1518. اس بات کی دلیل کا بیان کہ رمضان المبارک میں قیام کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے، رافضی شیعہ کے دعوے کے بر خلاف جو کہتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قیام کرنا بدعت ہے سنّت نہیں ہے
جناب فضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسلمہ سے کہا، کیا آپ ہمیں کوئی ایسی حدیث نہیں سنائیں گے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ کیوں نہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض کیے ہیں اور میں نے مسلمانوں کے لئے اس کا قیام جاری کیا ہے۔ لہٰذا جس شخص نے ایمان و ثواب کی نیت سے اس مہینے کے روزے رکھے اور قیام کیا تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاک صاف ہو جائے گا جیسے وہ اُس دن تھا جب اُس کی ماں نے اُسے جنم دیا تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جس نے اس مہینے کے روزے رکھے اور قیام کیا۔۔۔“ آخر روایت تک، یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی صورت میں مشہور ہے۔ یہ پہلا حصّہ بلا شک وشبہ ثابت ہے۔ لیکن نضر بن شیبان کی سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حضرت عبدالرحمان سے روایت کردہ حصّہ ناپسند یدہ ہے۔ یہ الفاظ ان کا معنی اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کی روشنی میں صحیح ہے۔ لیکن اس سند سے صحیح نہیں ہے کیونکہ مجھے ڈرہے کہ یہ سند وہم ہے۔ مجھے ڈرہے کہ سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد گرامی سے کچھ نہیں سنا اور میرے علم کے مطابق اس روایت کو سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے بھی صرف نضر بن شیبان ہی روایت کرتا ہے (گویا ان دو اسباب کی بنا پر یہ سند ضعیف ہے)۔
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں قیام کرنے کا حُکم عزیمت و وجوب کے بغیر دیا کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے ”جس شخص نے ایمان وثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا، تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کریئے جاتے ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے رمضان المبارک کا قیام ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ کیا، اُس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔“
1521. رمضان المبارک میں باجماعت نفل نماز ادا کرنے کا بیان، اُن لوگوں کے قول کے برخلاف جن کا خیال ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے رمضان المبارک میں باجماعت نفل نماز ادا کرنے کا حُکم دیا
جناب نُعیم بن زیاد ابوطلحہ انصاری رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو حمص کے منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان المبارک کی تئیسویں رات کو تہائی رات تک قیام کیا پھر ہم نے پچسویں رات کو آدھی رات تک نفل پڑھے۔ پھر ہم نے ستائیسویں رات کو اتنا طویل قیام کیا کہ ہم خیال کرنے لگے کہ سحری نہیں کھا سکیں گے۔ اور ہم فلاح کو سحری کا نام دیتے تھے اور تم ساتویں رات کو تئیسویں رات کہتے ہو، اور ہم ساتویں رات کو ستائیسویں رات کہتے ہیں۔ تو ہم زیادہ درست ہیں یا تم؟
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں تئیسویں رات کو ہمیں پہلی تہائی رات تک نفل پڑھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ تم جسے تلاش کر رہے ہو وہ تمہارے آگے ہے۔ پھر پچیسویں رات کو آدھی رات تک قیام کیا۔ پھر فرمایا: ”میراخیال ہے کہ تمہاری مطلوبہ چیز آگے ہے۔ پھر ہم نے ستا ئیسویں رات کو صبح تک نفل پڑھے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ”الاّ وراءكم“(تمہارے پیچھے) یہ میرے نزدیک المستدرک للحاکم ضداد کے باب سے ہے۔ اور آپ کی مراد اس سے ”آگے“ ہے کیونکہ جو چیز گزر جائے وہ آدمی کے پیچھے ہوتی ہے اور جو آنے والی ہو وہ اُس کے آگے ہوتی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ میرے خیال میں جو تم طلب کر رہے ہو یعنی شب قدر، تو وہ تمہارے آگے ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ گزشتہ دنوں میں تھی اور آپ کا یہ فرمان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے «وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا» [ سورة الكهف: 79 ]”جب کہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی غصب کرلیتا تھا۔“ آیت میں مذکور لفظ ”وَرَاءَهُم“ کا معنی بھی ان کے آگے ہے۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رمضان المبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قیام نہیں کرایا۔ حتّیٰ کہ رمضان کے سات دن باقی رہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قیام کرایا حتّیٰ کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھٹی رات میں ہمیں قیام نہیں کرایا اور پانچویں رات ہمیں آدھی رات تک نفل پڑھائے تو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کاش آپ ہمیں ہماری بقیہ رات بھی نفل پڑھاتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ آپ نے فرمایا: ”بیشک جس شخص نے امام کے ساتھ قیام کیا حتّیٰ کہ امام فارغ ہوگیا تو اُس کے لئے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قیام نہ کرایا حتّیٰ کہ تین دن باقی رہ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری رات ہمیں قیام کرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں اور عورتوں کو بھی جمع کیا اور ہمیں اس قدر طویل قیام کرایا کہ ہمیں خطرہ ہوا کہ ہماری فلاح رہ جائے گی۔ میں نے عرض کی کہ فلاح کیا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ”سحری کا کھانا“۔
1524. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے رمضان المبارک کی راتوں میں اس لئے قیام نہیں کی تھا کہ آپ ڈرگئے تھے کہ کہیں آپ کی اُمّت پر قیام اللیل فرض نہ کردیا جائے پھر وہ اس سے عاجز آجائیں گے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کو گھر سے نکلے اور مسجد میں نفل نمازپڑھی تو کچھ صحابہ کرام نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تو صبح کے وقت لوگ آپس میں اس بارے میں بات چیت کرتے رہے۔ پھر جب تیسری رات ہوئی تو مسجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے مسجد میں تشریف لائے اور نماز ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھرجب چوتھی رات ہوئی تو لوگ مسجد میں پورے نہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس تشریف نہ لائے۔ پس کچھ لوگوں نے نماز، نماز پکارنا شروع کر دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لائے بلکہ اندر ہی تشریف فرما رہے۔ حتّیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے لئے باہر تشریف لائے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر مکمّل کرلی تو آپ کھڑے ہوئے، صحابہ کی طرف اپنے چہرہ اقدس کے ساتھ متوجہ ہوئے، تشہد پڑھا، اللہ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فریا: ”اما بعد، بیشک مجھ پر تمہاری آمد مخفی نہیں تھی لیکن مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر رات کی نفل نماز فرض نہ قرار دیدی جائے پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز آجاؤ گے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجوبی حُکم دیئے بغیر انہیں رمضان المبارک میں نفل نماز پڑھنے کی ترغیب اور شوق دلاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کی نیت سے رکھے تو اُس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی سالوں میں رات کی نماز کا طریقہ کار یہی رہا۔ حتّیٰ کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر جمع کردیا چنانچہ اُنہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ اس طرح لوگ پہلی مرتبہ رمضان المبارک میں قیام اللیل کے لئے جمع ہوئے۔
1525. رمضان المبارک میں قاری قرآن کا ان پڑھ لوگوں کو نفل نماز کی امامت کرانا۔ اس بات کی دلیل کے ساتھ کہ رمضان المبارک میں نفل نماز کی جماعت کرانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے، بدعت نہیں ہے، جیسا کہ رافضیوں کا خیال ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو اچانک کچھ لوگ رمضان المبارک میں مسجد کے ایک کونے میں نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”یہ لوگ کون ہیں؟“ آپ سے عرض کیا گیا کہ ان لوگوں کو قرآن مجید یاد نہیں ہے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم نمازپڑھا رہے ہیں اور وہ ان کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں نے درست کام کیا ہے یا انہوں نے بہت اچھا طریقہ اختیار کیا ہے۔“