ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
محمد بن حفص الشيباني ، حدثنا حفص بن غياث ، حدثنا جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن علي بن حسين ، عن ابن عباس ، عن اخيه الفضل ، قال:" افضت مع النبي صلى الله عليه وسلم في عرفات، فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة العقبة يكبر مع كل حصاة، ثم قطع التلبية مع آخر حصاة" ، قال ابو بكر: فهذا الخبر يصرح انه قطع التلبية مع آخر حصاة لا مع اولها، فإن لم يفهم بعض طلبة العلم هذا الجنس الذي ذكرنا في الوقت، فاكثر ما في هذين الخبر من اساس لو قال: لم يلب النبي صلى الله عليه وسلم بعد اول حصاة رماها، وقال الفضل: لبى بعد ذلك حتى رمى الحصاة السابعة، فكل من يفهم العلم، ويحسن الفقه، ولا يكابر عقله، ولا يعاند علم، ان الخبر هو من يخبر بكون الشيء او بسماعه لا ممن يدفع الشيء، وينكره، وقد بينت هذه المسالة في مواضع من كتبنامُحَمَّدُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أَخِيهِ الْفَضْلِ ، قَالَ:" أَفَضْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَرَفَاتٍ، فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ مَعَ آخِرِ حَصَاةٍ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذَا الْخَبَرُ يُصَرِّحُ أَنَّهُ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ مَعَ آخِرِ حَصَاةٍ لا مَعَ أَوَّلِهَا، فَإِنْ لَمْ يَفْهَمْ بَعْضُ طَلِبَةِ الْعِلْمِ هَذَا الْجِنْسَ الَّذِي ذَكَرْنَا فِي الْوَقْتِ، فَأَكْثَرُ مَا فِي هَذَيْنِ الْخَبَرُ مِنْ أَسَاسٍ لَوْ قَالَ: لَمْ يُلَبِّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَوَّلِ حَصَاةٍ رَمَاهَا، وَقَالَ الْفَضْلُ: لَبَّى بَعْدَ ذَلِكَ حَتَّى رَمَى الْحَصَاةَ السَّابِعَةَ، فَكُلُّ مَنْ يَفْهَمُ الْعِلْمَ، وَيُحْسِنُ الْفِقْهَ، وَلا يُكَابِرُ عَقَلَهُ، وَلا يُعَانِدُ عَلِمَ، أَنَّ الْخَبَرَ هُوَ مَنْ يُخْبِرُ بِكَوْنِ الشَّيْءِ أَوْ بِسَمَاعِهِ لا مِمَّنْ يَدْفَعُ الشَّيْءَ، وَيُنْكِرُهُ، وَقَدْ بَيَّنْتُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ فِي مَوَاضِعَ مِنْ كُتُبِنَا
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات سے واپس لوٹا تو آپ جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارنے تک مسلسل تلبیہ کہتے رہے۔ آپ ہر کنکری کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھتے، پھر آپ نے آخری کنکری مارنے پر تلبیہ پڑھنا بند کردیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ آپ نے آخری کنکری پھینکنے کے بعد تلبیہ بند کیا تھا۔ پہلی کنکری مارنے کے بعد نہیں اگر بعض طلبہ کو یہ مسئلہ سمجھ نہ آئے کہ کسی چیز کی حمد بیان کرنے سے بعد والی چیز کی نفی نہیں ہوتی۔ تو زیادہ سے زیادہ اس حدیث میں یہ ہوسکتی تھی اگر الفاظ حدیث اس طرح ہوتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی کنکری کے بعد تلبیہ نہیں کہا۔ حالانکہ سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ آپ نے آخری کنکری کے بعد تلبیہ بند کیا ہے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو علمی سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اپنی عقل و رائے کو مقدم نہیں کرتا اور نہ علمی ہٹ دھری وعناد میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بخوبی جانتا ہے کہ روایت اس راوی کی قبول ہوتی ہے جو کسی کا م کے ہونے کی خبر دیتا ہے نہ کہ جو کسی کام کے نہ ہونے کی خبر دے اور اس کے وقوع کا انکار کرے۔ میں نے یہ مسئلہ اپنی کتابوں میں کئی جگہ بیان کیا ہے۔