۔ اسماعیل بن مسلم اور عمربن سعید نے سعید بن مسروق سے، انھوں نے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج سے، انھوں نے اپنے دادا حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کل ہم دشمن کا سامنا کریں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، کیا ہم بانس کے چھلکے (یا تیز دھار کھپچی) سے ذبح کر سکتے ہیں؟اور سارے واقعے سمیت حدیث بیان کی اور کہا: ایک اونٹ ہم سے بدک کر بھا گ نکلا تو ہم نے اس پر تیر چلا ئے یہاں تک کہ اس کو گرا لیا۔
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ہمارا کل دشمن سے مقابلہ ہونے والا ہے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، کیا ہم بانس کی پھانک سے ذبح کر سکتے ہیں، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، اس میں ہے، ہم سے ایک اونٹ بھاگ گیا، تو ہم اس کو تیر مارا حتیٰ کہ ہم نے اس کو زمین پر گرا لیا۔
زائدہ نے سعید بن مسروق سے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث آخر تک پوری بیان کی اور اس میں کہا (ہم نے عرض کی:) ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں تو کیا ہم بانسوں (کی کچھیوں) سے جانور ذبح کرلیں۔
امام صاحب ایک اور سند سے یہ حدیث مکمل طور پر بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ بھی ہے، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، کیا ہم بانس سے ذبح کر لیں؟
زائد ہ نے سعید بن مسروق سے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث آخر تک پو ری بیان کی اور اس میں کہا: (ہم نے عرض کی،) ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں تو کیا ہم بانسوں (کی کھپچیوں) سے جا نور ذبح کر لیں۔شعبہ نے سعید بن مسروق سے انھوں نے عبایہ رفاعہ بن را فع سے انھوں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے کہا (ہم نے عرض کی:) اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کل ہم دشمن سے مقابلہ کرنے والے ہیں اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں پھر حدیث بیان کی، البتہ اس میں یہ نہیں کہا: "لوگوں نے جلدبازی کی اور ان کے گو شت سے ہانڈیا ں ابالنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں حکم دیا تو انھیں الٹ دیا گیا۔اور انھوں نے باقی سارا قصہ بیان کیا۔
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم کل دشمن سے ٹکرانے والے ہیں اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، آگے مذکورہ بالا حدیث بیان کی، لیکن اس میں یہ نہیں ہے، لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا اور ان سے ہانڈیوں کو جوش دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کو الٹ دیا گیا، باقی قصہ پورا بیان کیا۔
5. باب: ابتدائے اسلام میں، تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے ممانعت اور اس کے منسوخ ہونے اور زائد از تین دن کھانے کی حلت کا بیان۔
Chapter: The prohibition of eating sacrificial meat for more than three days, which applied at the beginning of Islam but was then abrogated, and now it is permissible to eat it as long as one wants.
سفیان نے کہا: ہمیں زہری نے ابو عبید سے روایت کی کہا: میں عید کے مو قع پر حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ عنہ کے ساتھ انھوں نے خطبے سے پہلے نماز پڑھا ئی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمے اس بات سے منع فر مایا تھا کہ ہم تین دن (گزرجانے) کے بعد اپنی قربانیوں کا گوشت کھا ئیں۔
ابوعبید بیان کرتے ہیں، میں نے عید میں حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھ شرکت کی، تو انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی اور فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا۔"
حدثني حرملة بن يحيي ، اخبرنا ابن وهب ، حدثني يونس ، عن ابن شهاب ، حدثني ابو عبيد مولى ابن ازهر، انه شهد العيد مع عمر بن الخطاب، قال: ثم صليت مع علي بن ابي طالب ، قال: فصلى لنا قبل الخطبة ثم خطب الناس، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم " قد نهاكم ان تاكلوا لحوم نسككم فوق ثلاث ليال فلا تاكلوا ".حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، أَنَّهُ شَهِدَ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ: فَصَلَّى لَنَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَدْ نَهَاكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا لُحُومَ نُسُكِكُمْ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ فَلَا تَأْكُلُوا ".
یو نس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے ابن ازہر کے مو لیٰ ابو عبید نے حدیث بیان کی کہ انھوں نے حضرت عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید پڑھی کہا: اس کے بعد میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبے سے پہلے ہمیں نماز پڑھائی پھر لو گوں کو خطبہ دیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو تین راتوں سے زیادہ اپنی قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے اس لیے (تین راتوں کے بعد یہ گو شت) نہ کھا ؤ۔ان تین دنوں میں کھا کر اور تقسیم کر کے ختم کر دو۔)
ابن ازہر کے آزاد کردہ غلام ابوعبید بیان کرتے ہیں، میں عید میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حاضر ہوا، پھر میں نے حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھ پڑھی، انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی، پھر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین راتوں سے زائد کھاؤ، اس لیے مت کھاؤ۔“
لیث نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: " تم میں سے کوئی شخص اپنی قربانی کے گو شت میں سے تین دن کے بعد (کچھ) نہ کھائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی ایک بھی اپنی قربانی کے گوشت تین دن سے زائد نہ کھائے۔“
ابن ابی عمر اور عبد بن حمید نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: عبد الرزاق نے کہا: معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی، انھوں نے سالم سے انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس بات سے) منع کیا کہ تین دن کے بعد قربانی کا گو شت کھا یا جا ئے۔سالم نے کہا: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ تین دن سے اوپر قربانی کا گوشت نہیں کھا تے تھے اور ابن ابی عمر نے (تین دن سے اوپر کے بجائے) "تین کے بعد " کے الفا ظ کہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا ہے، حضرت سالم (ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ قربانیوں کا گوشت تین دن سے زائد نہیں کھاتے تھے، ابن ابی عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت میں "فوق ثلاث" کی بجائے "بعد ثلاث" ہے۔
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، اخبرنا روح ، حدثنا مالك ، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن عبد الله بن واقد ، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اكل لحوم الضحايا بعد ثلاث، قال عبد الله بن ابي بكر : فذكرت ذلك لعمرة ، فقالت: صدق, سمعت عائشة ، تقول: دف اهل ابيات من اهل البادية حضرة الاضحى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ادخروا ثلاثا ثم تصدقوا بما بقي "، فلما كان بعد ذلك، قالوا: يا رسول الله، إن الناس يتخذون الاسقية من ضحاياهم ويجملون منها الودك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وما ذاك؟ "، قالوا: نهيت ان تؤكل لحوم الضحايا بعد ثلاث، فقال: " إنما نهيتكم من اجل الدافة التي دفت فكلوا وادخروا وتصدقوا ".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ : فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمْرَةَ ، فَقَالَتْ: صَدَقَ, سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الْأَضْحَى زَمَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ادَّخِرُوا ثَلَاثًا ثُمَّ تَصَدَّقُوا بِمَا بَقِيَ "، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ يَتَّخِذُونَ الْأَسْقِيَةَ مِنْ ضَحَايَاهُمْ وَيَجْمُلُونَ مِنْهَا الْوَدَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَمَا ذَاكَ؟ "، قَالُوا: نَهَيْتَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ، فَقَالَ: " إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا ".
عبد اللہ بن ابی بکر نے حضرت عبد اللہ بن واقد رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین (دن رات) کے بعد قربانیوں کے گو شت کھا نے سے منع فرمایا۔عبد اللہ بن ابی بکر نے کہا: میں نے یہ بات عمرہ (بنت عبد الرحمان بن سعد انصار یہ) کو بتا ئی عمرہ نے کہا: انھوں نے سچ کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بادیہ کے کچھ گھرانے (بھوک اور کمزوری کے سبب) آہستہ آہستہ چلتے ہو ئے جہاں لو گ قربانیوں کے لیے مو جو د تھے (قربان گا ہ میں) آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تین دن تک کے لیے گو شت رکھ لو۔ جو باقی بچے (سب کا سب) صدقہ کر دو۔"دوبارہ جب اس (قربانی) کا مو قع آیا تو لو گوں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !لو گ تو اپنی قربانی (کی کھا لوں) سے مشکیں بنا تے ہی اور اس کی چربی پگھلا کر ان میں سنبھال رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا مطلب؟" انھوں نے کہا: یہ (صورتحال ہم اس لیے بتا رہے ہیں کہ) آپ نے منع فرما یا تھا کہ تین دن کے بعد قربانی کا گو شت (وغیرہ استعمال نہ کیا جا ئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں نے تو تمھیں ان خانہ بدوشوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت بمشکل آپا ئے تھے۔اب (قربانی کا گو شت) کھا ؤ رکھو اور صدقہ کرو۔"
عبداللہ بن واقد نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا، (ابن واقد کے شاگرد) عبداللہ بن ابی بکر کہتے ہیں، میں نے اس حدیث کا تذکرہ حضرت عمرہ سے کیا، تو اس نے کہا، اس نے سچ کہا، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بیان کرتے سنا، عید الاضحیٰ کے دن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کچھ بادیہ نشین گھرانے آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دن کے لیے ذخیرہ کر لو اور باقی صدقہ کر دو“ جب اس کے بعد عید آئی، صحابہ کرام نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! لوگ اپنی قربانیوں سے مشکیزے بناتے ہیں اور ان سے چربی پگھلاتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر کیا ہوا؟“ انہوں نے عرض کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع کر دیا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تو بس آنے والے جماعت کی آمد کی خاطر منع کیا تھا، کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ بھی کرو۔“