صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ قَسْمِ الْصَّدَقَاتِ وَذِكْرِ أَهْلِ سُهْمَانِهَا
زکوٰۃ کی تقسیم کے ابواب کا مجموعہ اور مستحقین کی زکوٰۃ کا بیان
1640. (85) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْعَامِلَ عَلَى الصَّدَقَةِ إِنْ عَمِلَ عَلَيْهَا مُتَطَوِّعًا بِالْعَمَلِ بِغَيْرِ إِرَادَةٍ وَنِيَّةٍ لِأَخْذِ عُمَالَةٍ عَلَى عَمَلِهِ فَأَعْطَاهُ الْإِمَامُ لِعُمَالَتِهِ رِزْقًا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةِ وَلَا إِشْرَافٍ، فَجَائِزٌ لَهُ أَخْذُهُ
اس بات کی دلیل کا بیان کہ اگر زکوٰۃ کو تحصیل دار اپنے کام کی مزدوری لینے کی نیت اور ارادے کے بغیر محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرتا ہے، پھر اس کے سوال اور حرص کے بغیر امام اسے مزدوری دیتا ہے تو اس کے لئے وہ مزدوری لینا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 2367
حَدَّثَنَا أَبُو زُهَيْرٍ عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ هِشَامٍ وَهُوَ ابْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ ، أَنَّهُ لَمَّا كَانَ عَامُ الرَّمَدَاتِ، وَأَجْدَبَتْ بِبِلادٍ الأَرْضُ، كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ:" مِنْ عَبْدِ اللَّهِ عُمَرَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، إِلَى الْعَاصِ بْنِ الْعَاصِ، لَعَمْرِي مَا تُبَالِي إِذَا سَمِنْتَ، وَمَنْ قِبَلَكَ أَنْ أَعْجَفَ أَنَا وَمَنْ قِبَلِي، وَيَا غَوْثَاهُ"، فَكَتَبَ عَمْرٌو:" سَلامٌ، أَمَّا بَعْدُ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ أَتَتْكَ عِيرٌ أَوَّلُهَا عِنْدَكَ، وَآخِرُهَا عِنْدِي، مَعَ أَنِّي أَرْجُو أَنْ أَجِدَ سَبِيلا أَنْ أَحْمِلَ فِي الْبَحْرِ"، فَلَمَّا قَدِمَتْ أَوَّلُ عِيرٍ دَعَا الزُّبَيْرَ، فَقَالَ: اخْرُجْ فِي أَوَّلِ هَذِهِ الْعِيرِ، فَاسْتَقْبِلْ بِهَا نَجْدًا، فَاحْمِلْ إِلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ قَدَرْتَ عَلَى أَنْ تُحَمِّلَهُمُ، وَإِلَى مَنْ لَمْ تَسْتَطِعْ حَمْلَهُ، فَمُرْ لِكُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ بِبَعِيرٍ بِمَا عَلَيْهِ، وَمُرْهُمْ فَلْيَلْبَسُوا كِيَاسَ الَّذِينَ فِيهِمُ الْحِنْطَةُ، وَلْيَنْحَرُوا الْبَعِيرَ، فَلْيَجْمُلُوا شَحْمَهُ، وَلْيَقْدُوا لَحْمَهُ، وَلْيَأْخُذُوا جِلْدَهُ، ثُمَّ لِيَأْخُذُوا كَمِّيَّةً مِنْ قَدِيدٍ، وَكَمِّيَّةً مِنْ شَحْمٍ، وَحِفْنَةً مِنْ دَقِيقٍ، فَيَطْبُخُوا، فَيَأْكُلُوا حَتَّى يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ بِرِزْقٍ، فَأَبَى الزُّبَيْرُ أَنْ يَخْرُجَ، فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لا تَجِدُ مِثْلَهَا حَتَّى تَخْرُجَ مِنَ الدُّنْيَا، ثُمَّ دَعَا آخَرَ أَظُنُّهُ طَلْحَةَ، فَأَبَى، ثُمَّ دَعَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، فَخَرَجَ فِي ذَلِكَ فَلَمَّا رَجَعَ بَعَثَ إِلَيْهِ بِأَلْفِ دِينَارٍ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: إِنِّي لَمْ أَعْمَلْ لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ، وَلَسْتُ آخُذُ فِي ذَلِكَ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ:" قَدْ أَعْطَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْيَاءَ بَعَثَنَا لَهَا فَكَرِهْنَا، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاقْبَلْهَا أَيُّهَا الرَّجُلُ فَاسْتَعِنْ بِهَا عَلَى دُنْيَاكَ وَدِينِكَ" ، فَقَبِلَهَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، ثُمَّ ذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي الْقَلْبِ مِنْ عَطِيَّةَ بْنِ سَعْدٍ الْعَوْفِيِّ، إِلا أَنَّ هَذَا الْخَبَرَ قَدْ رَوَاهُ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَدْ خَرَّجْتُهُ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ
جناب زید بن اسلم اپنے والد گرامی جناب اسلم رحمه الله سے روایت کرتے ہیں کہ جب قحط سالی سے جزیرہ عرب کی زمین خشک ہوگئی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے (مصری) گورنر سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا (جس کا مضمون یہ تھا) اللہ کے بندے عمر امیر المؤمنین کی طرف سے عاص بن عاص کی طرف، میری عمر کی قسم، تمہیں کیا پروا ہے جب کہ تم اور تمہارے علاقے کے لوگ تو خوب موٹے تازے ہیں اور میں اور میرے علاقے کے لوگ (خشک سالی کی وجہ سے) دبلے پتلے ہوگئے ہیں۔ ”اے اللہ ہماری مدد فرما۔“ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس خط کا یہ جواب لکھا کہ السلام علیکم، بعد ازاں عرض ہے کہ میں آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہوں، آپ کے حُکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہوں۔ آپ کے پاس ایک ایسا قافلہ آ رہا ہے جس کا پہلا اونٹ آپ کے پاس اور آخری میرے پاس ہوگا۔ اس کے ساتھ مجھے یہ بھی امید ہے کہ میں سمندری راستے سے مال بھیج دوں گا۔ پھر جب پہلا قافلہ (مدینہ منوّرہ) پہنچا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اس پہلے قافلے کی ذمہ داری سنبھال لو اور اسے نجد لے جاؤ اور ہر گھر میں اتنا مال بھیج دو جتنا تم بھیج سکو اور جو مال اُٹھا کر نہ لے جاسکے تو ہر گھر والوں کے لئے ایک اونٹ سامان سمیت دے دو اور اُنہیں حُکم دو کہ گندم کے تھیلوں کا لباس بنالیں، اونٹوں کو ذبح کرکے ان کی چربی پگھلا لیں، اس کے گوشت کو دھوپ میں خشک کرکے محفوظ کرلیں، اور اس کی کھال بھی استعمال کرلیں۔ پھر خشک گوشت، گھی اور آٹے کی کچھ مقدار کو ملا کر پکائیں اور سب لوگ کھائیں حتّیٰ کہ اللہ تعالیٰ انہیں روزی عطا فرمائے۔ (بارشیں اور فصلیں اُگنا شروع ہوجائیں) تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے یہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کرلی۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اللہ کی قسم تم ساری زندگی اس جیسی نعمت نہیں پاؤ گے۔ پھر ایک اور آدمی کو بلایا، میرے خیال میں وہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ تھے مگر اُنہوں نے بھی معذرت کرلی۔ پھر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بلایا تو وہ یہ ذمہ داری نبھانے کے لئے روانہ ہوگئے پھر جب وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے بعد واپس آئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک ہزار دینار دیئے تو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے ابن خطاب، میں نے یہ کام تمہاری رضا کے لئے نہیں کیا بلکہ میں نے یہ کام اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے کیا ہے اور میں اس کام کی کوئی اجرت نہیں لوںگا۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس قسم کی ذمہ داریوں کے لئے بھیجا کرتے تھے اور ہمیں مزدوری دیتے تو ہم مزدوری لینا پسند نہ کرتے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس ناپسندیدگی کو قبول نہیں کرتے تھے (بلکہ زبردستی مزدوری دے دیتے تھے) اس لئے اے ابوعبیدہ، تم بھی اس مزدوری کو قبول کرلو اور اسے اپنی دینی ضروریات اور دنیاوی حاجات میں استعمال کرو۔ چنانچہ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے وہ مال قبول کرلیا۔ پھر بقیہ حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرے دل میں عطیہ بن سعد کے بارے میں عدم اطمینان ہے۔ لیکن یہ روایت زید بن اسلم نے بھی عطاء بن یسار کے واسطے سے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔ جسے میں ایک دوسری جگہ پر بیان کرچکا ہوں۔ (امام صاحب کے اس تبصرے کا تعلق اگلی حدیث سے ہے)۔
تخریج الحدیث: