صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
رمضان المبارک میں قیام کرنے کے ابواب کا مجموعہ
1518.
1518. اس بات کی دلیل کا بیان کہ رمضان المبارک میں قیام کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے، رافضی شیعہ کے دعوے کے بر خلاف جو کہتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قیام کرنا بدعت ہے سنّت نہیں ہے
حدیث نمبر: 2201
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن المقدام العجلي ، حدثنا نوح بن قيس الخزاعي ، حدثنا نصر بن علي ، عن النضر بن شيبان ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، قال: قلت لابي سلمة: الا تحدثنا حديثا سمعته من ابيك، سمعه ابوك من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: بلى، اقبل رمضان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن رمضان شهر افترض الله صيامه، وإني سننت للمسلمين قيامه، فمن صامه وقامه إيمانا واحتسابا، خرج من ذنوبه كيوم ولدته امه" . قال ابو بكر: اما خبر:" من صامه وقامه" إلى آخر الخبر، فمشهور من حديث ابي سلمة، عن ابي هريرة، ثابت لا شك ولا ارتياب في ثبوته اول الكلام، واما الذي يكره ذكره: النضر بن شيبان، عن ابي سلمة، عن ابيه، فهذه اللفظة معناها صحيح من كتاب الله عز وجل، وسنة نبيه صلى الله عليه وسلم، لا بهذا الإسناد، فإني خائف ان يكون هذا الإسناد وهما، اخاف ان يكون ابو سلمة لم يسمع من ابيه شيئا. وهذا الخبر لم يروه عن ابي سلمة احد اعلمه غير النضر بن شيبانحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ الْخُزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِي سَلَمَةَ: أَلا تُحَدِّثُنَا حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِيكَ، سَمِعَهُ أَبُوكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: بَلَى، أَقْبَلَ رَمَضَانُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ رَمَضَانَ شَهْرٌ افْتَرَضَ اللَّهُ صِيَامَهُ، وَإِنِّي سَنَنْتُ لِلْمُسْلِمِينَ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَّا خَبَرُ:" مَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ" إِلَى آخِرِ الْخَبَرِ، فَمَشْهُورٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ثَابِتٌ لا شَكَّ وَلا ارْتِيَابَ فِي ثُبُوتِهِ أَوَّلَ الْكَلامِ، وَأَمَّا الَّذِي يُكْرَهُ ذِكْرُهُ: النَّضْرُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، فَهَذِهِ اللَّفْظَةُ مَعْنَاهَا صَحِيحٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لا بِهَذَا الإِسْنَادِ، فَإِنِّي خَائِفٌ أَنْ يَكُونَ هَذَا الإِسْنَادُ وَهْمًا، أَخَافُ أَنْ يَكُونَ أَبُو سَلَمَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ شَيْئًا. وَهَذَا الْخَبَرُ لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَحَدٌ أَعْلَمُهُ غَيْرَ النَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ
جناب فضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسلمہ سے کہا، کیا آپ ہمیں کوئی ایسی حدیث نہیں سنائیں گے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ کیوں نہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض کیے ہیں اور میں نے مسلمانوں کے لئے اس کا قیام جاری کیا ہے۔ لہٰذا جس شخص نے ایمان و ثواب کی نیت سے اس مہینے کے روزے رکھے اور قیام کیا تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاک صاف ہو جائے گا جیسے وہ اُس دن تھا جب اُس کی ماں نے اُسے جنم دیا تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جس نے اس مہینے کے روزے رکھے اور قیام کیا۔۔۔ آخر روایت تک، یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی صورت میں مشہور ہے۔ یہ پہلا حصّہ بلا شک وشبہ ثابت ہے۔ لیکن نضر بن شیبان کی سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حضرت عبدالرحمان سے روایت کردہ حصّہ ناپسند یدہ ہے۔ یہ الفاظ ان کا معنی اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کی روشنی میں صحیح ہے۔ لیکن اس سند سے صحیح نہیں ہے کیونکہ مجھے ڈرہے کہ یہ سند وہم ہے۔ مجھے ڈرہے کہ سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد گرامی سے کچھ نہیں سنا اور میرے علم کے مطابق اس روایت کو سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے بھی صرف نضر بن شیبان ہی روایت کرتا ہے (گویا ان دو اسباب کی بنا پر یہ سند ضعیف ہے)۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
1519.
1519. رمضان المبارک کے قیام کا حُکم رغبت و شوق دلانے کے لئے ہے، تاکیدی اور وجوبی نہیں ہے
حدیث نمبر: 2202
Save to word اعراب
حدثنا عمرو بن علي ، حدثنا عثمان بن عمر ، حدثنا مالك بن انس ، عن الزهري ، عن ابي سلمة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يامر بقيام رمضان من غير ان يامر فيه بعزيمة يقول: " من قام رمضان إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه" حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِقِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ يَقُولُ: " مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں قیام کرنے کا حُکم عزیمت و وجوب کے بغیر دیا کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے جس شخص نے ایمان وثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا، تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کریئے جاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1520.
1520. رمضان المبارک کا قیام ایمان اور ثواب کی نیت سے کرنے پر گزشتہ گناہوں کی مغفرت کا بیان
حدیث نمبر: 2203
Save to word اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان المبارک کا قیام ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ کیا، اُس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1521.
1521. رمضان المبارک میں باجماعت نفل نماز ادا کرنے کا بیان، اُن لوگوں کے قول کے برخلاف جن کا خیال ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے رمضان المبارک میں باجماعت نفل نماز ادا کرنے کا حُکم دیا
حدیث نمبر: Q2204
Save to word اعراب

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2204
Save to word اعراب
حدثنا عبدة بن عبد الله الخزاعي ، اخبرنا زيد بن الحباب ، عن معاوية ، قال: حدثني نعيم بن زياد ابو طلحة الانماري ، قال: سمعت النعمان بن بشير على منبر حمص، يقول: " قمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في شهر رمضان ليلة ثلاث وعشرين إلى ثلث الليل، ثم قمنا معه ليلة خمس وعشرين إلى نصف الليل، ثم قمنا معه ليلة سبع وعشرين حتى ظننا ان لن ندرك الفلاح"، وكنا نسميه السحور، وانتم تقولون: ليلة سابعة ثلاث وعشرين، ونحن نقول: سابعة سبع وعشرين. فنحن اصوب ام انتم؟ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ زِيَادٍ أَبُو طَلْحَةَ الأَنْمَارِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ عَلَى مِنْبَرِ حِمْصَ، يَقُولُ: " قُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لَيْلَةَ ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ لَنْ نُدْرِكَ الْفَلاحَ"، وَكُنَّا نُسَمِّيهِ السَّحُورَ، وَأَنْتُمْ تَقُولُونَ: لَيْلَةُ سَابِعَةِ ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ، وَنَحْنُ نَقُولُ: سَابِعَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ. فَنَحْنُ أَصَوْبُ أَمْ أَنْتُمْ؟
جناب نُعیم بن زیاد ابوطلحہ انصاری رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو حمص کے منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان المبارک کی تئیسویں رات کو تہائی رات تک قیام کیا پھر ہم نے پچسویں رات کو آدھی رات تک نفل پڑھے۔ پھر ہم نے ستائیسویں رات کو اتنا طویل قیام کیا کہ ہم خیال کرنے لگے کہ سحری نہیں کھا سکیں گے۔ اور ہم فلاح کو سحری کا نام دیتے تھے اور تم ساتویں رات کو تئیسویں رات کہتے ہو، اور ہم ساتویں رات کو ستائیسویں رات کہتے ہیں۔ تو ہم زیادہ درست ہیں یا تم؟

تخریج الحدیث: اسناده حسن
1522.
1522. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین راتوں میں خصوصاً قیام، ان میں شب قدر کے ہونے کی وجہ سے کرایا تھا
حدیث نمبر: 2205
Save to word اعراب
حدثنا عبدة بن عبد الله ، حدثنا زيد ، حدثنا معاوية ، حدثني ابو الزاهرية ، عن جبير بن نفير الحضرمي ، عن ابي ذر ، قال: قام بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في شهر رمضان ليلة ثلاث وعشرين إلى ثلث الليل الاول، ثم قال:" ما احسب ما تطلبون إلا وراءكم"، ثم قام ليلة خمس وعشرين إلى نصف الليل، ثم قال:" ما احسب ما تطلبون إلا وراءكم"، ثم قمنا ليلة سبع وعشرين إلى الصبح . قال ابو بكر: هذه اللفظة:" إلا وراءكم"، هو عندي من باب الاضداد، ويريد: امامكم ؛ لان ما قد مضى هو وراء المرء، وما يستقبله هو امامه، والنبي صلى الله عليه وسلم إنما اراد:" ما احسب ما تطلبون" اي: ليلة القدر، إلا فيما تستقبلون، لا انها فيما مضى من الشهر، وهذا كقوله عز وجل: وكان وراءهم ملك ياخذ كل سفينة غصبا سورة الكهف آية 79. يريد: وكان امامهمحَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا زَيْدٌ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ ، حَدَّثَنِي أَبُو الزَّاهِرِيَّةِ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَامَ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لَيْلَةَ ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا أَحْسِبُ مَا تَطْلُبُونَ إِلا وَرَاءَكُمْ"، ثُمَّ قَامَ لَيْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا أَحْسِبُ مَا تَطْلُبُونَ إِلا وَرَاءَكُمْ"، ثُمَّ قُمْنَا لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ إِلَى الصُّبْحِ . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ:" إِلا وَرَاءَكُمْ"، هُوَ عِنْدِي مِنْ بَابِ الأَضْدَادِ، وَيُرِيدُ: أَمَامَكُمْ ؛ لأَنَّ مَا قَدْ مَضَى هُوَ وَرَاءُ الْمَرْءِ، وَمَا يَسْتَقْبِلُهُ هُوَ أَمَامُهُ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ:" مَا أَحْسِبُ مَا تَطْلُبُونَ" أَيْ: لَيْلَةَ الْقَدْرِ، إِلا فِيمَا تَسْتَقْبِلُونَ، لا أَنَّهَا فِيمَا مَضَى مِنَ الشَّهْرِ، وَهَذَا كَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا سورة الكهف آية 79. يُرِيدُ: وَكَانَ أَمَامَهُمْ
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں تئیسویں رات کو ہمیں پہلی تہائی رات تک نفل پڑھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ تم جسے تلاش کر رہے ہو وہ تمہارے آگے ہے۔ پھر پچیسویں رات کو آدھی رات تک قیام کیا۔ پھر فرمایا: میراخیال ہے کہ تمہاری مطلوبہ چیز آگے ہے۔ پھر ہم نے ستا ئیسویں رات کو صبح تک نفل پڑھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ الاّ وراءكم (تمہارے پیچھے) یہ میرے نزدیک المستدرک للحاکم ضداد کے باب سے ہے۔ اور آپ کی مراد اس سے آگے ہے کیونکہ جو چیز گزر جائے وہ آدمی کے پیچھے ہوتی ہے اور جو آنے والی ہو وہ اُس کے آگے ہوتی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ میرے خیال میں جو تم طلب کر رہے ہو یعنی شب قدر، تو وہ تمہارے آگے ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ گزشتہ دنوں میں تھی اور آپ کا یہ فرمان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے «‏‏‏‏وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا» ‏‏‏‏ [ سورة الكهف: 79 ] جب کہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی غصب کرلیتا تھا۔ آیت میں مذکور لفظ وَرَاءَهُم کا معنی بھی ان کے آگے ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
1523.
1523. رمضان المبارک کے قیام میں مقتدی کا امام کے ساتھ اُس کے فارغ ہونے تک مکمّل قیام اللیل کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2206
Save to word اعراب
حدثنا ابو قدامة عبيد الله بن سعيد ، حدثنا محمد بن الفضيل ، عن داود بن ابي هند ، عن الوليد بن عبد الرحمن ، عن جبير بن نفير الحضرمي ، عن ابي ذر ، قال: صمنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في رمضان، فلم يقم بنا حتى بقي سبع من الشهر، فقام بنا، حتى ذهب ثلث الليل، ثم لم يقم بنا، في السادسة، وقام بنا في الخامسة حتى ذهب شطر الليل، فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، لو نفلنا بقية ليلتنا هذه؟ قال:" إنه من قام مع الإمام حتى ينصرف، كتب له قيام ليلة". ثم لم يصل بنا حتى بقي ثلاث من الشهر، فقام بنا في الثالثة، وجمع اهله ونساءه فقام بنا، حتى تخوفنا ان يفوتنا الفلاح . قلت: وما الفلاح؟ قال: السحورحَدَّثَنَا أَبُو قُدَامَةَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَلَمْ يَقُمْ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا، حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا، فِي السَّادِسَةِ، وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْ نَفَّلْنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ؟ قَالَ:" إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ، كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ". ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا فِي الثَّالِثَةِ، وَجَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ فَقَامَ بِنَا، حَتَّى تَخَوَّفْنَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلاحُ . قُلْتُ: وَمَا الْفَلاحُ؟ قَالَ: السَّحُورُ
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رمضان المبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قیام نہیں کرایا۔ حتّیٰ کہ رمضان کے سات دن باقی رہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قیام کرایا حتّیٰ کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھٹی رات میں ہمیں قیام نہیں کرایا اور پانچویں رات ہمیں آدھی رات تک نفل پڑھائے تو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کاش آپ ہمیں ہماری بقیہ رات بھی نفل پڑھاتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ آپ نے فرمایا: بیشک جس شخص نے امام کے ساتھ قیام کیا حتّیٰ کہ امام فارغ ہوگیا تو اُس کے لئے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قیام نہ کرایا حتّیٰ کہ تین دن باقی رہ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری رات ہمیں قیام کرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں اور عورتوں کو بھی جمع کیا اور ہمیں اس قدر طویل قیام کرایا کہ ہمیں خطرہ ہوا کہ ہماری فلاح رہ جائے گی۔ میں نے عرض کی کہ فلاح کیا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ سحری کا کھانا۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1524.
1524. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے رمضان المبارک کی راتوں میں اس لئے قیام نہیں کی تھا کہ آپ ڈرگئے تھے کہ کہیں آپ کی اُمّت پر قیام اللیل فرض نہ کردیا جائے پھر وہ اس سے عاجز آجائیں گے
حدیث نمبر: 2207
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا عثمان بن عمر ، حدثنا يونس ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج في جوف الليل فصلى في المسجد، فصلى رجال بصلاته، فاصبح ناس يتحدثون بذلك، فلما كانت الليلة الثالثة كثر اهل المسجد، فخرج فصلى فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن اهله، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فطفق رجال منهم ينادون: الصلاة، فلا يخرج، فكمن رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى خرج لصلاة الفجر، فلما قضى الفجر قام فاقبل عليهم بوجهه، فتشهد، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" اما بعد ؛ فإنه لم يخف علي شانكم، ولكني خشيت ان تفترض عليكم صلاة الليل، فتعجزوا عنها". وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرغبهم في قيام رمضان من غير ان يامر بعزيمة امر، فيقول:" من صام رمضان إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه" . فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكان الامر كذلك في خلافة ابي بكر، وصدرا من خلافة عمر، حتى جمعهم عمر على ابي بن كعب، وصلى بهم، فكان ذلك اول ما اجتمع الناس على قيام رمضانحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلاتِهِ، فَأَصْبَحَ نَاسٌ يَتَحَدَّثُونَ بِذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الثَّالِثَةُ كَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ فَصَلَّى فَصَلُّوا بِصَلاتِهِ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَفِقَ رِجَالٌ مِنْهُمْ يُنَادُونَ: الصَّلاةَ، فَلا يَخْرُجُ، فَكَمُنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى خَرَجَ لِصَلاةِ الْفَجْرِ، فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ قَامَ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِهِ، فَتَشَهَّدَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ ؛ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ شَأْنُكُمْ، وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ صَلاةُ اللَّيْلِ، فَتَعْجِزُوا عَنْهَا". وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَغِّبُهُمْ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيمَةِ أَمْرٍ، فَيَقُولُ:" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ" . فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ الأَمْرُ كَذَلِكَ فِي خِلافَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلافَةِ عُمَرَ، حَتَّى جَمَعَهُمْ عُمَرُ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَصَلَّى بِهِمْ، فَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ مَا اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَى قِيَامِ رَمَضَانَ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کو گھر سے نکلے اور مسجد میں نفل نمازپڑھی تو کچھ صحابہ کرام نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تو صبح کے وقت لوگ آپس میں اس بارے میں بات چیت کرتے رہے۔ پھر جب تیسری رات ہوئی تو مسجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے مسجد میں تشریف لائے اور نماز ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھرجب چوتھی رات ہوئی تو لوگ مسجد میں پورے نہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس تشریف نہ لائے۔ پس کچھ لوگوں نے نماز، نماز پکارنا شروع کر دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لائے بلکہ اندر ہی تشریف فرما رہے۔ حتّیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے لئے باہر تشریف لائے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر مکمّل کرلی تو آپ کھڑے ہوئے، صحابہ کی طرف اپنے چہرہ اقدس کے ساتھ متوجہ ہوئے، تشہد پڑھا، اللہ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فریا: اما بعد، بیشک مجھ پر تمہاری آمد مخفی نہیں تھی لیکن مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر رات کی نفل نماز فرض نہ قرار دیدی جائے پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز آجاؤ گے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجوبی حُکم دیئے بغیر انہیں رمضان المبارک میں نفل نماز پڑھنے کی ترغیب اور شوق دلاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کی نیت سے رکھے تو اُس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی سالوں میں رات کی نماز کا طریقہ کار یہی رہا۔ حتّیٰ کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر جمع کردیا چنانچہ اُنہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ اس طرح لوگ پہلی مرتبہ رمضان المبارک میں قیام اللیل کے لئے جمع ہوئے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1525.
1525. رمضان المبارک میں قاری قرآن کا ان پڑھ لوگوں کو نفل نماز کی امامت کرانا۔ اس بات کی دلیل کے ساتھ کہ رمضان المبارک میں نفل نماز کی جماعت کرانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے، بدعت نہیں ہے، جیسا کہ رافضیوں کا خیال ہے
حدیث نمبر: Q2208
Save to word اعراب

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2208
Save to word اعراب
حدثنا الربيع بن سليمان المرادي ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرنا مسلم بن خالد ، عن العلاء بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، انه قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وإذا الناس في رمضان يصلون في ناحية المسجد، فقال:" ما هؤلاء؟" فقيل: هؤلاء ناس ليس معهم قرآن، وابي بن كعب يصلي بهم، وهم يصلون بصلاته. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اصابوا"، او" نعم ما صنعوا" حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِذَا النَّاسُ فِي رَمَضَانَ يُصَلُّونَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ:" مَا هَؤُلاءِ؟" فَقِيلَ: هَؤُلاءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِهِمْ، وَهُمْ يُصَلُّونَ بِصَلاتِهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَصَابُوا"، أَوْ" نِعْمَ مَا صَنَعُوا"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو اچانک کچھ لوگ رمضان المبارک میں مسجد کے ایک کونے میں نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: یہ لوگ کون ہیں؟ آپ سے عرض کیا گیا کہ ان لوگوں کو قرآن مجید یاد نہیں ہے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم نمازپڑھا رہے ہیں اور وہ ان کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں نے درست کام کیا ہے یا انہوں نے بہت اچھا طریقہ اختیار کیا ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف

1    2    3    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.