سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں روزہ توڑنے والے شخص کو حُکم دیا کہ وہ ایک گردن آزاد کرائے یا دو ماہ کے روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے - امام مالک نے اپنی روایت کے بعد فرمایا کہ اس شخص نے اپنی بیوی سے جماع کرکے روزہ توڑا تھا ـ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عر ض کی کہ میں ہلاک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تجھے کس چیز نے ہلاک کیا ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ میں نے ماہ رمضان میں (دن کے وقت روزے کی حالت میں) اپنی بیوی سے ہم بستری کرلی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم ایک گردن آزاد کرنے کی استطاعت رکھتے ہو؟“ اُس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تو کیا تم دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟“ اُس نے عرض کی کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ” تو کیا تم ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا سکتے ہو؟“ اُس نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ۔“ تو وہ شخص بیٹھ گیا۔ پھر اس اثنا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ٹوکرا لے لو اور یہ کھجوریں صدقہ کر دو ـ“ تو اُس نے عرض کی اے اللہ کے رسول، کیا میں اپنے سے زیادہ غریب لوگوں پر صدقہ کروں؟ تو مدینہ منوّرہ کے دونوں پتھریلے اطراف کے درمیان ہم سے زیادہ غریب گھرانہ کوئی نہیں ہے ـ اس بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوب ہنسے حتّیٰ کہ آپ کے کچلی والے دانت مبارک ظاہر ہوگئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔“
1339. امام کا رمضان المبارک کے دن میں جماع کرکے روزہ توڑنے والے کو کفّارہ ادا کرنے کے لئے عطیہ دینا جبکہ اس کے پاس کفّارہ ادا کرنے کے لئے کچھ موجود نہ ہو۔ اس دلیل کے ساتھ کہ رمضان المبارک کے دن میں ہمبستری کرکے روزہ توڑںے والے کے پاس اگر ہمبستری کے وقت کفارہ ادا کرنے کی طاقت نہ ہوتو پھر اُسے کفّارہ ادا کرنے کی طاقت حاصل ہوجائے تو اُس پر کفّارہ ادا کرنا واجب ہوگا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے کہنے لگا کہ اس بد نصیب نے رمضان مبارک میں (دن کے وقت) اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: ”کیا تیرے پاس گردن آزاد کرنے کی طاقت ہے؟“ اُس نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا تم دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟“ اُس نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”کیا تمہارے پاس ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی گنجائش ہے؟“ اُس نے عرض کی کہ نہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ اسے زنبیل کہتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی طرف سے یہ کھجوریں (مسا کین کو) کھلا دو۔“ تو اُس نے عرض کی کہ مدینے کے دو پتھر یلے کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ محتاج کوئی گھرانہ نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔“
1340. اس مختصر روایت کا بیان جس سے بعض حجازی علماء کو وہم ہوا کہ رمضان المبارک کے دن میں بیوی سے جماع کرنے والے شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ کفّارے میں مساکین کو کھانا کھلادے اگرچہ وہ گردن آزاد کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور دو ماہ مسلسل روزے رکھنے کی استطاعت بھی رکھتا ہو
سیدہ عائشہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص رمضان المبارک میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے ﷲ کے رسول، میں برباد ہوگیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس پوچھا: ”اسے کیا ہوا ہے؟“ تو اُس نے بتایا کہ میں نے اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ کرو۔“ اُس نے کہا کہ اللہ کی قسم، میرے پاس کچھ نہیں اور نہ میں صدقہ کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ“ تو وہ بیٹھ گیا۔ اسی اثنا میں کہ وہ بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص گدھا ہانکتا ہوا آگیا، جس پر کھانا لدا ہوا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” برباد ہونے والا شخص کہاں ہے؟“ تو وہ شخص کھڑا ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ غلہ صدقہ کردو۔ تو اُس نے عر ض کی کہ کیا اپنے علاوہ کسی اور پر صدقہ کروں؟ اللہ کی قسم، ہم خود بھوکے ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم ہی اسے کھالو۔“ جناب عبدالحکم کی روایت میں ہے کہ اُس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، کیا اپنے علاوہ کسی اور شخص پر صدقہ کروں اللہ کی قسم (ہم توخود بھوکے اور محتاج ہیں) ـ
1341. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماع کرنے والے شخص کو صدقہ کرنے کا حُکم اس کی اس اطلاع کے بعد دیا تھا کہ وہ ایک گردن آزاد نہیں کرسکتا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُس نے بتادیا ہو کہ وہ دو ماہ کے مسلسل روزے بھی نہیں رکھ سکتا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات میں ہے۔ لہٰذا یہ روایت مختصر بیان کی ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلند سائے میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس بنی بیاض کا ایک شخص آیا اور اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے نبی، میں برباد ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: ”تمہیں کیا ہوا ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ میں نے اپنی بیوں سے (روزے کی حالت میں) ہمبستری کرلی ہے۔ اور یہ کام رمضان المبارک میں کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حُکم دیا: ”ایک گردن آزاد کرو ـ“ اُس نے کہا کہ میرے پاس گردن آزاد کرنے کی طاقت نہیں ہے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو ـ“ اُس نے عرض کی کہ میرے پاس (اتنا اناج بھی) نہیں ہے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ“ تو وہ بیٹھ گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا جس میں بیس صاع (کھجوریں) تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابھی ابھی سوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول، میں یہ حاضر ہوں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لے لو اور اس کا صدقہ کر دو ـ“ اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کیا میں اپنے اور اپنے گھر والوں سے زیادہ محتاج اور فقیر پر صدقہ کروں؟ تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے آج رات ہمارے پاس رات کا کھانا بھی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر اسے اپنے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرلے۔“ اس روایت میں روزوں کا ذکر نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، اگر یہ الفاظ ثابت ہوجائیں کہ ” ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں بیس صاع اناج تھا“ تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماع کرنے والے کو حُکم دیا ہے کہ ”وہ ہر مسکین کو ایک تہائی صاع کھجوریں دے دے۔“ کیونکہ بیس صاع جب ساٹھ مساکین میں تقسیم کریںگے تو ہر مسکین کو تہائی صاع ملے گا ـ لیکن میرا خیال نہیں کہ یہ الفاظ ثابت ہوں۔ کیونکہ امام زہری رحمه الله کی روایت میں ہے۔ ”ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں پندرہ یا بیس صاع کھجور یں تھیں۔“ یہ امام زہری سے منصور بن معتمر کی خبر ہے۔ جبکہ ہقل بن زیاد نے امام اوزاعی کے واسطے سے امام زہری سے بیان کیا ہے کہ پندرہ صاع میں یہ دونوں روایات بعد میں بیان کردی ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کسی حجازی یا عراقی عالم دین نے یہ فتویٰ دیا ہو کہ رمضان میں جماع کے کفّارے میں ہر مسکین کو تہائی صاع کھلائے ـ حجاز کے علماء کہتے ہیں کہ وہ ہر مسکین کو ایک مد کھانا کھلا دے، وہ کھجوریں ہوں یا دیگر اناج ـ جبکہ عراقی علماء کہتے ہیں کہ ہر مسکین کو ایک صاع کھجوریں کھلائے۔ جبکہ تہائی صاع کے متعلق میری معلومات کے مطابق کسی نے نہیں کہا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ اس روایت میں دوماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا حُکم اس لئے چھوڑ دیا گیا ہو کیونکہ اس روایت میں یہ سوال رمضان المبارک کے دوران مہینہ مکمّل ہونے سے پہلے کیا گیا ہے ـ جبکہ اس گناہ کی وجہ سے دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کی ابتدا رمضان المبارک کے مکمّل ہونے اور شوال کا ایک دن گزرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماع کرنے والے کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حُکم دیا کیونکہ اگر جماع کرنے والا مساکین کو کھانا کھلانے کی قدرت رکھتا ہو تو رمضان المبارک میں یہ کفّارہ ادا کرنا ممکن ہے۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ حُکم دیا ہے جس پر عمل کرنا فوری ممکن تھا اور اس کا حُکم نہیں دیا جس پر عمل کرنا کئی دن اور راتوں کے بعد ہی ممکن تھا۔ واللہ اعلم۔ اور مجھے یاد نہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کسی روایت میں یہ مذکور ہو کہ جماع کرنے والے کا سوال ماہ رمضان کے مکمّل ہونے سے پہلے تھا۔ لہٰذا اگر یہ سوال رمضان المبارک کے بعد ہو تو پھر اسے دو ماہ کے روزے رکھنے کا حُکم بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس وقت ہی کفّارے کے طور پر روزے رکھنا جائز وممکن ہے۔
1342. اس بات کی دلیل کا بیان کہ رمضان میں جماع کرنے والا شخص جب ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانے کی ملکیت رکھتا ہو لیکن اُس کے پاس اپنی اور اپنے گھر والوں کو خوراک میسر نہ ہو تو اُس پر کفّارہ واجب نہیں ہے
امام بو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یہ الفا ظ آئے ہیں کہ ”بیشک ہم خود بھوکے ہیں، ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔“ یہ بات عمر بن حارث کی روایت میں ہے اور عبدالرحمٰن بن حارث کی روایت میں ہے۔ ”ہمارے پاس رات کا کھانا بھی نہیں ہے۔“ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ ”مدینہ منوّرہ کے دو پتھر یلے علاقوں کے درمیان ہم سے زیادہ محتاج اور تنگ دست کوئی نہیں ہے۔“
1343. رمضان المبارک کا روزہ جماع کرکے توڑنے کا گناہ کرنے والے شخص کو استغفار کرنے کا حُکم دینے کا بیان۔ جبکہ وہ گردن آزاد کرنے اور کھانا کھلانے کا کفّارہ ادا نہ کرسکتا ہو اور نہ وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتا ہو۔ اور رمضان المبارک میں جماع کرنے کا کفّارہ کھجوریں کھلا کر ادا کرنے کے حُکم کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس اثنا میں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول، میں ہلاک ہوگیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا بھلا ہو تمہیں کیا ہوا ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک گردن آزاد کرو۔“ اُس نے کہا کہ میرے پاس گردن آزاد کرنے کی قوت نہیں ہے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو ـ“ اُس نے عرض کی کہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا: ”ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا دو“ اُس نے کہا کہ میرے پاس اتنا اناج بھی نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹوکرا لے لو اور اس کا صدقہ کردو۔“ وہ کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول، میں اپنے گھر والوں سے زیادہ اس کا حقدار کسی کو نہیں پاتا، مدینہ منوّرہ کے دونوں کناروں کے درمیان مجھ سے زیادہ اس کا محتاج کوئی نہیں ہے۔ تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خوب ہنس دیئے حتّیٰ کہ آپ کے نوکیلے دانت مبارک ظاہر ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے لو اور ﷲ تعالیٰ سے بخشش مانگو۔“