ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم چاشت کے وقت مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام کے دروازے پر آئے اور اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر مسجد حرام میں داخل ہوئے، آپ نے حجر اسود سے ابتداء کی، اس کا استلام کیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے پھر بقیہ حدیث بیان کی۔ اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کے تین چکّروں میں دلکی چال چلی اور چار چکّر عام رفتار سے لگائے، جب آپ طواف سے فارغ ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو بوسہ دیا، اپنے دونوں ہاتھ اس پر رکھے اور پھر انہیں اپنے چہرے مبارک پر ملا۔“
جناب جعفر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے محمد بن عباد بن جعفر کو دیکھا، اُنہوں نے حجراسود کو بوسہ دیا اور اس پر سجده کیا، پھر اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے تمہارے ماموں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا تھا اُنہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیکر اس پر سجدہ کیا تھا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ اُنہوں نے حجراسود کو بوسہ دیا اور اس پر سجدہ کیا، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے ہوئے دیکھا ہے، لہٰذا میں نے بھی ایسے کیا ہے۔
امام نافع رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ اُنہوں نے اپنے ہاتھ کے ساتھ حجراسود کو چھوا اور اپنے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ اور فرمایا کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کام کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے نہیں چھوڑا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی حج یا عمرے میں ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس جب آپ کو لیکر سیدھی ہو جاتی تو آپ ان الفاظ میں تلبیہ پکارتے «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ والنِّعْمَة لَكَ والمُلْكُ، لَا شَرِيكَ لَكَ» ”اے اللہ، میں حاضر ہوں، میں تیری بندگی پر کاربند ہوں، میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک سب تعریفیں تیرے ہی لائق ہیں اور ہر نعمت تیری ہی عطا کی ہوئی ہے، اور بادشاہی بھی تیری ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ شریف پہنچنے تک اسی طرح تلبیہ کہتے رہتے حتّیٰ کہ آپ حجر اسود کے سامنے آتے تو «اللهُ أَكْـبَر» کہہ کر حجراسود کی طرف مُنہ کرتے (اسے بوسہ دیتے یا استلام کرتے) پھر (طواف کے) تین چکّر اچھل اچھل کر لگاتے اور چار چکّر عام رفتار سے چل کر لگاتے، پھر دو رکعت ادا کرتے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرا سود سے لیکر حجراسود تک رمل کیا۔ (دلکی چال چلے) جناب علی بن خشرم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ”تین چکّروں میں رمل کیا اور چار چکّروں میں عام چال چلے۔“
حضرت ابوطفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ آپ کی قوم کا یہ خیال ہے کہ بیت اللہ کے طواف کے تین چکّروں میں رمل کرنا اور چار چکّروں میں عام رفتار سے چلنا سنّت ہے تو اُنہوں نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا ہے اور ان کی کچھ بات غلط ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ تشریف لائے، جب اہل مکّہ نے آپ کی تشریف آوری کا سنا تو کہنے لگے کہ دیکھو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھی کمزوری کی وجہ سے بیت اللہ کا طواف بھی نہیں کر سکیں گے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اپنی قوت و طاقت دکھاو جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قریش کے لوگ کہنے لگے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ کے صحابہ کو یثرب کے بخار نے بالکل کمزور کردیا ہے۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معاہدے والے سال مکّہ مکرّمہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ” بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے پہلے تین چکّروں میں اُچھل اُچھل کر چلو تاکہ مشرک تمہاری قوت و طاقت دیکھ لیں۔ “ لہذا جب صحابہ کرام نے رمل کیا تو قریشی کہنے لگے کہ انہیں بخار نے ذرا بھی کمزور نہیں کیا۔
سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رکن بنی جمح (رکن یمانی) اور حجراسود کے درمیان یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا «رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وّفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وّقِنَا عَذَابَ النَّارِ» ”اے ہمارے پروردگار، ہمیں دنیا اور آخرت میں بھی خیر و بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔“ جناب دورقی کی روایت میں ہے کہ آپ یہ دعا رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان پڑھتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ جب آپ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو آپ اپنے ہاتھ میں پڑی ہوئی ایک چیز (لاٹھی) سے اشارہ کرتے اور «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے۔