سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں تئیسویں رات کو ہمیں پہلی تہائی رات تک نفل پڑھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ تم جسے تلاش کر رہے ہو وہ تمہارے آگے ہے۔ پھر پچیسویں رات کو آدھی رات تک قیام کیا۔ پھر فرمایا: ”میراخیال ہے کہ تمہاری مطلوبہ چیز آگے ہے۔ پھر ہم نے ستا ئیسویں رات کو صبح تک نفل پڑھے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ”الاّ وراءكم“(تمہارے پیچھے) یہ میرے نزدیک المستدرک للحاکم ضداد کے باب سے ہے۔ اور آپ کی مراد اس سے ”آگے“ ہے کیونکہ جو چیز گزر جائے وہ آدمی کے پیچھے ہوتی ہے اور جو آنے والی ہو وہ اُس کے آگے ہوتی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ میرے خیال میں جو تم طلب کر رہے ہو یعنی شب قدر، تو وہ تمہارے آگے ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ گزشتہ دنوں میں تھی اور آپ کا یہ فرمان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے «وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا» [ سورة الكهف: 79 ]”جب کہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی غصب کرلیتا تھا۔“ آیت میں مذکور لفظ ”وَرَاءَهُم“ کا معنی بھی ان کے آگے ہے۔