سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زکوٰۃ وصول کرنے والا عامل آیا تو اُس نے ہمارے مالدار لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرکے ہمارے فقراء میں تقسیم کردی اور میں ایک یتیم لڑکا تھا تو اُنہوں نے مجھے بھی اس مال سے ایک جوان اونٹنی دی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اصلی) مسکین وہ نہیں جو سوال کرتا پھرتا ہے اور نہ وہ ہے جسے ایک یا دو لقمے، ایک یا دو کھجوریں در بدر پھراتی ہیں۔ لیکن حقیقی مسکین وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرنے سے بچتا ہے اور نہ لوگ اس کے حال سے باخبر ہوتے ہیں کہ اس پر صدقہ کر دیں۔“
سیدنا ابن الساعدی المالکی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے زکوٰۃ کی وصولی پر عامل کیا۔ جب میں زکوٰۃ کی وصولی سے فارغ ہوگیا اور میں نے مال اُن کے حوالے کردیا تو اُنہوں نے مجھے اجرت دینے کا حُکم دیا تو میں نے عرض کی کہ بیشک میں نے یہ کام اللّٰہ کی رضا کے لئے کیا ہے اور میری اجرت اللّٰہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں تمہیں جو مال دے رہا ہوں، وہ لے لو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہی کام انجام دیا تھا تو آپ نے مجھے مزدوری دی تھی تو میں نے بھی تمہاری بات کی طرح اظہار کیا تھا۔ اس پر اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا: ”جب تمہیں کوئی چیز بغیر مانگے مل جائے تو کھاؤ اور صدقہ کردو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ابن الساعدی المالکی سے مراد عبداللہ بن سعد ابی سرح ہے۔
جناب عبداللہ بن سعد بن ابی سرح بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا، کیا مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ تم عوامی خدمت کے کام سر انجام دیتے ہو، پھر جب تمہیں مزدوری دی جاتی ہے تو تم اسے لینا پسند نہیں کرتے؟ تو میں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں (میں ایسے ہی کرتا ہوں) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، آخر تم مزدوری کیوں نہیں لیتے؟ میں نے عرض کی کہ میرے پاس گھوڑے ہیں اور غلام بھی موجود ہیں اور میں خیر و برکت سے مالا مال ہوں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میرا یہ عمل مسلمانوں پر صدقہ ہوجائے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تم ایسے مت کیا کرو کیونکہ میں نے بھی ایسے ہی کرنا چاہا تھا جیسے تم چاہتے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مال عطا کر دیتے تھے۔ میں عرض کرتا کہ آپ مجھ سے زیادہ ضرورتمند کو دے دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے لو، اس سے قوت حاصل کرو یا صدقہ کردو اور جو مال تجھے بغیر حرص اور سوال کے مل جائے اسے لے لو اور جو مال تمہیں نہ ملے اس کی طرف اپنا دل مت لگاؤ (اس کا لالچ نہ کرو)۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کو مال عطا فرماتے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے کہ آپ یہ مال مجھ سے زیادہ ضرورتمند کودے دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے لو اور اسے اپنے لئے مالداری کا سبب بنالو یا صدقہ کردو“ پھر بقیہ حدیث بیان کی۔
1640. اس بات کی دلیل کا بیان کہ اگر زکوٰۃ کو تحصیل دار اپنے کام کی مزدوری لینے کی نیت اور ارادے کے بغیر محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرتا ہے، پھر اس کے سوال اور حرص کے بغیر امام اسے مزدوری دیتا ہے تو اس کے لئے وہ مزدوری لینا جائز ہے۔
حدثنا ابو زهير عبد المجيد بن إبراهيم المصري ، حدثنا شعيب يعني ابن يحيى التجيبي ، حدثنا الليث ، عن هشام وهو ابن سعد ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه اسلم ، انه لما كان عام الرمدات، واجدبت ببلاد الارض، كتب عمر بن الخطاب إلى عمرو بن العاص:" من عبد الله عمر امير المؤمنين، إلى العاص بن العاص، لعمري ما تبالي إذا سمنت، ومن قبلك ان اعجف انا ومن قبلي، ويا غوثاه"، فكتب عمرو:" سلام، اما بعد لبيك لبيك اتتك عير اولها عندك، وآخرها عندي، مع اني ارجو ان اجد سبيلا ان احمل في البحر"، فلما قدمت اول عير دعا الزبير، فقال: اخرج في اول هذه العير، فاستقبل بها نجدا، فاحمل إلى كل اهل بيت قدرت على ان تحملهم، وإلى من لم تستطع حمله، فمر لكل اهل بيت ببعير بما عليه، ومرهم فليلبسوا كياس الذين فيهم الحنطة، ولينحروا البعير، فليجملوا شحمه، وليقدوا لحمه، ولياخذوا جلده، ثم لياخذوا كمية من قديد، وكمية من شحم، وحفنة من دقيق، فيطبخوا، فياكلوا حتى ياتيهم الله برزق، فابى الزبير ان يخرج، فقال: اما والله لا تجد مثلها حتى تخرج من الدنيا، ثم دعا آخر اظنه طلحة، فابى، ثم دعا ابا عبيدة بن الجراح، فخرج في ذلك فلما رجع بعث إليه بالف دينار، فقال ابو عبيدة: إني لم اعمل لك يا ابن الخطاب، إنما عملت لله، ولست آخذ في ذلك شيئا، فقال عمر:" قد اعطانا رسول الله صلى الله عليه وسلم في اشياء بعثنا لها فكرهنا، فابى ذلك علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبلها ايها الرجل فاستعن بها على دنياك ودينك" ، فقبلها ابو عبيدة بن الجراح، ثم ذكر الحديث، قال ابو بكر: في القلب من عطية بن سعد العوفي، إلا ان هذا الخبر قد رواه زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد، قد خرجته في موضع آخرحَدَّثَنَا أَبُو زُهَيْرٍ عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ هِشَامٍ وَهُوَ ابْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ ، أَنَّهُ لَمَّا كَانَ عَامُ الرَّمَدَاتِ، وَأَجْدَبَتْ بِبِلادٍ الأَرْضُ، كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ:" مِنْ عَبْدِ اللَّهِ عُمَرَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، إِلَى الْعَاصِ بْنِ الْعَاصِ، لَعَمْرِي مَا تُبَالِي إِذَا سَمِنْتَ، وَمَنْ قِبَلَكَ أَنْ أَعْجَفَ أَنَا وَمَنْ قِبَلِي، وَيَا غَوْثَاهُ"، فَكَتَبَ عَمْرٌو:" سَلامٌ، أَمَّا بَعْدُ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ أَتَتْكَ عِيرٌ أَوَّلُهَا عِنْدَكَ، وَآخِرُهَا عِنْدِي، مَعَ أَنِّي أَرْجُو أَنْ أَجِدَ سَبِيلا أَنْ أَحْمِلَ فِي الْبَحْرِ"، فَلَمَّا قَدِمَتْ أَوَّلُ عِيرٍ دَعَا الزُّبَيْرَ، فَقَالَ: اخْرُجْ فِي أَوَّلِ هَذِهِ الْعِيرِ، فَاسْتَقْبِلْ بِهَا نَجْدًا، فَاحْمِلْ إِلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ قَدَرْتَ عَلَى أَنْ تُحَمِّلَهُمُ، وَإِلَى مَنْ لَمْ تَسْتَطِعْ حَمْلَهُ، فَمُرْ لِكُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ بِبَعِيرٍ بِمَا عَلَيْهِ، وَمُرْهُمْ فَلْيَلْبَسُوا كِيَاسَ الَّذِينَ فِيهِمُ الْحِنْطَةُ، وَلْيَنْحَرُوا الْبَعِيرَ، فَلْيَجْمُلُوا شَحْمَهُ، وَلْيَقْدُوا لَحْمَهُ، وَلْيَأْخُذُوا جِلْدَهُ، ثُمَّ لِيَأْخُذُوا كَمِّيَّةً مِنْ قَدِيدٍ، وَكَمِّيَّةً مِنْ شَحْمٍ، وَحِفْنَةً مِنْ دَقِيقٍ، فَيَطْبُخُوا، فَيَأْكُلُوا حَتَّى يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ بِرِزْقٍ، فَأَبَى الزُّبَيْرُ أَنْ يَخْرُجَ، فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لا تَجِدُ مِثْلَهَا حَتَّى تَخْرُجَ مِنَ الدُّنْيَا، ثُمَّ دَعَا آخَرَ أَظُنُّهُ طَلْحَةَ، فَأَبَى، ثُمَّ دَعَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، فَخَرَجَ فِي ذَلِكَ فَلَمَّا رَجَعَ بَعَثَ إِلَيْهِ بِأَلْفِ دِينَارٍ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: إِنِّي لَمْ أَعْمَلْ لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ، وَلَسْتُ آخُذُ فِي ذَلِكَ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ:" قَدْ أَعْطَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْيَاءَ بَعَثَنَا لَهَا فَكَرِهْنَا، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاقْبَلْهَا أَيُّهَا الرَّجُلُ فَاسْتَعِنْ بِهَا عَلَى دُنْيَاكَ وَدِينِكَ" ، فَقَبِلَهَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، ثُمَّ ذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي الْقَلْبِ مِنْ عَطِيَّةَ بْنِ سَعْدٍ الْعَوْفِيِّ، إِلا أَنَّ هَذَا الْخَبَرَ قَدْ رَوَاهُ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَدْ خَرَّجْتُهُ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ
جناب زید بن اسلم اپنے والد گرامی جناب اسلم رحمه الله سے روایت کرتے ہیں کہ جب قحط سالی سے جزیرہ عرب کی زمین خشک ہوگئی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے (مصری) گورنر سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا (جس کا مضمون یہ تھا) اللہ کے بندے عمر امیر المؤمنین کی طرف سے عاص بن عاص کی طرف، میری عمر کی قسم، تمہیں کیا پروا ہے جب کہ تم اور تمہارے علاقے کے لوگ تو خوب موٹے تازے ہیں اور میں اور میرے علاقے کے لوگ (خشک سالی کی وجہ سے) دبلے پتلے ہوگئے ہیں۔ ”اے اللہ ہماری مدد فرما۔“ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس خط کا یہ جواب لکھا کہ السلام علیکم، بعد ازاں عرض ہے کہ میں آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہوں، آپ کے حُکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہوں۔ آپ کے پاس ایک ایسا قافلہ آ رہا ہے جس کا پہلا اونٹ آپ کے پاس اور آخری میرے پاس ہوگا۔ اس کے ساتھ مجھے یہ بھی امید ہے کہ میں سمندری راستے سے مال بھیج دوں گا۔ پھر جب پہلا قافلہ (مدینہ منوّرہ) پہنچا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اس پہلے قافلے کی ذمہ داری سنبھال لو اور اسے نجد لے جاؤ اور ہر گھر میں اتنا مال بھیج دو جتنا تم بھیج سکو اور جو مال اُٹھا کر نہ لے جاسکے تو ہر گھر والوں کے لئے ایک اونٹ سامان سمیت دے دو اور اُنہیں حُکم دو کہ گندم کے تھیلوں کا لباس بنالیں، اونٹوں کو ذبح کرکے ان کی چربی پگھلا لیں، اس کے گوشت کو دھوپ میں خشک کرکے محفوظ کرلیں، اور اس کی کھال بھی استعمال کرلیں۔ پھر خشک گوشت، گھی اور آٹے کی کچھ مقدار کو ملا کر پکائیں اور سب لوگ کھائیں حتّیٰ کہ اللہ تعالیٰ انہیں روزی عطا فرمائے۔ (بارشیں اور فصلیں اُگنا شروع ہوجائیں) تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے یہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کرلی۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اللہ کی قسم تم ساری زندگی اس جیسی نعمت نہیں پاؤ گے۔ پھر ایک اور آدمی کو بلایا، میرے خیال میں وہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ تھے مگر اُنہوں نے بھی معذرت کرلی۔ پھر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بلایا تو وہ یہ ذمہ داری نبھانے کے لئے روانہ ہوگئے پھر جب وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے بعد واپس آئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک ہزار دینار دیئے تو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے ابن خطاب، میں نے یہ کام تمہاری رضا کے لئے نہیں کیا بلکہ میں نے یہ کام اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے کیا ہے اور میں اس کام کی کوئی اجرت نہیں لوںگا۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس قسم کی ذمہ داریوں کے لئے بھیجا کرتے تھے اور ہمیں مزدوری دیتے تو ہم مزدوری لینا پسند نہ کرتے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس ناپسندیدگی کو قبول نہیں کرتے تھے (بلکہ زبردستی مزدوری دے دیتے تھے) اس لئے اے ابوعبیدہ، تم بھی اس مزدوری کو قبول کرلو اور اسے اپنی دینی ضروریات اور دنیاوی حاجات میں استعمال کرو۔ چنانچہ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے وہ مال قبول کرلیا۔ پھر بقیہ حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرے دل میں عطیہ بن سعد کے بارے میں عدم اطمینان ہے۔ لیکن یہ روایت زید بن اسلم نے بھی عطاء بن یسار کے واسطے سے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔ جسے میں ایک دوسری جگہ پر بیان کرچکا ہوں۔ (امام صاحب کے اس تبصرے کا تعلق اگلی حدیث سے ہے)۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالدار شخص کے لئے زکوٰۃ کا مال لینا حلال نہیں ہے سوائے پانچ قسم کے مالدار اشخاص کے۔ وہ زکوٰۃ کا تحصیلدار ہو (تو مزدوری لے سکتا ہے) یا مقروض ہو یا وہ زکوٰۃ کا مال خرید لے یا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ہو یا جس کا پڑوسی فقیر ہو جسے زکوٰۃ دی گئی ہو اور وہ فقیر (مال دار ہمسائے کو اس زکوٰۃ کے مال میں سے) ہدیہ کردے (تو اس کا لینا جائز ہے)۔“
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے جس شخص کو کسی کام کی ذمہ داری سونپی اور اسے اس کی تنخواہ بھی دے دی تو اس کے بعد وہ جو مال لے گا وہ خیانت ہوگی۔“