ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کی صبح (10 ذوالحجہ کو) مجھے حُکم دیا: ”آؤ میرے لئے کنکریاں چن دو چھوٹی چھوٹی ہوں (جو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکی جاسکتی ہوں)۔ “ جب میں نے وہ آپ کے دست مبارک پر رکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی قسم کی کنکریاں لے لو بس ایسی ہی کنکریاں چن لو خبر دار دین کے کاموں میں غلو کرنے سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے۔“
حدثنا به بندار مرة اخرى بمثل هذا اللفظ، غير انه قال: حدثني زياد بن حصين، وثنا بندار، حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا عوف ، حدثنا زياد بن حصين ، حدثني ابو العالية ، قال: قال لي ابن عباس : قال عوف: لا ادري الفضل، او عبد الله بن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة العقبة: " القط لي حصيات" ، بمثله سواءحَدَّثَنَا بِهِ بُنْدَارٌ مَرَّةً أُخْرَى بِمِثْلِ هَذَا اللَّفْظِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ حَصِينٍ، وثنا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ حَصِينٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو الْعَالِيَةِ ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ : قَالَ عَوْفٌ: لا أَدْرِي الْفَضْلَ، أَوْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ الْعَقَبَةِ: " الْقُطْ لِي حَصَيَاتٍ" ، بِمِثْلِهِ سَوَاءً
جناب ابو العالیہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا جناب عوف کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ حضرت فضل یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عقبہ کی صبح حُکم دیا میرے لئے کنکریاں چن دو، مذکورہ بالا کی مثل روایت بیان کی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بھاری بھرکم خاتون تھیں۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزدلفہ سے رات ہی کے وقت لوٹنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں اجازت دے دی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اے کاش، میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لیتی جیسا کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لے لی تھی۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا امام کے ساتھ ہی مزدلفہ سے منیٰ واپس آتی تھیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے اُن کمزور افراد کے ساتھ شامل تھا جنہیں آپ نے مزدلفہ سے رات ہی کے وقت منیٰ بھیج دیا تھا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ اپنے خاندان کے کمزور افراد کو آگے بھیج دیتے تھے۔ وہ رات کے وقت ہی مشعر حرام کے پاس وقوف کرتے، جب تک چاہتے الله تعالی کا ذکر کرتے پھر منیٰ روانہ ہو جاتے۔ پھر ان میں سے کچھ صبح کی نماز کے وقت منیٰ پہنچ جاتے اور کچھ اس کے بعد پہنچتے، یہ سب لوگ ان کے خاندان کے کمزور اور ضعیف لوگ ہوتے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزوروں کو اس کی اجازت دی ہے۔
ثنا ثنا علي بن خشرم، ثنا عيسى، عن ابن جريج، اخبرني عبيد الله بن ابي يزيد، انه سمع ابن عباس ، يقول: " كنت فيمن قدم النبي صلى الله عليه وسلم في الثقل" ، ثنا محمد بن معمر، ثنا محمد بن بكر، اخبرنا ابن جريج، بمثله سواء، قال ابو بكر: اخبار ابن عباس كنت فيمن قدم النبي صلى الله عليه وسلم ليلة المزدلفة من جمع إلى منى بالليل، دالة على ان المامور بالتقاط الحصى غداة المزدلفة هو الفضل ابن عباس، لا عبد الله، واخبار الفضل انه كان رديف النبي صلى الله عليه وسلم من جمع إلى منى بالليل دالة على ان خبر مشاس، عن عطاء، عن ابن عباس، عن الفضل كنت فيمن قدم النبي صلى الله عليه وسلم وهم، لان المقدم مع الضعفة من جمع إلى منى هو عبد الله بن عباس، لا الفضلثنا ثنا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، ثنا عِيسَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: " كُنْتُ فِيمَنْ قَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الثَّقَلِ" ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، بِمِثْلِهِ سَوَاءً، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَخْبَارُ ابْنِ عَبَّاسٍ كُنْتُ فِيمَنْ قَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةَ مِنْ جَمْعٍ إِلَى مِنًى بِاللَّيْلِ، دَالَّةٌ عَلَى أَنَّ الْمَأْمُورَ بِالْتِقَاطِ الْحَصَى غَدَاةَ الْمُزْدَلِفَةِ هُوَ الْفَضْلُ ابْنُ عَبَّاسٍ، لا عَبْدُ اللَّهِ، وَأَخْبَارُ الْفَضْلِ أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَمْعٍ إِلَى مِنًى بِاللَّيْلِ دَالَّةٌ عَلَى أَنَّ خَبَرَ مُشَاسٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الْفَضْلِ كُنْتُ فِيمَنْ قَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهْمٌ، لأَنَّ الْمُقَدَّمَ مَعَ الضَّعَفَةِ مِنْ جَمْعٍ إِلَى مِنًى هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، لا الْفَضْلُ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اُن افراد میں شامل تھا جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان کے ساتھ منیٰ روانہ کردیا تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ احادیث کہ میں اُن افراد کے ساتھ تھا جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ کی رات ہی کو منیٰ روانہ کردیا تھا، یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ مزدلفہ کی صبح کو آپ نے کنکریاں چُننے کا حُکم سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو دیا تھا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نہیں۔ اور سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی یہ روایات کہ وہ مزدلفہ سے منیٰ جاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، اس بات کی دلیل ہیں کہ مشاس کی عطاء کے واسطے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے یہ روایت کہ سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اُن لوگوں کے ساتھ تھا جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے روانہ کر دیا تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے یہ روایت وہم ہے کیونکہ کمزور افراد کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ جانے والے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں سیدنا فضل رضی اللہ عنہ نہیں۔
والدليل على ان الرمي بالحصى الكبار من الغلو في الدين، وتخويف الهلاك بالغلو في الدين وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الرَّمْيَ بِالْحَصَى الْكِبَارِ مِنَ الْغُلُوِّ فِي الدِّينِ، وَتَخْوِيفِ الْهَلَاكِ بِالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفه سے روانہ ہوئے، پھر جب وادی محشر کے درمیان پہنچے تو فرمایا: ”اے لوگو، تم پر چھوٹی کنکریاں مارنا لازمی ہے، اور آپ ہاتھ سے اشارہ کر کے بتارہے تھے جیسے آدمی دو انگلیوں میں کنکری رکھ کر پھینکتا ہے۔
سیدنا حرملہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا۔ جب ہم نے عرفات میں وقوف کیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے ایک انگلی پر دوسری انگلی رکھی ہوئی تھی۔ تو میں نے اپنے چچا سے کہا کہ اے چچا جی، آپ کیا فرما رہے ہیں؟ اُنھوں نے کہا کہ آپ فرمارہے ہیں: ”جمرات کو خازف کنکریاں مارو (جو چنے کے دانے کے برابر ہوں) امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا حرملہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے چچا کا نام جناب وہیب نے سنان بن سنتہ بیان کیا ہے۔