری شکلیں بنائیں پھر فرشتوں کو حُکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو“ اس تاویل کے مطابق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن آخری پہر طواف افاضہ کیا پھر آپ واپس آئے جب ظہر کی نماز پڑھی اس طرح یہ الفاظ پہلے آگئے، جب ظہر کی نماز پڑھی اور یہ مؤخر ہوگئے، پھر واپس آئے۔ جبکہ الله تعالیٰ نے یہ الفاظ مقدم کیے ہیں ”ہم نے تمہیں پیدا کیا“ اور یہ مؤخر کیے ہیں ”پھر ہم نے تمھاری شکلیں بنائیں“ حالانکہ اصل ترتیب یہ ہے کہ ہم نے تمہاری شکلیں بنائیں پھر ہم نے تمہیں پیدا کیا۔
تخریج الحدیث: صحيح: قوله حين صلى الظهر فانه منكر - سنن ابی داؤد کتاب الحج باب في رمي الجمار: 1973 - مسند احمد: 90/6
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی تھی جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کی راتیں مکّہ مکرّمہ میں گزارنے کی اجازت مانگی تھی، کیونکہ وہ حاجیوں کو زمزم کا پانی پلاتے تھے تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔
سیدنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب میری رات کی باری آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس تشریف لانا تھا تو وہ قربانی والے دن کی شام تھی چنانچہ آپ میرے پاس تشریف لائے، آپ فرماتی ہیں کہ اتنے میں میرے پاس وہب اور ابو امیہ کے گھرانے کے کچھ افراد بھی قمیصیں پہنے ہوئے آگئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہب سے کہا: ”کیا تم نے طواف افاضہ کرلیا ہے، اے ابو عبداللہ؟“ اُس نے عرض کیا کہ نہیں اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول، نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر یہ قمیص اتار دو“ تو اس نے اسے سر کی جانب سے اتار دیا اور ان کے ساتھی نے بھی اپنی قمیص سر سے اتار دی انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ہم قمیص کیوں اتار دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس دن تمہیں رخصت دی گئی ہے کہ جب تم جمرہ عقبہ پر رمی کرلو تو تمھارے لئے احرام کی وجہ سے ممنوع ہونے والی ہر چیز حلال ہو جاتی ہے سوائے بیوی کے۔ پھر اگر تم نے طواف زیارہ کرنے سے پہلے ہی شام کرلی تو تم پھر اسی طرح احرام والے ہو جاؤ گے جیسے جمرہ عقبہ کی رمی سے پہلے تھے۔“
جناب ابو عبید مولی ابن ازہر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید میں شرکت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو (عیدین کے) دنوں کے روزے سے منع کیا ہے، رہی عید الفطر تو وہ اس لئے کہ وہ تمھارے روزے ختم کرنے کا دن ہے اور عید الاضحیٰ (کو روزہ اس لئے منع ہے) کہ تم اس دن اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔ میں نے مکمّل باب کتاب الکبیر میں کتاب الصیام کے تحت بیان کردیا ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوعبید کی ولاء میں راویوں کا اختلاف ہے، کچھ راوی اسے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا مولیٰ قرار دیتے ہیں اور کچھ ابن ازہر کا) لیکن میرے نزدیک اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ یہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ابن ازہر کے مشترکہ غلام ہوں اور ان دونوں نے ہی انہیں آزاد کر دیا ہو لہٰذا بعض راویوں نے انہیں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام قرار دیدیا اور بعض نے اسے ابن ازہر کا غلام کہہ دیا کیونکہ اس کی نسبت ولاء دونوں آزاد کرنے والے حضرات کی طرف ہے .
سیدنا بشر بن سُحیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایام تشریق میں اعلان کرنے کا حُکم دیا۔ جناب مخرمی کی روایت میں ہے کہ آپ نے انھیں منیٰ کے دنوں میں اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ جنّت میں صرف مؤمن داخل ہوںگے اور بیشک منیٰ کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔ میں نے یہ مکمّل باب کتاب الصوم میں بیان کردیا ہے۔
سیدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام جناب ابو مرہ بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایام تشریق میں اُن کے والد گرامی سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ کھانا کھا رہے تھے، انھوں نے ہمیں کھانے کی دعوت دی۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے اُنھیں کہا کہ بیشک میں تو روزے سے ہوں۔ تو سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کے روزے رکھنے سے منع کیا ہے اور ان دنوں میں روزہ نہ رکھنے کا حُکم دیا ہے۔ لہذا اُنھوں نے انھیں روزہ کھولنے کا حُکم دیا تو انھوں نے روزہ کھول دیا۔ ایک راوی نے دوسرے سے کچھ زیادہ الفاظ بیان کیے ہیں۔
للحاج من غير اهل مكة، وغير من قد اقام بمكة إقامة يجب عليه إتمام الصلاة بذكر خبر غلط في الاحتجاج به بعض اهل العلم ممن زعم ان سنة الصلاة بمنى لاهل الآفاق واهل مكة جميعا ركعتين كصلاة المسافر سواء.لِلْحَاجِّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِ مَكَّةَ، وَغَيْرِ مَنْ قَدْ أَقَامَ بِمَكَّةَ إِقَامَةً يَجِبُ عَلَيْهِ إِتْمَامُ الصَّلَاةِ بِذِكْرِ خَبَرٍ غَلَطَ فِي الِاحْتِجَاجِ بِهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِمَّنْ زَعَمَ أَنَّ سُنَّةَ الصَّلَاةِ بِمِنًى لِأَهْلِ الْآفَاقِ وَأَهْلِ مَكَّةَ جَمِيعًا رَكْعَتَيْنِ كَصَلَاةِ الْمُسَافِرِ سَوَاءً.
جناب عبدالرحمن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعات پڑھائیں تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعات پڑھی ہیں، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی دو دورکعات ہی پڑھی تھیں، پھر تم میں اختلاف ہوگیا میری تو خواہش ہے کہ کاش مجھے ان چار رکعات کی بجائے دو قبول کی ہوئی رکعات نصیب ہو جائیں۔ یہ الفاظ سلم بن جنادہ کی روایت کے ہیں۔