صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2093. (352) بَابُ الْبَيْتُوتَةِ بِمِنًى لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ.
ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنے کا بیان
حدیث نمبر: 2956
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ رَجَعَ فَمَكَثَ بِمِنًى لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ يَرْمِي الْجَمْرَةَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ كُلَّ جَمْرَةٍ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، وَيَقِفُ عِنْدَ الأُولَى وَعِنْدَ الثَّانِيَةِ، فَيُطِيلُ الْقِيَامَ، وَيَتَضَرَّعُ، ثُمَّ يَرْمِي الثَّالِثَةَ وَلا يَقِفُ عِنْدَهَا" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ: حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ، ظَاهِرُهَا خِلافُ خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ الَّذِي ذَكَرْنَاهُ قَبْلُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاضَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَلَّى الظُّهْرَ بِمِنًى، وَأَحْسَبُ أَنَّ مَعْنَى هَذِهِ اللَّفْظَةِ لا تُضَادُّ خَبَرَ ابْنِ عُمَرَ لَعَلَّ عَائِشَةَ أَرَادَتْ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ بَعْدَ رُجُوعِهِ إِلَى مِنًى، فَإِذَا حُمِلَ خَبَرُ عَائِشَةَ عَلَى هَذَا الْمَعْنَى لَمْ يَكُنْ مُخَالِفًا لِخَبَرِ ابْنِ عُمَرَ، وَخَبَرُ ابْنِ عُمَرَ أَثْبَتُ إِسْنَادًا مِنْ هَذَا الْخَبَرِ، وَخَبَرُ عَائِشَةَ مَا تَأَوَّلْتُ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّ الْكَلامَ مُقَدَّمٌ وَمُؤَخَّرٌ، كَقَوْلِهِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجَا سورة الكهف آية 1، وَمَثَلُ هَذَا فِي الْقُرْآنِ كَثِيرٌ، قَدْ بَيَّنْتُ بَعْضَهُ فِي كِتَابِ مَعَانِي الْقُرْآنِ، وَسَأُبَيِّنُ بَاقِيَهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَهَذَا كَقَوْلِهِ: وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ سورة الأعراف آية 11، فَمَعْنَى قَوْلِ عَائِشَةَ عَلَى هَذَا التَّأْوِيلِ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ، ثُمَّ رَجَعَ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ فَقَدَّمَ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ قَبْلَ قَوْلِهِ ثُمَّ رَجَعَ، كَمَا قَدَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقْنَاكُمْ قَبْلَ قَوْلِهِ: ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ، وَالْمَعْنَى صَوَّرْنَاكُمْ، ثُمَّ خَلَقْنَاكُمْ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن دوسرے پہر میں طواف افاضہ کیا جب آپ نے ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر آپ واپس منیٰ آگئے اور ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزاریں۔ آپ جمرات پر رمی کرتے جبکہ سورج ڈھل جاتا ہر جمرے پر سات کنکریاں مارتے اور ہرکنکری کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھتے۔ آپ پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس بڑا طویل قیام کرتے اور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے، پھر تیسرے جمرے کو کنکریاں مارنے کے بعد اس کے پاس نہ ٹھہرتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ”جب آپ نے ظہر کی نماز پڑھی“ ان کا ظاہری مفہوم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے خلاف ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن طواف افاضہ کیا پھر آپ نے منیٰ واپس آ کر ظہر کی نماز پڑھی۔ میرے خیال میں یہ الفاظ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے متضاد نہیں ہیں شاید کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن دوسرے پہر طواف افاضہ کیا جب ظہر کی نماز پڑھی منیٰ لوٹنے کے بعد۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا یہی معنی کیا جائے تو پھر یہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مخالف نہیں رہتی۔ لیکن سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سند کے اعتبار سے زیادہ مضبوط ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ اس میں تقدیم و تأخیر ہوئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا» [ سورة الكهف: 1 ] ”سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی قسم کی کجی نہیں رکھی۔“ اس قسم کی بیشمار مثالیں موجود ہیں، میں نے کچھ مثالیں کتاب معاني القرآن میں بیان کی ہیں اور عنقریب اس طرح باقی مثالیں بھی بیان کروں گا، ان شاء اللہ۔ اور یہ اس فرمان جیسا ہے «وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ» [ سورة الأعراف: 11 ] ”اور ہم نے ہی تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری شکلیں بنائیں پھر فرشتوں کو حُکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو“ اس تاویل کے مطابق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن آخری پہر طواف افاضہ کیا پھر آپ واپس آئے جب ظہر کی نماز پڑھی اس طرح یہ الفاظ پہلے آگئے، جب ظہر کی نماز پڑھی اور یہ مؤخر ہوگئے، پھر واپس آئے۔ جبکہ الله تعالیٰ نے یہ الفاظ مقدم کیے ہیں ”ہم نے تمہیں پیدا کیا“ اور یہ مؤخر کیے ہیں ”پھر ہم نے تمھاری شکلیں بنائیں“ حالانکہ اصل ترتیب یہ ہے کہ ہم نے تمہاری شکلیں بنائیں پھر ہم نے تمہیں پیدا کیا۔
تخریج الحدیث: صحيح: قوله حين صلى الظهر فانه منكر - سنن ابی داؤد کتاب الحج باب في رمي الجمار: 1973 - مسند احمد: 90/6