سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خیبر (کے باغات) کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کو کھجوروں کے پکتے ہی (خیبر) بھیجتے اور وہ کھجوریں کھائی جانے سے پہلے ان کی مقدار کا تخمینہ لگا لیتے۔ پھر وہ یہودیوں کو اختیار دیتے کہ وہ اس تخمینے کے مطابق (اپنا حصّہ) وصول کرلیں یا یہودی (مسلمانوں کو) اس اندازے کے مطابق (ان کا حصّہ) ادا کردیں اور بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تخمینہ لگانے کا حُکم اس لئے دیا تھا تاکہ کھجوریں کھانے اور انہیں تقسیم کرنے سے پہلے ان کی زکوٰۃ کا اندازہ معلوم ہوسکے۔
1605. انگور کا تخمینہ لگانے کے متعلق سنّت نبوی کا بیان تاکہ اس کی زکوٰۃ کشمش سے وصول کی جاسکے جیسا کہ تازہ کھجور کی زکوٰۃ خشک کھجوروں سے وصول کی جاتی ہے
سیدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کی زکوٰۃ کے متعلق فرمایا: ”انگور کا تخمینہ لگایا جائے جیسا کہ کھجور کا تخمینہ لگایا جاتا ہے پھر اس کی زکوٰۃ کشمش سے وصول کرلی جائے جیسا کہ تر کھجوروں کی زکوٰۃ خشک کھجوروں سے وصول کرلی جاتی ہے۔
جناب سعید بن مسیّب رحمه الله سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ کھجور کی طرح انگور کا بھی تخمینہ لگالیں پھر انگور کی زکوٰۃ کشمش سے ادا کردیں جیسا کہ تازہ کھجوروں کی زکوٰۃ خشک کھجوروں سے ادا کی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں، کھجور اور انگور (کی زکوٰۃ کی وصولی) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مبارک یہی تھا۔
جناب سعید بن مسیّب رحمه الله سیدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں مگر اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ کھجوروں اور انگور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت و طریقہ یہی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ (عباد بن اسحاق) کا نام عبدالرحمان ہے اور عباد ان کا لقب ہے۔
1606. اس مسنون مقدار کا بیان جو محاسب تخمینہ میں شمار نہیں کرے گا تاکہ وہ اس مقدار کے برابر ہوجائے جو مالک کھجور خشک ہونے سے پہلے تازہ کھجور کھالے گا یا دوسروں کو کھلادے گا اور یہ مقدار اس میں شامل نہیں ہوگی جس میں سے دسواں یا بیسواں حصّہ زکوٰۃ وصول کی جائے گی
فلا يخرصه على صاحب المال ليكون قدر ما ياكله رطبا ويطعمه قبل يبس التمر، غير داخل فيما يخرج منه العشر او نصف العشر فَلَا يَخْرُصُهُ عَلَى صَاحِبِ الْمَالِ لِيَكُونَ قَدْرُ مَا يَأْكُلُهُ رُطَبًا وَيَطْعَمُهُ قَبْلَ يَبْسِ التَّمْرِ، غَيْرُ دَاخِلٍ فِيمَا يَخْرُجُ مِنْهُ الْعُشْرُ أَوْ نِصْفُ الْعُشْرِ
جناب عبدالرحمٰن بن مسعود سے روایت ہے کہ سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم بازار میں تھے تو اُنہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جب تم تخمینہ لگا کر زکٰوۃ وصول کرو تو (مالک کو) ایک تہائی معاف کردو اور اگر تم ایک تہائی اسے نہ چھوڑو تو ایک چوتھائی حصّہ معاف کردو۔“
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم پھلوں کا تخمینہ لگاؤ تو (اس کے مطابق زکوٰۃ) وصول کرلو اور ایک تہائی چھوڑدیا کرو اور اگر تم ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو ایک چوتھائی چھوڑدیا کرو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی اونٹوں کا مالک ہو اور تنگی اور خوشحالی میں ان کی زکوٰۃ ادانہ کرتا ہو تو اُسے قیامت کے دن ایک ہموار میدان میں اوندھے مُنہ لٹا دیا جائیگا پھر وہ اونٹ خوب موٹے تازے ہوکر آئیںگے اور اسے اپنے قدموں اور کھروں کے ساتھ روندیںگے۔ جب آخری روندتا ہوا گزر جائیگا تو پہلا دوبارہ واپس آجائیگا (اسے یہ عذاب مسلسل ہوتا رہیگا) حتّیٰ کہ (اللہ تعالیٰ) مخلوق کے درمیان فیصلہ فرما دے گا پھر وہ اپنا راستہ (جنّت یا جہنّم کی طرف) دیکھ لیگا اور جو شخص بھی گایوں کا مالک ہو اور تنگی اور خوشحال میں ان کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن ان گایوں کو خوب فربہ حالت میں لایا جائیگا۔ پھر اس کو ایک وسیع میدان میں اوندھا لٹا دیا جائیگا۔ اور وہ گائیں اُسے اپنے سینگوں سے ٹکریں ماریںگی اور اپنے کھروں تلے روندیںگی۔ جب آخری گائے روند کر گزر جائیگی تو پہلی گائے لوٹ آئیگی۔ یہاں تک مخلوق کے درمیان فیصلہ کردیا جائیگا پھر وہ اپنا راستہ (جنّت یا جہنّم کی طرف) دیکھ لیگا، اور جو شخص بھی بکریوں کا مالک ہو اور تنگی اور خو شحال میں ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اُن بکریوں کو خوب فربہ حالت میں لایا جائیگا۔ پھر اس شخص کو ایک وسیع میدان میں اوندھا لٹا دیا جائیگا اور وہ بکریاں اسے اپنے سینگوں سے ٹکریں ماریںگی اور کھروں سے روندیںگی۔ جب آخری بکری روند کر گزرجائیگی تو پہلی بکری لوٹ آئیگی۔ یہاں تک کہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کر دیا جائیگا پھر وہ اپنا راستہ (جنّت یا جہنّم کی طرف) دیکھ لیگا۔“ امام ابوبکر فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ لفظ سبیل (لام کی) پیش کے ساتھ ہے یا زبر کے ساتھ۔
1608. اس بات کا بیان کہ اس حدیث میں مذکورہ الفاظ «النَّجْدَۃِ» اور «الرِّسْلِ» سے مرادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تنگدستی اور خوشحالی ہے