سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا: ”بیشک تم ایک اہل کتاب قوم کے پاس جارہے ہو لہٰذا انہیں (سب سے پہلے)”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“ کی گواہی دینے اور اس بات کی گواہی دینے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، کی دعوت دینا۔ پھر جب وہ اس بات میں تمھاری اطاعت کرلیں تو پھر اُنہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ پھراگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو اُنہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو اُن کے مالداروں سے وصول کر کے انہی کے فقراء میں تقسیم کی جائیگی۔ اگر وہ اس بات میں بھی تمہاری فرمانبرداری کرلیں تو پھر تم اُن کے عمدہ مال لینے سے بچنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیونکہ مظلوم کی بد دعا اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ یہ حدیث جناب جعفر کی روایت ہے اور جناب مخرمی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ”انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول کرلیں تو اُنہیں بتانا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اُن پر فرض کیا ہے۔“ پوری روایت میں اسی طرح ہے کہ ”پھر اگر وہ تمہاری دعوت قبول کرلیں تو انہیں (اگلی بات) بتانا۔“
جناب ابو الحوراء بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بات یاد ہے؟ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ میں نے زکوٰة کی کھجوروں میں سے ایک کھجور پکڑ کر مُنہ میں ڈال لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے مُنہ سے وہ کھجور کھینچ لی اور فرمایا: ”بیشک ہم آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے زکوٰة کا مال حلال نہیں ہے۔
جناب ابو الحوراء بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بات یاد ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات یاد ہے کہ میں نے زکوٰة کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لیکر مُنہ میں ڈال لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجور لعاب سمیت کھینچ کر زکوٰة کی کھجوروں میں پھینک دی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اس بچّے نے جوکجھور لے لی تھی اس پر آپ پرتو کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک ہم آل محمد کے لئے زکوٰة کا مال حلال نہیں ہے اور آپ فرمایا کرتے تھے۔ جو چیز تمہیں شک و شبہ میں ڈالے اُسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے کیونکہ خیر و برکت اطمینان قلب میں ہے اور جھوٹ شک و شبہ والا ہوتا ہے۔ پھر مکمّل حدیث بیان
1629. اس بات کی دلیل کا بیان کہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچّوں کے اولیاء کے لئے ضروری ہے کہ وہ انہیں اس مال کو کھانے سے منع کریں جوان کے بالغ مرد خواتین پر حرام ہے
جناب ابن شیبان بیان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا، آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بات یاد ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے کہ آپ مجھے اُس کمرے میں لیکرداخل ہوئے جس میں زکوٰۃ کا مال رکھا ہوا تھا تو میں نے ایک کھجور لیکر مُنہ میں ڈال لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے نکال دو کیونکہ یہ مالِ زکوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر کے کسی شخص کے لئے حلال نہیں ہے۔“
1630. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف فرضی زکوٰۃ حرام ہے جو اللہ تعالی نے مستحقین زکوٰۃ کے لئے مالداروں کے اموال میں واجب کی ہے
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو زکوٰة کی وصولی کے لئے بھیجا تو اُس نے مجھ سے کہا کہ میرے ساتھ چلو (تا کہ تم بھی مال حاصل کرسکو) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے مخزومی شخص کو فرض زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا ہے۔“ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے یہ کہنا: ”بیشک ہمارے لئے زکوٰة کا مال حلال نہیں ہے۔“ یہ آپ کا جواب اس صدقے کے بارے میں تھا جس فرضی صدقے کے بارے میں سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ نے(وصول کنندہ کی) معاونت کرنے کے بارے میں سوال کیا تھا۔
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ میں نے زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اُٹھالی اور یہ کھجور، کھجوروں کی فرض زکوٰۃ کے دسویں یا بیسویں حصّے میں سے تھی۔
اور حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ کی روایت میں بھی (فرضی زکوٰۃ کی وضاحت ہے) جب وہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور آپ سے زکوٰۃ کی وصولی پر عامل مقرر کرنے کا سوال کیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بتایا تھا کہ یہ زکوٰۃ لوگوں کی میل کچیل ہے اور یہ مال محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کے لئے حلال نہیں ہے اور بلاشبہ اُنہوں نے فرضی زکوٰۃ کی وصولی پر عامل مقرر کرنے کا سوال کیا تھا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دونوں کو یہ جواب دینا کہ یہ صدقہ جس پر تم نے عامل مقرر کیے جانے کا مجھ سے سوال کیا ہے یہ تو لوگوں کی میل کچیل ہے اور یہ مال محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کے لئے حلال نہیں ہے۔
1631. اس بات کے مزید دلائل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”بیشک صدقہ آلِ محمد کے لئے حلال نہیں ہے“ سے آپ کی مراد فرض صدقہ (زکوٰۃ) مراد ہے۔ نفلی صدقہ مراد نہیں ہے
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”ہماری میراث تقسیم نہیں کی جائیگی، جو مال ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوگا۔ بلاشبہ آلِ محمد اس مال میں سے کھائیں گے۔“ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ آپ کی آل آپ کے صدقہ میں سے کھائے گی کیونکہ آپ کا صدقہ فرض صدقہ (زکوٰۃ) نہیں ہے۔