ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دس ذوالحجہ کو چاشت کے وقت جمرے پر کنکریاں مارتے تھے۔ جناب معمر بیان کرتے ہیں کہ صرف ایک جمرے کو۔ دونوں راویوں کی روایت میں ہے کہ باقی دنوں میں سورج ڈھلنے کے بعد کنکریاں مارتے تھے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس ذوالحجہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر بیٹھ کر کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا: ”مجھ سے اپنے حج کے احکام سیکھ لو کیونکہ مجھے معلوم نہیں، شاید کہ میں اپنے اس حج کے بعد حج نہ کرسکوں۔“
سیدنا قدامہ بن عبداللہ بن عمار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوم النحر (دس ذوالحجہ) کو (جمرات پر کنکریاں مارتے وقت) آپ کی سرخ و سفید صہباء اونٹنی پر سوار دیکھا۔ (آپ کے لئے) نہ کسی کو مارا گیا نہ دھکے دیئے گئے اور نہ ایک طرف ہوجاؤ، ایک طرف ہوجاؤ کی پکار ہوئی۔ “
جناب اعمش کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو کہتے ہوئے سنا کہ تم اس طرح نہ کہو، سورة البقرة ‘ بلکہ اس طرح کہو کہ وہ سورت جس میں گائے کا تذکرہ ہے۔ میں نے یہ بات جناب ابراہیم کو بتائی تو اُنہوں نے فرمایا کہ مجھے حضرت عبدالرحمن بن یزید نے بیان کیا کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے جب اُنھوں نے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماری تھیں، وہ وادی کے درمیان میں آئے اور جمرے کی طرف مُنہ کرکے اُسے سات کنکریاں ماریں اُنھوں نے ہر کنکری کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھا۔ میں نے اُن سے عرض کیا کہ کچھ لوگ تو اس پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں اُنھوں نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ جس نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورة البقره نازل ہوئی ہے میں نے اُسے اسی جگہ سے کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا ہے، یہ جناب دورقی کی روایت ہے۔
جناب ابراہیم سے روایت ہے کہ جناب عبدالرحمن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ اُنھوں نے سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا تو اُنھوں نے جمرے کو سات کنکریاں ماریں کنکریاں مارتے وقت اُنھوں نے بیت الله شریف کو اپنی بائیں جانب اور منیٰ کو اپنی دائیں جانب کیا۔ اور کہا یہ وہ جگہ ہے جہاں سے اُس ہستی نے کنکریاں ماری تھیں جس پر سورة البقره نازل ہوئی ہے۔ جناب زعفرانی کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اُنھوں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔ اور یہ الفاظ بیان کیے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے رمی کی۔
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا تو آپ جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک مسلسل تلبیہ پکارتے رہے۔ آپ نے اُسے سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے تھے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمر بن حفص شیبانی کی حفص بن غیاث سے روایت دوسرے باب سے تعلق رکھتی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً بیت اللہ شریف کا طواف صفا اور مروہ کی سعی اور جمرات کی رمی اللہ تعالی کا ذکر قائم کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے۔“
حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، وعيسى بن إبراهيم الغافقي ، قالا: حدثنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب , ان سالم بن عبد الله اخبره، ان عبد الله بن عمر ، كان يقدم ضعفة اهله، فمنهم ممن يقدم منى لصلاة الفجر، ومنهم من يقدم بعد ذلك، فإذا قدموا رموا الجمرة ، وكان ابن عمر، يقول:" ارخص في اولئك رسول الله صلى الله عليه وسلم"، قال ابو بكر: قد خرجت طرق اخبار ابن عباس في كتابي الكبير ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ابني، لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس"، ولست احفظ في تلك الاخبار إسنادا ثابتا من جهة النقل، فإن ثبت إسناد واحد منها، فمعناه ان النبي صلى الله عليه وسلم زجر المذكور ممن قدمهم تلك الليلة عن رمي الجمار قبل طلوع الشمس، لا السامع المذكور، لان خبر ابن عمر يدل على ان النبي صلى الله عليه وسلم قد اذن لضعفة النساء في رمي الجمار قبل طلوع الشمس، فلا يكون خبر ابن عمر خلاف خبر ابن عباس، إن ثبت خبر ابن عباس من جهة النقل على ان رمي الجمار لضعفة النساء بالليل قبل طلوع الفجر ايضا عندي جائز للخبر الذي اذكره في الباب الذي يلي هذا إن شاء اللهحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، وَعِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغَافِقِيُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يُقَدِّمُ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ، فَمِنْهُمْ مِمَّنْ يَقْدَمُ مِنًى لِصَلاةِ الْفَجْرِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقْدَمُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَإِذَا قَدِمُوا رَمَوَا الْجَمْرَةَ ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَقُولُ:" أَرْخَصَ فِي أُولَئِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ خَرَّجْتُ طُرُقَ أَخْبَارِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي كِتَابِي الْكَبِيرِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَبَنِيَّ، لا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ"، وَلَسْتُ أَحْفَظُ فِي تِلْكَ الأَخْبَارِ إِسْنَادًا ثَابِتًا مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، فَإِنْ ثَبَتَ إِسْنَادٌ وَاحِدٌ مِنْهَا، فَمَعْنَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَجَرَ الْمَذْكُورَ مِمَّنْ قَدَّمَهُمْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ عَنْ رَمْيِ الْجِمَارِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، لا السَّامِعَ الْمَذْكُورَ، لأَنَّ خَبَرَ ابْنِ عُمَرَ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَذِنَ لِضَعْفَةِ النِّسَاءِ فِي رَمْيِ الْجِمَارِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، فَلا يَكُونُ خَبَرُ ابْنِ عُمَرَ خِلافَ خَبَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ، إِنْ ثَبَتَ خَبَرُ ابْنِ عَبَّاسٍ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ عَلَى أَنَّ رَمْيَ الْجِمَارِ لِضَعْفَةِ النِّسَاءِ بِاللَّيْلِ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ أَيْضًا عِنْدِي جَائِزٌ لِلْخَبَرِ الَّذِي أَذْكُرُهُ فِي الْبَابِ الَّذِي يَلِي هَذَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ
حضرت سالم بن عبداللہ رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گھر کے کمزور افراد کو (مزدلفہ سے منیٰ) پہلے ہی روانہ کردیتے تھے۔ پھر ان میں سے کچھ نماز فجر کے وقت منیٰ پہنچتے تو کچھ اس کے بعد پہنچ جاتے۔ جب وہ منیٰ پہنچ جاتے تو جمرہ عقبہ کو رمی کرتے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اجازت دی ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے طرق کتاب الکبیر میں بیان کر دیئے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے میرے بیٹو، سورج طلوع ہونے تک جمرے کو کنکریاں مت مارنا۔“ ان تمام روایات میں مجھے کسی کی سند کا علم نہیں کہ کوئی روایت ان میں سے ثابت بھی ہے لیکن اگر کوئی ایک سند بھی میں ثابت ہو جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان افراد کو سورج طلوع ہونے سے قبل رمی کرنے سے منع کیا تھا جنہیں آپ نے مزدلفہ سے رات کے وقت روانہ کیا تھا۔ تمام سامعین کو منع نہیں کیا تھا۔ کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے عورتوں اور کمزوروں کو سورج طلوع ہونے سے پہلے رمی کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس طرح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے مخالف نہیں رہیگی۔ بشرطیکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سند کے اعتبار سے ثابت ہو، میرے نزدیک کمزور عورتوں کے لئے رات کے وقت رمی کرنا جائز ہے، اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے میں اگلے باب میں ذکر کروںگا۔ ان شاء اللہ۔
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا يحيى ، عن ابن جريج . ح وحدثنا محمد بن معمر ، حدثنا محمد ، اخبرنا ابن جريج ، حدثني عبد الله مولى اسماء، ان اسماء ، نزلت ليلة جمع دار المزدلفة، فقامت تصلي، فقالت:" يا بني، قم انظر هل غاب القمر؟" قلت: لا، فصلت، ثم قالت:" يا بني، انظر هل غاب القمر؟" قلت: نعم، قالت:" ارتحل"، فارتحلنا فرمينا الجمرة، ثم صلت الغداة في منزلها، قال: فقلت لها: يا هنتاه، لقد رمينا الجمرة بليل، قالت:" كنا نصنع هذا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم" ، هذا حديث بندار، قال ابن معمر: اخبرني عبد الله مولى اسماء، عن اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنها، انها قالت: اي بني، هل غاب القمر؟ فقلت: نعم، قالت: فارتحلوا، قال: ثم مضينا بها حتى رمت الجمرة، ثم رجعت فصلت الصبح في منزلها، فقلت لها:" يا هنتاه، لقد غلسنا؟ قالت: كلا يا بني، إن نبي الله صلى الله عليه وسلم اذن للظعن"، قال ابو بكر: فهذا الخبر دال على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما اذن في الرمي قبل طلوع الشمس للنساء دون الذكور، وعبد الله مولى اسماء هذا قد روى عنه عطاء بن ابي رباح ايضا قد ارتفع عنه اسم الجهالةحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، أَنَّ أَسْمَاءَ ، نَزَلَتْ لَيْلَةَ جَمْعٍ دَارَ الْمُزْدَلِفَةِ، فَقَامَتْ تُصَلِّي، فَقَالَتْ:" يَا بُنَيَّ، قُمِ انْظُرْ هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟" قُلْتُ: لا، فَصَلَّتْ، ثُمَّ قَالَتُ:" يَا بُنَيَّ، انْظُرْ هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتِ:" ارْتَحِلْ"، فَارْتَحَلْنَا فَرَمَيْنَا الْجَمْرَةَ، ثُمَّ صَلَّتِ الْغَدَاةَ فِي مَنْزِلِهَا، قَالَ: فَقُلْتُ لَهَا: يَا هَنَتَاهُ، لَقَدْ رَمَيْنَا الْجَمْرَةَ بِلَيْلٍ، قَالَتْ:" كُنَّا نَصْنَعُ هَذَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ، هَذَا حَدِيثُ بُنْدَارٍ، قَالَ ابْنُ مَعْمَرٍ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَيْ بُنَيَّ، هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَارْتَحِلُوا، قَالَ: ثُمَّ مَضَيْنَا بِهَا حَتَّى رَمَتِ الْجَمْرَةَ، ثُمَّ رَجَعَتْ فَصَلَّتِ الصُّبْحَ فِي مَنْزِلِهَا، فَقُلْتُ لَهَا:" يَا هَنَتَاهُ، لَقَدْ غَلَّسْنَا؟ قَالَتْ: كَلا يَا بُنَيَّ، إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِلظُّعُنِ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذَا الْخَبَرُ دَالٌ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَذِنَ فِي الرَّمْيِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ لِلنِّسَاءِ دُونَ الذُّكُورِ، وَعَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ هَذَا قَدْ رَوَى عَنْهُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ أَيْضًا قَدِ ارْتَفَعَ عَنْهُ اسْمُ الْجَهَالَةِ
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا مزدلفہ کی رات مزدلفہ والے گھر میں تشریف فرما تھیں، پھر اُنہوں نے کھڑے ہوکر نماز شروع کردی اور فرمایا کہ بیٹا اُٹھو اور دیکھو کہ چاند غروب ہو گیا ہے کہ نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں تو، اُنہوں نے پھر نماز پڑھنی شروع کردی، پھر مجھے آواز دی کہ بیٹا دیکھو چاند غروب ہو گیا ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں۔ تو اُنھوں نے فرمایا کہ چلو پھر کوچ کرو، لہٰذا ہم مزدلفہ سے روانہ ہو گئے اور (منیٰ آکر) جمرہ عقبہ کوکنکریاں ماریں۔ پھر اُنھوں نے صبح کی نماز اپنے خیمے میں ادا کی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اُن سے عرض کیا کہ اماں جی، ہم نے رات کے وقت ہی کنکریاں مارلی ہیں۔ اُنھوں نے فرمایا کہ ہم (ضعیف عورتیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بھی اسی طرح کنکریاں مارلیتی تھیں۔ یہ جناب بندار کی حدیث ہے۔ جناب ابن معمر کہتے ہیں کہ مجھے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام حضرت عبداللہ نے بتایا کہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بیٹا، کیا چاند ڈوب گیا ہے۔ میں نے کہا کہ جی ہاں۔ تو اُنہوں نے فرمایا، تو پھر چلو۔ لہٰذا ہم چل پڑے۔ ہم آپ کے ساتھ چلتے رہے حتّیٰ کہ اُنہوں نے جمرہ عقبہ کی رمی پوری کرلی۔ پھر وہ واپس آئیں اور صبح کی نماز اپنی قیام گاہ میں پڑھی۔ تو میں نے کہا کہ اماں جی، ہم نے اندھیرے میں کنکریاں مارلی ہیں اُنھوں نے فرمایا کہ ہرگز نہیں بیٹا، اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشین عورتوں کو (اس وقت) رمی کرنے کی اجازت دی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج طلوع ہونے سے پہلے صرف عورتوں کو رمی کرنے کی اجازت دی ہے، مردوں کو نہیں دی۔ جناب عبداللہ جو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں، ان سے امام عطاء بن ابی رباح نے بھی روایت کیا ہے۔ اس لئے ان سے جہالت عین دور ہوگئی ہے۔