ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
جناب جعفر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور میں نے کہا آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں بتایئے؟ اُنہوں نے حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ قصواء اونٹنی پر سوار ہوکر عرفات تشریف لائے اور اپنی اونٹنی کا پیٹ (رخ) پہاڑی جبل رحمت کی چٹانوں کی طرف کردیا اور لوگوں کے چلنے کے ریتلے راستے کو اپنے سامنے رہنے دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رُخ ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم شام تک ثھہرے رہے یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا اور زردی کم ہوگئی اور سورج کی ٹکیہ پوری طرح ڈوب گئی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرفہ کے دن کے سوا کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ اتنی کثرت سے بندوں کو جہنّم کی آگ سے نجات عطا فرمائے۔ اس روز اللہ اپنے بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے اور پھر فرشتوں کے ساتھ (ان حجاج کی وجہ سے) فخر کا اظہار کرتا ہے۔ اور فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔
سیدہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عرفہ والے دن ان کے پاس کچھ صحابہ کرام کا اختلاف ہوگیا کہ کیا رسول اللہ وسلم نے روزہ رکھا ہوا ہے یا نہیں؟ کچھ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ ہے اور کچھ کہنے لگے کہ آپ نے روزہ نہیں رکھا، پس سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا نے آپ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا جبکہ آپ اپنی اونٹنی پر تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پی لیا، آپ اس دن میدان عرفات میں تھے۔
حضرت سعید بن جبیر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ہم عرفات میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھے، تو اُنھوں نے مجھ سے کہا کہ اے سعید، کیا وجہ ہے کہ مجھے لوگوں کے تلبیہ پکارنے کی آواز نہیں آرہی؟ میں نے عرض کیا، وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈرتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اپنے خیمے سے نکلے اور کہنے لگے «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ» ”اے اللہ، میں حاضر ہوں، اے اللہ، میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔“ ان لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دشمنی کی وجہ سے تلبیہ کی سنّت کو چھوڑ دیا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث کہ آپ جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک مسلسل تلبیہ کہتے رہے تھے، اس بات کی دلیل ہے کہ آپ میدان عرفات میں تلبیہ پکارتے تھے۔
1995. وقوف عرفات میں تلبیہ پکارتے وقت ان الفاظ کا اضافہ کرنا درست ہے «اِنّ الْخَيْرَ خَيْرُالْآخِيْرَةِ» ”بیشک اصل خیر و بھلائی تو آخرت کی خیر و بھلائی ہے“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں ٹھہرے (وقوف کیا)، تو جب تلبیہ کے یہ الفاظ کہے: ” «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ» تو یہ الفاظ بھی پڑھے: «إِنَّمَاالْخَيْرُخَيْرُالْآخِرَةِ» یقیناً خیر و بھلائی تو آخرت کی خیر و بھلائی ہے۔“
حدثنا نصر بن مرزوق ، حدثنا اسد بن موسى ، حدثنا إسرائيل . ح وحدثنا محمد بن رافع ، عن يحيى بن آدم ، حدثني إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، عن الفضل بن عباس قال ابن رافع قال: اخبرني الفضل قال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم حين افاض من المزدلفة، واعرابي يسايره وردفه ابنة له حسناء، قال الفضل: فجعلت انظر إليها، فتناول رسول الله صلى الله عليه وسلم وجهي يصرفني عنها، فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة العقبة" ، وقال ابن رافع: يسايره او يسائله، قال ابو بكر: وروى سكين بن عبد العزيز البصري، وانا برئ من عهدته وعهدة ابيه، قال ابي، سمعته يقول: حدثني ابن عباس، عن الفضل بن عباس انه كان رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة، فجعل الفضل يلاحظ النساء، وينظر إليهن، وجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصرف وجهه بيده من خلفه، وجعل الفتى يلاحظ إليهن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابن اخي، إن هذا يوم من ملك فيه سمعه، وبصره، ولسانه غفر له".حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ ، حَدَّثَنِي إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ ابْنُ رَافِعٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي الْفَضْلُ قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَفَاضَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ، وَأَعْرَابِيٌّ يُسَايِرُهُ وَرِدْفُهُ ابْنَةٌ لَهُ حَسْنَاءُ، قَالَ الْفَضْلُ: فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهَا، فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجْهِي يَصْرِفُنِي عَنْهَا، فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ" ، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: يُسَايِرُهُ أَوْ يُسَائِلُهُ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَرَوَى سُكَيْنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَصْرِيُّ، وَأَنَا بَرِئٌ مِنْ عُهْدَتِهِ وَعُهْدَةِ أَبِيهِ، قَالَ أَبِي، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يُلاحِظُ النِّسَاءَ، وَيَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ، وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَهُ بِيَدِهِ مِنْ خَلْفِهِ، وَجَعَلَ الْفَتَى يُلاحِظُ إِلَيْهِنَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا ابْنَ أَخِي، إِنَّ هَذَا يَوْمٌ مَنْ مَلَكَ فِيهِ سَمْعَهُ، وَبَصَرَهُ، وَلِسَانَهُ غُفِرَ لَهُ".
حضرت ابن رافع بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے (منیٰ کی طرف) روانہ ہوئے تو میں آپ کے پیچھے اونٹنی پر سوار تھا۔ ایک اعرابی آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور آپ سے مسائل پوچھ رہا تھا۔ اُس کے پیچھے اُس کی خوبصورت بیٹی سوار تھی۔ سیدنا فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُس لڑکی کی طرف دیکھنا شروع کردیا تو رسول اللہ نے مجھے چہرے سے پکڑ کر دوسری طرف گھما دیا۔ پھر آپ جمرہ عقبہ کو رمی کرنے تک مسلسل لبیک پکارتے رہے۔ جناب ابن رافع کی روایت میں ہے کہ وہ اعرابی آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا یا آپ سے سوال پوچھ رہا تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سکین بن عبدالعزيز بصری سے مروی ہے جبکہ میں اس کی اور اس کے باپ کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما عرفہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے تو سیدنا فضل رضی اللہ عنہ نے عورتوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے اپنے پیچھے سے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے لیکن سیدنا فضل رضی اللہ عنہ (دوسری طرف) عورتوں کو دیکھنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے میرے بھتیجے، بیشک جو شخص آج کے دن اپنے کانوں آنکھوں اور زبان کی حفاظت کرے اُس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ عرفات والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے تو اس نوجوان نے عورتوں کو دیکھنا شروع کردیا۔ پھر اوپر والی روایت کی مثل بیان کیا صرف یہ فرق ہے۔ آپ نے اُس کا چہرہ دوسری طرف کردیا، لیکن ”اے میرے بھتیجے“ کے الفاظ بیان نہیں کیے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج میں ایک اعلان کرنے والے کوحُکم دیا تو اُس نے زوال کے وقت اعلان کیا کہ غسل کرلو۔ پھر بقیہ حدیث بیان کی اور فرمایا، پھر جب یوم الترویہ (8 ذوالحجہ کا دن) آیا آپ نے اپنے منادی کو حُکم دیا تو اُس نے یہ اعلان کیا کہ حج کا احرام باندھ کر تلبیہ پکارو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا کہ اونٹوں کو عرفات اور حج کے تمام مناسک کی ادائیگی کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔