حدثنا حدثنا ابو هاشم زياد بن ايوب ، حدثنا محمد بن يزيد بن هارون ، قال: حدثنا محمد بن إسحاق ، عن العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: يقول الله عز وجل: " استقرضت عبدي فلم يقرضني، وشتمني عبدي، وهو لا يدري يقول: وادهراه وادهراه، وانا الدهر" ، قال ابو بكر: قوله: وانا الدهر، اي وانا آتي بالدهر اقلب ليله ونهاره، اي بالرخاء والشدة، كيف شئت إذ بعض اهل الكفر زعم ان الدهر يهلكهم، قال الله عز وجل حكاية عنهم: وما يهلكنا إلا الدهر سورة الجاثية آية 24، فاعلم انه لا علم لهم بذلك، وان مقالتهم تلك ظن منهم، قال الله عز وجل: وما لهم بذلك من علم إن هم إلا يظنون سورة الجاثية آية 24، واخبر النبي صلى الله عليه وسلم إن شاتم من يهلكهم هو شاتم ربه جل وعز، لانهم كانوا يزعمون ان الدهر يهلكهم فيشتمون مهلكهم، والله يهلكهم لا الدهر، فكل كافر يشتم مهلكه، فإنما تقع الشتيمة منهم عن خالقهم الذي يهلكهم، لا على الدهر الذي لا فعل له، إذ الله خالق الدهرحَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ هَارُونَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ الْعَلاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " اسْتَقْرَضْتُ عَبْدِي فَلَمْ يُقْرِضْنِي، وَشَتَمَنِي عَبْدِي، وَهُوَ لا يَدْرِي يَقُولُ: وَادَهْرَاهُ وَادَهْرَاهُ، وَأَنَا الدَّهْرُ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْلُهُ: وَأَنَا الدَّهْرُ، أَيْ وَأَنَا آتِي بِالدَّهْرِ أُقَلِّبُ لَيْلَهُ وَنَهَارَهُ، أَيْ بِالرَّخَاءِ وَالشِّدَّةِ، كَيْفَ شِئْتُ إِذْ بَعْضُ أَهْلِ الْكُفْرِ زَعَمَ أَنَّ الدَّهْرَ يُهْلِكُهُمْ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حِكَايَةً عَنْهُمْ: وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ سورة الجاثية آية 24، فَأَعْلَمَ أَنَّهُ لا عِلْمَ لَهُمْ بِذَلِكَ، وَأَنَّ مَقَالَتَهُمْ تِلْكَ ظَنٌّ مِنْهُمْ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ سورة الجاثية آية 24، وَأَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ شَاتِمَ مَنْ يُهْلِكُهُمْ هُوَ شَاتِمٌ رَبَّهُ جَلَّ وَعَزَّ، لأَنَّهُمْ كَانُوا يَزْعُمُونَ أَنَّ الدَّهْرَ يُهْلِكُهُمْ فَيَشْتُمُونَ مُهْلِكَهُمْ، وَاللَّهُ يُهْلِكُهُمْ لا الدَّهْرُ، فَكُلُّ كَافِرٍ يَشْتِمُ مُهْلِكَهُ، فَإِنَّمَا تَقَعُ الشَّتِيمَةُ مِنْهُمْ عَنْ خَالِقِهِمُ الَّذِي يُهْلِكُهُمْ، لا عَلَى الدَّهْرِ الَّذِي لا فِعْلَ لَهُ، إِذِ اللَّهُ خَالِقُ الدَّهْرَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندے سے قرض مانگا تو اُس نے مجھے قرض نہیں دیا۔ اور میرے بندے نے مجھے گالی دی جبکہ وہ جانتا نہیں، کہتا ہے ہائے زمانے کی بربادی۔ ہائے زمانے کی ہلاکت۔ حالانکہ زمانہ میں ہوں۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ”میں زمانہ ہوں“ کا مطلب ہے کہ میں ہی زمانے کے دن رات تبدیل کرتا ہوں کبھی خوشحالی تو کبھی تنگدستی پیدا کرتا ہوں جیسا میں چاہتا ہوں۔ جبکہ بعض کافروں کا عقیدہ ہے کہ انہیں زمانہ ہلاک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کا قول بیان کرتے ہوئے فرمایا (وہ کہتے ہیں) کہ ”اور ہمیں تو صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں اور ان کا قول فقط ان کا خیال و گمان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، ”اور انہیں اس بات کا کچھ علم نہیں، وہ تو بس اٹکل پچکو لگاتے ہیں۔“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے کہ ان کا زمانہ کو گالیاں دینا اللہ تعالیٰ کا گالی دینا ہے کیونکہ وہ گمان رکھتے ہیں کہ انہیں زمانہ ہلاک کرتا ہے پس ہلاک کرنے والے کو گالی دیتے ہیں حالانکہ انہیں ہلاک وبرباد کرنے والی ذات اللہ کی ہے، زمانہ نہیں لہٰذا ہر کافر جو اپنے ہلاک کرنے والے کو گالی دیتا ہے تو اس کی گالی اس کے مالک کو جاتی ہے جس نے انہیں ہلاک کیا ہے۔ ان کی گالی زمانے کو نہیں ملتی کیونکہ انہیں ہلاک کرنے میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں کیونکہ زمانے کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے مال سے دو چیزیں (جوڑا) اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اس کو جنّت کے فرشتے (دروازوں پر) بلائیںگے۔ اور جنّت کے کئی دروازے ہیں لہٰذا جو نمازی ہوگا اسے باب الصلاة سے بلایا جائیگا۔ اور جو صدقہ اور زکوٰۃ ادا کرنے والا ہوگا اسے باب الصدقة سے بلایا جائیگا۔ اور جو جہاد کرتا رہا ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائیگا۔ اور جو روزے دار ہو اسے باب الريان سے بلایا جائیگا۔“ تو سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا کہ اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اگر کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی ایک دروازے میں سے بھی بلایا جاۓ تو کوئی حرج نہیں لیکن کیا کوئی ایسا بھی خوش نصیب ہوگا جو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ایسے خوش نصیب ہوںگے اور مجھے امید ہے کہ تم بھی ان میں شامل ہوگے۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جمعہ والے دن ایک شخص بڑی خستہ حالت میں آیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس پر صدقہ کرنے کا حُکم دیا تو لوگوں نے اپنے کچھ کپڑے صدقے کے لئے رکھ دیئے آپ نے اسے دو کپڑے دینے کا حُکم دیا اور آپ نے اُسے حُکم دیا تو اُس نے دو رکعت ادا کیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ پھر بقیہ حدیث بیان کی۔ میں نے یہ حدیث کتاب الجمعہ میں بیان کردی ہے۔
جناب سفی اصجی بیان کرتے ہیں کہ وہ مدینہ منوّرہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص کے پاس کافی لوگ جمع ہیں۔ تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ لہٰذا میں اُن کے قریب جاکر اُن کے سامنے بیٹھ گیا، جبکہ وہ لوگوں کو حدیث بیان کر رہے تھے۔ پھر جب خاموش ہوئے اور اکیلے رہ گئے تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم اور اس کے حق کا واسطہ دیکر گذارش کرتا ہوں کہ آپ مجھے وہ حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد رکھی ہو اور آپ اسے بخوبی جانتے ہوں۔ توسیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایسی ہی حدیث سناوَں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اور یاد رکھی ہے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سسکیاں لیکر رونے لگے اور بیہوش ہو گئے پھر تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو فرمانے لگے، میں تمہیں ضرور ایسی حدیث سناؤں گا جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھی جبکہ میں اور آپ اس گھر میں اکیلے موجود تھے۔ پھر دوسری بار سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سسکیاں لیکر رونا شروع کردیا اور بیہوش ہو گئے۔ پھر ہوش میں آئے اور اپنے چہرے کو صاف کیا۔ پھر فرمایا کہ میں تمہیں حدیث سناتا ہوں، میں ضرور تمہیں ایسی حدیث سناؤں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس وقت سنائی تھی جب میں اور آپ اس گھر میں اکیلے ہی تھے ہمارے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ شدید سسکیاں لیکر رونے لگے پھر بیہوش ہو کر مُنہ کے بل گرگئے اور میں دیر تک آپ کو سہارا دیکر بیٹھا رہا۔ پھر جب ہوش میں آئے تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا: ”جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ مخلوق کے درمیان فیصلے کے لئے تشریف لائیگا۔ جبکہ ہر اُمّت گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوگی۔ سب سے پہلے قاری قرآن کو بلایا جائیگا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کو جو شہید ہوا تھا اور دولت مند شخص کو بلایا جائیگا الله تعالی قاری سے فرمائے گا، کیا میں نے تمھیں وہ کتاب نہیں سکھائی تھی جو میں نے اپنے رسول پر نازل کی تھی؟ وہ کہے گا کہ کیوں نہیں اے میرے رب، تو اللہ تعالی فرمائے گا تو تم نے علم حاصل کرنے کے بعد کیا عمل کیا؟ وہ جواب دیگا کہ میں دن رات نماز میں اس کی تلاوت کرتا تھا تو اللہ تعالی فرمائے گا تم نے جھوٹ بولا ہے۔ اور فرشتے بھی کہیں گے تم نے جھوٹ کہا ہے۔ اور اللہ تعالی فرمائے گا، بلکہ تم تو یہ چاہتے تھے کہ کہا جائے، فلاں بہت بڑا قاری ہے۔ تو یہ بات تو (دنیا میں) کہہ دی گئی تھی۔ اور مالدار شخص کو لایا جائیگا تو اللہ تعالی فرمائے گا، کیا میں نے تمھیں اتنا مال و دولت عطا نہیں کیا تھا کہ تم کسی شخص کے محتاج نہیں رہے تھے؟ وہ جواب دیگا کہ ضرور ایسا ہوا تھا۔ الله تعالی فرمائے گا تو تم نے میرے عطا کیے ہوئے مال میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں اس مال سے صلہ رحمی کرتا تھا اور صدقہ و خیرات کرتا تھا۔ تو اللہ تعالی اور اس کے فرشتے کہیں گے، تم نے جھوٹ بولا ہے اللہ تعالی فرمائے گا، بلکہ تمھارا ارادہ تو یہ تھا کہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص بڑا سخی ہے تو وہ کہہ دیا گیا تھا۔ پھر اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے مجاہد کو لایا جائیگا تو اس سے پوچھا جائیگا کہ تم نے کس مقصد کے لئے جان دی؟ تو وہ کہے گا کہ اللہ تُو نے اپنے راستے میں جہاد کرنے کا حُکم دیا تھا تو میں نے جنگ لڑی تھی کہ میں قتل ہوگیا تو اللہ تعالی فرمائے گا، تم نے جھوٹ بولا ہے۔ اور فرشتے بھی کہیں گے تم جھوٹے ہو اور اللہ تعالی فرمائے گا، بلکہ تمھارا ارادہ تو یہ تھا کہ کہا جائے، فلاں شخص بڑا بہادر ہے تو دنیا میں یہ کہہ دیا گیا تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھٹنے پر ہاتھ مارکر فرمایا کہ اے ابو ہریرہ، یہ تین افراد وہ پہلے اللہ کی مخلوق ہوںگے جن سے قیامت کے دن جہنّم کی آگ بھڑکائی جائیگی۔ جناب عقبہ کہتے ہیں کہ جناب شفی نے ہی یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہو کر بیان کی تھی۔ جناب العلاء بن ابی حکیم بیان کرتے ہیں کہ شفی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے جلاد تھے ایک شخص نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوکر یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے۔ پھر یہ آیت پڑھی «مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ، أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ» [ سورة هود: 16،15 ]”جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہے تو ہم ان کے اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں۔ اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں، اور وہ برباد ہوگیا جوکچھ انہوں نے دنیا میں کمایا تھا اور جو وہ عمل کرتے رہے، ضائع ہوگئے۔“