ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
حدثنا علي بن حجر ، حدثنا إسماعيل يعني ابن جعفر ، حدثنا محمد وهو ابن ابي حرملة ، عن كريب مولى ابن عباس، قال كريب: فاخبرني عبد الله بن العباس ، ان الفضل ، اخبره" ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يزل يلبي حتى رمى الجمرة" ، قال ابو بكر: خرجت طرق اخبار النبي صلى الله عليه وسلم انه لم يزل يلبي حتى رمى الجمرة في كتابي الكبير، وهذه اللفظة دالة على انه لم يزل يلبي رمي الجمرة بسبع حصيات إذ هذه اللفظة: حتى رمى الجمرة وحتى رمى جمرة العقبة ظاهرها حتى رمى جمرة العقبة بتمامها إذ غير جائز من جنس العربية إذا رمى الرامي حصاة واحدة ان يقال: رمى الجمرة، وإنما يقال: رمى الجمرة إذا رماها بسبع حصياتحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ كُرَيْبٌ: فَأَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ ، أَنَّ الْفَضْلَ ، أَخْبَرَهُ" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَرَّجْتُ طُرُقَ أَخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ فِي كِتَابِي الْكَبِيرِ، وَهَذِهِ اللَّفْظَةُ دَالَّةٌ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي رَمْيَ الْجَمْرَةِ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ إِذْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ: حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ وَحَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ ظَاهِرُهَا حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ بِتَمَامِهَا إِذْ غَيْرُ جَائِزٍ مِنْ جِنْسِ الْعَرَبِيَّةِ إِذَا رَمَى الرَّامِي حَصَاةً وَاحِدَةً أَنْ يُقَالَ: رَمَى الْجَمْرَةَ، وَإِنَّمَا يُقَالُ: رَمَى الْجَمْرَةَ إِذَا رَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ پر رمی کرنے تک مسلسل تلبیہ پکارتے رہتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان روایات کے طرق کتاب الکبیر میں بیان کردیئے ہیں کہ آپ نے جمرہ عقبہ پر رمی کرنے تک مسلسل تلبیہ پکارا ہے۔ اور یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ نے سات کنکریاں مارنے تک تلبیہ جاری رکھا تھا کیونکہ یہ الفاظ حتّیٰ کہ آپ نے رمی کرلی اس کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ تمام کنکریاں مارلیں۔ کیونکہ عربی زبان کے لحاظ سے یہ درست نہیں کہ جب رمی کرنے والا صرف ایک کنکری مارلے تو اس کے بارے میں کہا جائے کہ اس نے جمرے پر رمی پوری کرلی ہے بلکہ یہ الفاظ اس وقت کہے جائیںگے جب وہ مکمّل سات کنکریاں مارلے۔
وروي عن ابن مسعود،" فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة العقبة باول حصاة"، ثناه علي بن حجر ، اخبرنا شريك ، عن عامر ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال:" رمقت النبي صلى الله عليه وسلم فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة العقبة باول حصاة" ، قال ابو بكر: ولعله يخطر ببال بعض العلماء ان في هذا الخبر دلالة على ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقطع التلبية عند اول حصاة يرميها من جمرة العقبة، وهذا عندي من الجنس الذي اعلمت في غير موضع من كتابنا ان الامر قد يكون إلى وقت مؤقت في الخبر، والزجر يكون إلى وقت مؤقت في الخبر، ولا يكون في ذكر الوقت ما يدل على ان الامر بعد ذلك الوقت ساقط، ولا ان الزجر بعد ذلك الوقت ساقط، كزجره صلى الله عليه وسلم عن الصلاة بعد الصلاة حتى تطلع الشمس، فلم يكن في قوله دلالة على ان الشمس إذا طلعت فالصلاة جائزة عند طلوعها، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد زجر ان يتحرى بالصلاة طلوع الشمس وغروبها، والنبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم ان الشمس تطلع بين قرني شيطان، فزجر عن الصلاة عند طلوع الشمس، وقال: وإذا ارتفعت فارقها، فدلهم بهذه المخاطبة ان الصلاة عند طلوعها غير جائزة حتى ترتفع الشمس، وقد امليت من هذا الجنس مسائل كثيرة في الكتب المصنفة، والدليل على صحة هذا التاويل الحديث المصرح الذي حدثناهوَرُوِيَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ،" فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ بِأَوَّلِ حَصَاةٍ"، ثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" رَمَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ بِأَوَّلِ حَصَاةٍ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَلَعَلَّهُ يَخْطِرُ بِبَالِ بَعْضِ الْعُلَمَاءِ أَنَّ فِيَ هَذَا الْخَبَرِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ عِنْدَ أَوَّلِ حَصَاةٍ يَرْمِيهَا مِنْ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ، وَهَذَا عِنْدِي مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كِتَابِنَا أَنَّ الأَمْرَ قَدْ يَكُونُ إِلَى وَقْتٍ مُؤَقَّتٍ فِي الْخَبَرِ، وَالزَّجْرُ يَكُونُ إِلَى وَقْتٍ مُؤَقَّتٍ فِي الْخَبَرِ، وَلا يَكُونُ فِي ذِكْرِ الْوَقْتِ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الأَمْرَ بَعْدَ ذَلِكَ الْوَقْتِ سَاقِطٌ، وَلا أَنَّ الزَّجْرَ بَعْدَ ذَلِكَ الْوَقْتِ سَاقِطٌ، كَزَجْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الصَّلاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَلَمْ يَكُنْ فِي قَوْلِهِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ فَالصَّلاةُ جَائِزَةٌ عِنْدَ طُلُوعِهَا، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ زَجَرَ أَنْ يُتَحَرَّى بِالصَّلاةِ طُلُوعُ الشَّمْسِ وَغُرُوبُهَا، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، فَزَجَرَ عَنِ الصَّلاةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَقَالَ: وَإِذَا ارْتَفَعَتْ فَارِقْهَا، فَدَلَّهُمْ بِهَذِهِ الْمُخَاطَبَةِ أَنَّ الصَّلاةَ عِنْدَ طُلُوعِهَا غَيْرُ جَائِزَةٍ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ، وَقَدْ أَمْلَيْتُ مِنْ هَذَا الْجِنْسِ مَسَائِلَ كَثِيرَةً فِي الْكُتُبِ الْمُصَنَّفَةِ، وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ هَذَا التَّأْوِيلِ الْحَدِيثُ الْمُصَرِّحُ الَّذِي حَدَّثْنَاهُ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ جمرے پر پہلی کنکری مارنے تک مسلسل تلبیہ پکارتے رہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے جمرہ عقبہ کو پہلی کنکری مارنے تک مسلسل تلبیہ پڑھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ شاید کہ بعض علماء کے دل میں یہ خیال آئے کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ آپ جمرہ عقبہ پر پہلی کنکری پرتلبیہ پکارنا ختم کردیتے تھے۔ یہ مسئلہ میرے نزدیک اسی قسم سے ہے جسے میں اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر بیان کرچکا ہوں کہ کبھی کسی روایت میں کوئی حُکم خاص مقرر وقت تک ہوتا ہے اور کسی کام کی ممانعت بھی مقرر وقت تک ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت کی تحدید میں یہ دلیل نہیں ہوتی کہ اس وقت کے بعد حُکم یا ممانعت ختم ہو جائیگی۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ لیکن آپ کے اس فرمان میں یہ دلیل موجود نہیں کہ سورج نکل آنے پر نماز پڑھنا جائز ہو جاتا ہے۔ اور آپ نے بتایا ہے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے، اس لئے آپ نے سورج کے طلوع ہوتے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اور آپ نے فرمایا ہے کہ سورج بلند ہونے پر شیطان سورج سے الگ ہو جا تا ہے۔ اس طرح آپ نے یہ بیان فرمایا کہ سورج کے طلوع کے وقت نماز پڑھنا جائز نہیں حتّیٰ کہ سورج بلند ہو جائے تو پھر درست ہے۔ میں نے اس قسم کے بہت سارے مسائل اپنی کتب میں تحریر کیے ہیں۔ میری اس تاویل کے صحیح ہونے کی دلیل درج ذیل حدیث ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔
محمد بن حفص الشيباني ، حدثنا حفص بن غياث ، حدثنا جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن علي بن حسين ، عن ابن عباس ، عن اخيه الفضل ، قال:" افضت مع النبي صلى الله عليه وسلم في عرفات، فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة العقبة يكبر مع كل حصاة، ثم قطع التلبية مع آخر حصاة" ، قال ابو بكر: فهذا الخبر يصرح انه قطع التلبية مع آخر حصاة لا مع اولها، فإن لم يفهم بعض طلبة العلم هذا الجنس الذي ذكرنا في الوقت، فاكثر ما في هذين الخبر من اساس لو قال: لم يلب النبي صلى الله عليه وسلم بعد اول حصاة رماها، وقال الفضل: لبى بعد ذلك حتى رمى الحصاة السابعة، فكل من يفهم العلم، ويحسن الفقه، ولا يكابر عقله، ولا يعاند علم، ان الخبر هو من يخبر بكون الشيء او بسماعه لا ممن يدفع الشيء، وينكره، وقد بينت هذه المسالة في مواضع من كتبنامُحَمَّدُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أَخِيهِ الْفَضْلِ ، قَالَ:" أَفَضْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَرَفَاتٍ، فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ مَعَ آخِرِ حَصَاةٍ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذَا الْخَبَرُ يُصَرِّحُ أَنَّهُ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ مَعَ آخِرِ حَصَاةٍ لا مَعَ أَوَّلِهَا، فَإِنْ لَمْ يَفْهَمْ بَعْضُ طَلِبَةِ الْعِلْمِ هَذَا الْجِنْسَ الَّذِي ذَكَرْنَا فِي الْوَقْتِ، فَأَكْثَرُ مَا فِي هَذَيْنِ الْخَبَرُ مِنْ أَسَاسٍ لَوْ قَالَ: لَمْ يُلَبِّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَوَّلِ حَصَاةٍ رَمَاهَا، وَقَالَ الْفَضْلُ: لَبَّى بَعْدَ ذَلِكَ حَتَّى رَمَى الْحَصَاةَ السَّابِعَةَ، فَكُلُّ مَنْ يَفْهَمُ الْعِلْمَ، وَيُحْسِنُ الْفِقْهَ، وَلا يُكَابِرُ عَقَلَهُ، وَلا يُعَانِدُ عَلِمَ، أَنَّ الْخَبَرَ هُوَ مَنْ يُخْبِرُ بِكَوْنِ الشَّيْءِ أَوْ بِسَمَاعِهِ لا مِمَّنْ يَدْفَعُ الشَّيْءَ، وَيُنْكِرُهُ، وَقَدْ بَيَّنْتُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ فِي مَوَاضِعَ مِنْ كُتُبِنَا
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات سے واپس لوٹا تو آپ جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارنے تک مسلسل تلبیہ کہتے رہے۔ آپ ہر کنکری کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھتے، پھر آپ نے آخری کنکری مارنے پر تلبیہ پڑھنا بند کردیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ آپ نے آخری کنکری پھینکنے کے بعد تلبیہ بند کیا تھا۔ پہلی کنکری مارنے کے بعد نہیں اگر بعض طلبہ کو یہ مسئلہ سمجھ نہ آئے کہ کسی چیز کی حمد بیان کرنے سے بعد والی چیز کی نفی نہیں ہوتی۔ تو زیادہ سے زیادہ اس حدیث میں یہ ہوسکتی تھی اگر الفاظ حدیث اس طرح ہوتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی کنکری کے بعد تلبیہ نہیں کہا۔ حالانکہ سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ آپ نے آخری کنکری کے بعد تلبیہ بند کیا ہے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو علمی سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اپنی عقل و رائے کو مقدم نہیں کرتا اور نہ علمی ہٹ دھری وعناد میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بخوبی جانتا ہے کہ روایت اس راوی کی قبول ہوتی ہے جو کسی کا م کے ہونے کی خبر دیتا ہے نہ کہ جو کسی کام کے نہ ہونے کی خبر دے اور اس کے وقوع کا انکار کرے۔ میں نے یہ مسئلہ اپنی کتابوں میں کئی جگہ بیان کیا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر حج یا عمرہ میں جب آپ کی سواری آپ کو لیکر مسجد ذوالحلیفہ کے پاس سیدھی ہوجاتی تو آپ تلبیہ کہتے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی اور فرمایا کہ پھر آپ جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو اُسے سات کنکریاں ماریں، آپ ہر کنکری کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھتے اور جمرے کے پاس ٹھہرے نہیں بلکہ فارغ ہوکر واپس لوٹ گئے۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ پر تشریف لائے تو اُس پر کنکریاں ماریں پھر آپ اونٹ کی قربان گاہ تشریف لائے تو فرمایا: ”یہ اونٹ کی قربان گاہ ہے اور منیٰ سارا ہی قربان گاہ ہے۔“
حدثنا عبد الله بن سعيد الاشج ، حدثنا حفص بن غياث ، عن جعفر ، عن ابيه ، عن جابر ، قال: ذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى، قال: " ومنى كلها منحر" ، قال ابو بكر: هذه اللفظة" ومنى كلها منحر" من الجنس الذي اعلمت في غير موضع من كتبي ان الحكم بالنظر والشبيه واجب، لان في قوله صلى الله عليه وسلم: منى كلها منحر دلالة على انه اباح الذبح ايضا إن شاء الذابح من منى، ولو كان على خلاف مذهبنا في الحكم بالنظير والشبيه، وكان على ما زعم بعض اصحابنا ممن خالف المطلبي في هذه المسالة، وزعم ان الدليل الذي لا يحتمل غيره انه إذا خص في إباحة شيء بعينه كان الدليل الذي لا يحتمل غيره من زعم ان ما كان غير ذلك الشيء بعينه محظور كان في قوله صلى الله عليه وسلم: منى كلها منحر دلالة على ان كلها ليس بمذبح واتفاق الجميع من العلماء على ان جميع منى مذبح، كما خبر النبي صلى الله عليه وسلم انها منحر دال على صحة مذهبنا، وبطلان مذهب مخالفينا إذ محال ان يتفق الجميع من العلماء على خلاف دليل قول النبي صلى الله عليه وسلم لا يجوز غيرهحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى، قَالَ: " وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ" وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ" مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِي أَنَّ الْحُكْمَ بِالنَّظَرِ وَالشَّبِيهِ وَاجِبٌ، لأَنَّ فِي قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّهُ أَبَاحَ الذَّبْحَ أَيْضًا إِنْ شَاءَ الذَّابِحُ مِنْ مِنًى، وَلَوْ كَانَ عَلَى خِلافِ مَذْهَبِنَا فِي الْحُكْمِ بِالنَّظِيرِ وَالشَّبِيهِ، وَكَانَ عَلَى مَا زَعَمَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا مِمَّنْ خَالَفَ الْمُطَّلِبِيَّ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، وَزَعَمَ أَنَّ الدَّلِيلَ الَّذِي لا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ أَنَّهُ إِذَا خَصَّ فِي إِبَاحَةِ شَيْءٍ بِعَيْنِهِ كَانَ الدَّلِيلُ الَّذِي لا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ مَنْ زَعَمَ أَنَّ مَا كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ الشَّيْءَ بِعَيْنِهِ مَحْظُورٌ كَانَ فِي قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ كُلَّهَا لَيْسَ بِمَذْبَحٍ وَاتِّفَاقِ الْجَمِيعِ مِنَ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّ جَمِيعَ مِنًى مَذْبَحٌ، كَمَا خَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا مَنْحَرٌ دَالٌ عَلَى صِحَّةِ مَذْهَبِنَا، وَبُطْلانِ مَذْهَبِ مُخَالِفِينَا إِذْ مُحَالٌ أَنْ يَتَّفِقَ الْجَمِيعُ مِنَ الْعُلَمَاءِ عَلَى خِلافِ دَلِيلِ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يَجُوزُ غَيْرُهُ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں قربانی کا جانور ذبح کیا اور فرمایا: ”منیٰ کا سارا علاقہ اونٹ کی قربان گاہ ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حدیث کے یہ الفاظ ”منیٰ کا سارا علاقہ قربان گاہ ہے۔“ یہ مسئلہ اس قسم کا ہے جسے میں اپنی کتب میں بیان کر چکا ہوں کہ ایک جیسے، ملتے جلتے مسائل میں ایک ہی حُکم لگانا واجب ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ ”پورا منیٰ اونٹ کی قربان گاہ ہے“ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے سارے منیٰ میں گائے، بکری وغیرہ ذبح کرنے کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ اگر معاملہ ہمارے مخالفین کے موقف کے مطابق ہوتا کہ ایک جیسے مسائل میں ایک جیسا حُکم لگانا درست نہیں اور جیسا کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے جناب مُطلبی کی مخالفت میں کہا ہے اس کا خیال ہے کہ جب کسی مخصوص چیز کو جائز قرار دیا جائے تو دیگر چیزیں ممنوع ہوںگی تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ”پورامنیٰ اونٹ کی قربان گاہ ہے“ میں یہ دلیل ہوتی کہ پورا منیٰ دیگر جانوروں کا ذبح خانہ نہیں ہے۔ حالانکہ تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ منیٰ کا سارا علاقہ گائے بکری کے لئے ذبح خانہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ ”سارا منیٰ اونٹ کی قربان گاہ ہے۔“ آپ کا یہ فرمان ہمارے موقف کے درست ہونے اور ہمارے مخالفین کے موقف کے غلط ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ تمام علمائے کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے خلاف متفق ہوجائیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا ہم آپ کے لئے منیٰ میں عمارت نہ بنادیں جس کے سائے میں آپ تشریف فرما ہوسکیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، منیٰ اُسی کی جگہ ہے جو پہلے آجائے۔“
جناب جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، اُنھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے تریسٹھ اونٹ نحر کیے، پھر آپ نے بقیہ اونٹ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیے تو انھوں نے انھیں نحر کیا۔ جناب علی بن حجر کی روایت میں ”بقى“(جو باقی بچے) کا لفظ آیا ہے۔ (جبکہ محمد بن بشار کی روایت میں ”غبر“(باقی مانده اونٹ) کا لفظ ہے۔
ضد قول مذهب من كره ذلك وجهل السنة وسمى السنة بدعة بجهله بالسنة.ضِدَّ قَوْلِ مَذْهَبِ مَنْ كَرِهَ ذَلِكَ وَجَهِلَ السُّنَّةَ وَسَمَّى السُّنَّةَ بِدْعَةً بِجَهْلِهِ بِالسُّنَّةِ.
ان علماء کے موقف کے برخلاف جس نے اس طریقے کو ناپسند کیا ہے اور سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ناواقفیت کی وجہ سے اسے بدعت قرار دے دیا ہے