صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2042. (301) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي النَّحْرِ وَالذَّبْحِ أَيْنَ شَاءَ الْمَرْءُ مِنْ مِنًى.
حاجی منیٰ میں جہاں چاہے قربانی کرسکتا ہے
حدیث نمبر: 2890
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى، قَالَ: " وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ" وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ" مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِي أَنَّ الْحُكْمَ بِالنَّظَرِ وَالشَّبِيهِ وَاجِبٌ، لأَنَّ فِي قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّهُ أَبَاحَ الذَّبْحَ أَيْضًا إِنْ شَاءَ الذَّابِحُ مِنْ مِنًى، وَلَوْ كَانَ عَلَى خِلافِ مَذْهَبِنَا فِي الْحُكْمِ بِالنَّظِيرِ وَالشَّبِيهِ، وَكَانَ عَلَى مَا زَعَمَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا مِمَّنْ خَالَفَ الْمُطَّلِبِيَّ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، وَزَعَمَ أَنَّ الدَّلِيلَ الَّذِي لا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ أَنَّهُ إِذَا خَصَّ فِي إِبَاحَةِ شَيْءٍ بِعَيْنِهِ كَانَ الدَّلِيلُ الَّذِي لا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ مَنْ زَعَمَ أَنَّ مَا كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ الشَّيْءَ بِعَيْنِهِ مَحْظُورٌ كَانَ فِي قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ كُلَّهَا لَيْسَ بِمَذْبَحٍ وَاتِّفَاقِ الْجَمِيعِ مِنَ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّ جَمِيعَ مِنًى مَذْبَحٌ، كَمَا خَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا مَنْحَرٌ دَالٌ عَلَى صِحَّةِ مَذْهَبِنَا، وَبُطْلانِ مَذْهَبِ مُخَالِفِينَا إِذْ مُحَالٌ أَنْ يَتَّفِقَ الْجَمِيعُ مِنَ الْعُلَمَاءِ عَلَى خِلافِ دَلِيلِ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يَجُوزُ غَيْرُهُ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں قربانی کا جانور ذبح کیا اور فرمایا: ”منیٰ کا سارا علاقہ اونٹ کی قربان گاہ ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حدیث کے یہ الفاظ ”منیٰ کا سارا علاقہ قربان گاہ ہے۔“ یہ مسئلہ اس قسم کا ہے جسے میں اپنی کتب میں بیان کر چکا ہوں کہ ایک جیسے، ملتے جلتے مسائل میں ایک ہی حُکم لگانا واجب ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ ”پورا منیٰ اونٹ کی قربان گاہ ہے“ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے سارے منیٰ میں گائے، بکری وغیرہ ذبح کرنے کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ اگر معاملہ ہمارے مخالفین کے موقف کے مطابق ہوتا کہ ایک جیسے مسائل میں ایک جیسا حُکم لگانا درست نہیں اور جیسا کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے جناب مُطلبی کی مخالفت میں کہا ہے اس کا خیال ہے کہ جب کسی مخصوص چیز کو جائز قرار دیا جائے تو دیگر چیزیں ممنوع ہوںگی تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ”پورامنیٰ اونٹ کی قربان گاہ ہے“ میں یہ دلیل ہوتی کہ پورا منیٰ دیگر جانوروں کا ذبح خانہ نہیں ہے۔ حالانکہ تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ منیٰ کا سارا علاقہ گائے بکری کے لئے ذبح خانہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ ”سارا منیٰ اونٹ کی قربان گاہ ہے۔“ آپ کا یہ فرمان ہمارے موقف کے درست ہونے اور ہمارے مخالفین کے موقف کے غلط ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ تمام علمائے کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے خلاف متفق ہوجائیں۔
تخریج الحدیث: صحيح مسلم