صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2038. (297) بَابُ الرُّخْصَةِ لِلنِّسَاءِ اللَّوَاتِي رُخِّصَ لَهُنَّ فِي الْإِفَاضَةِ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ فِي رَمْيِ الْجِمَارِ قَبْلَ الْفَجْرِ
جن عورتوں کو مزدلفہ سے رات کے وقت منیٰ آنے کی رخصت ہے وہ طلوع فجر سے پہلے جمرے کو کنکریاں بھی مارسکتی ہیں
حدیث نمبر: 2884
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، أَنَّ أَسْمَاءَ ، نَزَلَتْ لَيْلَةَ جَمْعٍ دَارَ الْمُزْدَلِفَةِ، فَقَامَتْ تُصَلِّي، فَقَالَتْ:" يَا بُنَيَّ، قُمِ انْظُرْ هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟" قُلْتُ: لا، فَصَلَّتْ، ثُمَّ قَالَتُ:" يَا بُنَيَّ، انْظُرْ هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتِ:" ارْتَحِلْ"، فَارْتَحَلْنَا فَرَمَيْنَا الْجَمْرَةَ، ثُمَّ صَلَّتِ الْغَدَاةَ فِي مَنْزِلِهَا، قَالَ: فَقُلْتُ لَهَا: يَا هَنَتَاهُ، لَقَدْ رَمَيْنَا الْجَمْرَةَ بِلَيْلٍ، قَالَتْ:" كُنَّا نَصْنَعُ هَذَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ، هَذَا حَدِيثُ بُنْدَارٍ، قَالَ ابْنُ مَعْمَرٍ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَيْ بُنَيَّ، هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَارْتَحِلُوا، قَالَ: ثُمَّ مَضَيْنَا بِهَا حَتَّى رَمَتِ الْجَمْرَةَ، ثُمَّ رَجَعَتْ فَصَلَّتِ الصُّبْحَ فِي مَنْزِلِهَا، فَقُلْتُ لَهَا:" يَا هَنَتَاهُ، لَقَدْ غَلَّسْنَا؟ قَالَتْ: كَلا يَا بُنَيَّ، إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِلظُّعُنِ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذَا الْخَبَرُ دَالٌ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَذِنَ فِي الرَّمْيِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ لِلنِّسَاءِ دُونَ الذُّكُورِ، وَعَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ هَذَا قَدْ رَوَى عَنْهُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ أَيْضًا قَدِ ارْتَفَعَ عَنْهُ اسْمُ الْجَهَالَةِ
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا مزدلفہ کی رات مزدلفہ والے گھر میں تشریف فرما تھیں، پھر اُنہوں نے کھڑے ہوکر نماز شروع کردی اور فرمایا کہ بیٹا اُٹھو اور دیکھو کہ چاند غروب ہو گیا ہے کہ نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں تو، اُنہوں نے پھر نماز پڑھنی شروع کردی، پھر مجھے آواز دی کہ بیٹا دیکھو چاند غروب ہو گیا ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں۔ تو اُنھوں نے فرمایا کہ چلو پھر کوچ کرو، لہٰذا ہم مزدلفہ سے روانہ ہو گئے اور (منیٰ آکر) جمرہ عقبہ کوکنکریاں ماریں۔ پھر اُنھوں نے صبح کی نماز اپنے خیمے میں ادا کی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اُن سے عرض کیا کہ اماں جی، ہم نے رات کے وقت ہی کنکریاں مارلی ہیں۔ اُنھوں نے فرمایا کہ ہم (ضعیف عورتیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بھی اسی طرح کنکریاں مارلیتی تھیں۔ یہ جناب بندار کی حدیث ہے۔ جناب ابن معمر کہتے ہیں کہ مجھے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام حضرت عبداللہ نے بتایا کہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بیٹا، کیا چاند ڈوب گیا ہے۔ میں نے کہا کہ جی ہاں۔ تو اُنہوں نے فرمایا، تو پھر چلو۔ لہٰذا ہم چل پڑے۔ ہم آپ کے ساتھ چلتے رہے حتّیٰ کہ اُنہوں نے جمرہ عقبہ کی رمی پوری کرلی۔ پھر وہ واپس آئیں اور صبح کی نماز اپنی قیام گاہ میں پڑھی۔ تو میں نے کہا کہ اماں جی، ہم نے اندھیرے میں کنکریاں مارلی ہیں اُنھوں نے فرمایا کہ ہرگز نہیں بیٹا، اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشین عورتوں کو (اس وقت) رمی کرنے کی اجازت دی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج طلوع ہونے سے پہلے صرف عورتوں کو رمی کرنے کی اجازت دی ہے، مردوں کو نہیں دی۔ جناب عبداللہ جو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں، ان سے امام عطاء بن ابی رباح نے بھی روایت کیا ہے۔ اس لئے ان سے جہالت عین دور ہوگئی ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري