سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھجور کی ٹہنیوں اور پتّوں سے جھونپڑی بنائی گئی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں اعتکاف کیا۔ حتّیٰ کہ جب ایک رات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک باہر نکالا اور صحابہ کرام کو (بلند آواز سے) قرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا: ”بیشک نمازی جب نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے تو تم میں کسی شخص کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا سرگوشیاں کررہا ہے، کیا تم میں سے بعض لوگ دوسروں پر بلند آواز سے (اُن کی قراءت و ذکر میں) خلل ڈالتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے پر بلند آواز سے قراءت کرنے کو ناپسند کیا تھا اور اس سے روکنا چاہتے تھے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رمضان المبارک کے درمیانی عشرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا، پھرجب بیسویں رات کی صبح ہوئی تو ہم نے اپنا سامان منتقل کرنا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ”جس شخص نے بھی تم میں سے اعتکاف کیا تھا وہ اپنے معتکف میں واپس آجائے، بیشک مجھے یہ رات دکھائی گئی تھی پھر مجھے وہ بھلادی گئی ہے اور مجھے دکھایا گیا ہے کہ میں کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں۔“
1551. اس بات کی دلیل کا بیان کہ روزے کے بغیر بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات کا اعتکاف کرنے کا حُکم دیا اور رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھتے ہوئے عرض کی کہ میں نے جاہلیت میں ایک رات کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنی نذر پوری کرو۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ کے ساتھ اعتکاف کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اجازت دے دی، پھر اُنہوں نے آپ سے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے لئے بھی اجازت طلب کی۔ میں یہ مکمّل حدیث لکھواچکا ہوں۔
1553. اس معتکف کا بیان جو اپنے اعتکاف کے دوران ایسے کام کی نذر مانتا ہے جو اللہ کی اطاعت والی نہیں اور نہ اس سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے حصول کی کوشش ہوتی ہے
امام شافعی رحمه الله فرماتے ہیں کہ جو شخص تقربِ الٰہی کے حصول کے لئے بغیر قسم کھائے یہ نذر مانے کہ وہ کھڑا ہوکر اعتکاف کرے گا، کسی شخص سے بات چیت نہیں کرے گا، وہ نہ کھانا کھائے گا اور نہ بستر پر لیٹے گا۔ تو وہ کفّارہ دیئے بغیر بیٹھ جائے، بات چیت کرلے اور کھانا کھالے اور بستر پر آرام کرے۔ بلاشبہ صرف وہ نذر پوری کی جائے گی جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری ہو۔ ربا وہ شخص جس نے ایسی نذر مانی جس میں اللہ کی اطاعت نہیں ہے تو وہ نہ نذر پوری کرے اور نہ کفّارہ دے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس شخص نے اللہ کی نافرمانی کی نذرمانی تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔“
قال ابو بكر: في خبر ابن عباس ان النبي صلى الله عليه وسلم راى ابا إسرائيل قائما في الشمس، فقال:" ما له قائم في الشمس؟" قالوا: نذر ان يصوم، وان لا يجلس ولا يستظل، قال:" مروه فليجلس، وليستظل، وليصم". فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم بالوفاء بالصوم الذي هو طاعة، وترك القيام في الشمس، إذ لا طاعة في القيام في الشمس. وإن كان القيام في الشمس ليس بمعصية، إلا ان يكون فيه تعذيب، فيكون حينئذ معصية. قد خرجت هذا الجنس على الاستقصاء في كتاب النذورقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى أَبَا إِسْرَائِيلَ قَائِمًا فِي الشَّمْسِ، فَقَالَ:" مَا لَهُ قَائِمٌ فِي الشَّمْسِ؟" قَالُوا: نَذَرَ أَنْ يَصُومَ، وَأَنْ لا يَجْلِسَ وَلا يَسْتَظِلَّ، قَالَ:" مُرُوهُ فَلْيَجْلِسْ، وَلْيَسْتَظِلَّ، وَلْيَصُمْ". فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْوَفَاءِ بِالصَّوْمِ الَّذِي هُوَ طَاعَةٌ، وَتَرْكِ الْقِيَامِ فِي الشَّمْسِ، إِذْ لا طَاعَةَ فِي الْقِيَامِ فِي الشَّمْسِ. وَإِنْ كَانَ الْقِيَامُ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ بِمَعْصِيَةٍ، إِلا أَنْ يَكُونَ فِيهِ تَعْذِيبٌ، فَيَكُونُ حِينَئِذٍ مَعْصِيَةً. قَدْ خَرَّجْتُ هَذَا الْجِنْسَ عَلَى الاسْتِقْصَاءِ فِي كِتَابِ النُّذُورِ
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابواسرائیل کو دھوپ میں کھڑے دیکھا تو پوچھا: ”اسے کیا ہوا ہے کہ دھوپ میں کھڑا ہے؟“ صحابہ کرام نے عرض کی کہ انہوں نے نذر مانی ہے کہ وہ روزہ رکھیں گے اور بیٹھیں گے نہیں، اور نہ سایہ حاصل کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو کہو کہ وہ بیٹھ جائے، اور سایہ میں رہے اور روزہ رکھ لے۔“ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں روزے کی نذر پوری کرنے کا حُکم دیا کیونکہ روزہ اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری ہے اور دھوپ میں کھڑے ہونے سے روکا کیونکہ دھوپ میں کھڑے ہونا اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کا کام نہیں ہے۔ اگر چہ دھوپ میں کھڑا ہونا معصیت نہیں ہے لیکن اگر اس میں جسمانی اذیت ہو تو پھر یہ معصیت ہوگا۔ میں نے یہ قسم مکمّل طور پر کتاب النذور میں بیان کی ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے تو آپ نے ایک سال اعتکاف کیا، حتّیٰ کہ جب اکیسویں رات ہوئی، جس رات کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف سے نکلتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ہمارے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرہ بھی اعتکاف کرے۔“ اور مکمّل حدیث بیان کی۔