سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرمہ عورت نقاب نہ کرے اور نہ دستانے پہنے۔“(یہ روایت جناب علی بن حسین درہمی کی ہے)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بلند آواز سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، محرم کون کون سے کپڑے نہ پہنے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم شلواریں، قمیص، ٹوپی والے کوٹ، پگڑیاں اور زعفران اور ورس بوٹی سے رنگے ہوئے کپڑے مت پہنو۔ بلکہ تم میں سے کوئی شخص احرام باندھے تو تہہ بند، چادر اور جوتے پہن لے۔ اور اگر اسے جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور ان کو (اوپر سے کاٹ لے) حتّیٰ کہ وہ ٹخنوں سے نیچے آجائیں۔“
1821. بیمار شخص یہ شرط لگا سکتا ہے کہ جہاں اسے (بیماری وغیرہ کی وجہ سے) روک دیا گیا وہ وہیں اپنا احرام کھول دیگا جن علماء نے اسے مکروہ گردانا ہے ان کا موقف درست نہیں
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ضباعہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے گزرے جب کہ وہ بیمار تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم حج کرنا چاہتی ہو؟“ انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم حج کرلو اور یہ شرط لگالو، تم (نیت کے وقت یہ الفاظ) کہہ لینا کہ اے اللہ، تُو مجھے جہاں روک لیگا میں وہیں احرام کھول دوںگی۔ (احرام کی پابندیوں سے حلال ہو جاؤںگی)۔“ یہ جناب عبدالجبار کی حدیث کے الفاظ میں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منوّرہ میں نو سال تک قیام پذیر رہے اور آپ نے حج نہیں کیا۔ پھر حج کا اعلان کر دیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سال حج کریںگے۔ لہٰذا مدینہ منوّرہ میں بیشمار لوگ آگئے۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے حج ادا کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منوّرہ سے روانہ ہوئے اور ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس پہنچ گئے، آپ نے اس مسجد میں نماز ادا کی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے لئے نکل پڑے اور آپ کے ساتھ بیشمار لوگ تھے۔ کچھ پیدل اور کچھ اپنی سواریوں پر سوار تھے۔ ہر شخص چاہتا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرے۔ حتّیٰ کہ جب آپ بیداء مقام پر چڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ کہنا شروع کیا۔ اور ہم نے صرف حج کی نیت کی ہوئی تھی۔ ہمیں عمرے کا علم ہی نہ تھا (حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا ہم جائز ہی نہ سمجھتے تھے۔) میں نے اپنے دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے دیکھا تو جہاں تک نظر گئی وہاں تک لوگ ہی لوگ تھے۔ کچھ پیدل اور کچھ سوار تھے۔ ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں حج کرے۔
والبيان ان كل هذا جائز طلق مباح، والمرء مخير بين القران والإفراد وبين التمتع، يهل بما شاء من ذلك وَالْبَيَانُ أَنَّ كُلَّ هَذَا جَائِزٌ طَلْقٌ مُبَاحٌ، وَالْمَرْءُ مُخَيَّرٌ بَيْنَ الْقِرَانِ وَالْإِفْرَادِ وَبَيْنَ التَّمَتُّعِ، يُهِلُّ بِمَا شَاءَ مِنْ ذَلِكَ
یہ تینوں اقسام جائز ہیں اور حاجی کو اختیار ہے کہ وہ حج قران، حج افراد یا حج تمتع میں سے جس حج کا چاہے احرام باندھ لے اور تلبیہ پڑھے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم ذوالحجہ کا چاند نکلنے کے قریب قریب (حج کے لئے) نکلے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صرف حج کا احرام باندھنا چاہے وہ صرف حج کا احرام باندھ لے (اور حج افراد کی نیت کرلے) اور جو شخص صرف عمرے کا احرام باندھنا چاہے تو وہ عمرے کا احرام باندھ لے۔“ چنانچہ ہم میں سے کچھ لوگوں نے حج کا احرام باندھا اور کچھ نے عمرے کا احرام باندھا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے کچھ صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا۔ اور کچھ صحابہ نے حج اور عمرے کا احرام باندھا اور کچھ نے صرف عمرے کا احرام باندھا۔ حضرت عبدالجبار کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اور کچھ صحابہ نے بھی حج کا احرام باندھا۔ اور ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھی جنہوں نے حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھا تھا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالجحہ کی چار یا پانچ تاریخ کو (مکّہ آئے) آپ میرے پاس تشریف لائے تو آپ سخت غصّے میں تھے۔ تو میں نے عرض کیا کہ آپ کو کس نے اس قدر غصّہ دلایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں پتہ نہیں چلا کہ میں نے لوگوں کو ایک حُکم دیا ہے اور وہ اس کی تعمیل میں تردد کر رہے ہیں۔“ جناب حکم کی روایت میں ہے کہ ”وہ تردد کر رہے ہیں، اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوتا تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ (مدینہ منوّرہ سے) نہ لاتا اور مکّہ مکرّمہ سے خرید لیتا۔ پھر میں بھی (صرف عمرہ کرکے) احرام کھول دیتا جیسا کہ ان صحابہ سے کھولا ہے۔“
إذ سائق الهدي المهل بالعمرة، غير جائز له الإحلال منها قبل مبلغ الهدي محله إِذْ سَائِقٌ الْهَدْيَ الْمُهِلُّ بِالْعُمْرَةِ، غَيْرُ جَائِزٍ لَهُ الْإِحْلَالُ مِنْهَا قَبْلَ مَبْلَغِ الْهَدْيِ مَحِلَّهُ
تاکہ یہ حج قران کرنے والا بن جائے کیونکہ جس شخص نے عمرے کا احرام باندھا ہواور قربانی کا جانور بھی اس کے ساتھ ہو تو اس کے لئے (عمرہ ادا کرنے کے بعد) اس وقت تک احرام کھولنا جائز نہیں جب تک قربانی اپنی قربان گاہ میں (10ذوالحجہ) کو نہ پہنچ جائے۔