صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2039. (298) بَابُ قَطْعِ التَّلْبِيَةِ إِذَا رَمَى الْحَاجُّ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ
جب حاجی دس ذوالحجہ کو جمرہ عقبہ پر رمی کرلے تو تلبیہ بند کردے
حدیث نمبر: 2886
وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ،" فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ بِأَوَّلِ حَصَاةٍ"، ثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" رَمَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ بِأَوَّلِ حَصَاةٍ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَلَعَلَّهُ يَخْطِرُ بِبَالِ بَعْضِ الْعُلَمَاءِ أَنَّ فِيَ هَذَا الْخَبَرِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ عِنْدَ أَوَّلِ حَصَاةٍ يَرْمِيهَا مِنْ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ، وَهَذَا عِنْدِي مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كِتَابِنَا أَنَّ الأَمْرَ قَدْ يَكُونُ إِلَى وَقْتٍ مُؤَقَّتٍ فِي الْخَبَرِ، وَالزَّجْرُ يَكُونُ إِلَى وَقْتٍ مُؤَقَّتٍ فِي الْخَبَرِ، وَلا يَكُونُ فِي ذِكْرِ الْوَقْتِ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الأَمْرَ بَعْدَ ذَلِكَ الْوَقْتِ سَاقِطٌ، وَلا أَنَّ الزَّجْرَ بَعْدَ ذَلِكَ الْوَقْتِ سَاقِطٌ، كَزَجْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الصَّلاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَلَمْ يَكُنْ فِي قَوْلِهِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ فَالصَّلاةُ جَائِزَةٌ عِنْدَ طُلُوعِهَا، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ زَجَرَ أَنْ يُتَحَرَّى بِالصَّلاةِ طُلُوعُ الشَّمْسِ وَغُرُوبُهَا، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، فَزَجَرَ عَنِ الصَّلاةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَقَالَ: وَإِذَا ارْتَفَعَتْ فَارِقْهَا، فَدَلَّهُمْ بِهَذِهِ الْمُخَاطَبَةِ أَنَّ الصَّلاةَ عِنْدَ طُلُوعِهَا غَيْرُ جَائِزَةٍ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ، وَقَدْ أَمْلَيْتُ مِنْ هَذَا الْجِنْسِ مَسَائِلَ كَثِيرَةً فِي الْكُتُبِ الْمُصَنَّفَةِ، وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ هَذَا التَّأْوِيلِ الْحَدِيثُ الْمُصَرِّحُ الَّذِي حَدَّثْنَاهُ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ جمرے پر پہلی کنکری مارنے تک مسلسل تلبیہ پکارتے رہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے جمرہ عقبہ کو پہلی کنکری مارنے تک مسلسل تلبیہ پڑھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ شاید کہ بعض علماء کے دل میں یہ خیال آئے کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ آپ جمرہ عقبہ پر پہلی کنکری پرتلبیہ پکارنا ختم کردیتے تھے۔ یہ مسئلہ میرے نزدیک اسی قسم سے ہے جسے میں اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر بیان کرچکا ہوں کہ کبھی کسی روایت میں کوئی حُکم خاص مقرر وقت تک ہوتا ہے اور کسی کام کی ممانعت بھی مقرر وقت تک ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت کی تحدید میں یہ دلیل نہیں ہوتی کہ اس وقت کے بعد حُکم یا ممانعت ختم ہو جائیگی۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ لیکن آپ کے اس فرمان میں یہ دلیل موجود نہیں کہ سورج نکل آنے پر نماز پڑھنا جائز ہو جاتا ہے۔ اور آپ نے بتایا ہے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے، اس لئے آپ نے سورج کے طلوع ہوتے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اور آپ نے فرمایا ہے کہ سورج بلند ہونے پر شیطان سورج سے الگ ہو جا تا ہے۔ اس طرح آپ نے یہ بیان فرمایا کہ سورج کے طلوع کے وقت نماز پڑھنا جائز نہیں حتّیٰ کہ سورج بلند ہو جائے تو پھر درست ہے۔ میں نے اس قسم کے بہت سارے مسائل اپنی کتب میں تحریر کیے ہیں۔ میری اس تاویل کے صحیح ہونے کی دلیل درج ذیل حدیث ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح لغيره