صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
روزہ دار کا روزہ توڑنے والے افعال کے ابواب کا مجموعہ
1337.
1337. دن کے وقت روزے کو جماع کے ساتھ توڑنے والے کا بیان
حدیث نمبر: 1943
Save to word اعراب
حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، ان مالكا حدثه. ح وحدثنا الربيع بن سليمان ، قال: قال الشافعي : اخبرنا مالك، عن ابن شهاب ، عن حميد بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة. ح وحدثنا عمرو بن علي ، حدثنا ابو عاصم ، عن ابن جريج ، حدثني الزهري . ح وحدثنا محمد بن تسنيم ، اخبرنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، حدثني الزهري ، عن حميد بن عبد الرحمن ، ان ابا هريرة حدثه،" ان النبي صلى الله عليه وسلم امر رجلا افطر في شهر رمضان بعتق رقبة , او صيام شهرين , او إطعام ستين مسكينا" . وقال مالك في عقب خبره: وكان فطره بجماعحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَنَّ مَالِكًا حَدَّثَهُ. ح وَحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: قَالَ الشَّافِعِيُّ : أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. ح وَحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ تَسْنِيمٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلا أَفْطَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِتْقِ رَقَبَةٍ , أَوْ صِيَامِ شَهْرَيْنِ , أَوْ إِطْعَامِ سِتِّينَ مِسْكِينًا" . وَقَالَ مَالِكٌ فِي عَقِبِ خَبَرِهِ: وَكَانَ فِطْرُهُ بِجِمَاعٍ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں روزہ توڑنے والے شخص کو حُکم دیا کہ وہ ایک گردن آزاد کرائے یا دو ماہ کے روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے - امام مالک نے اپنی روایت کے بعد فرمایا کہ اس شخص نے اپنی بیوی سے جماع کرکے روزہ توڑا تھا ـ

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1338.
1338. رمضان المبارک میں بیوی سے ہمبستری کرکے روزہ توڑنے والے شخص پر کفّارہ واجب ہے
حدیث نمبر: Q1944
Save to word اعراب

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1944
Save to word اعراب
حدثنا عبد الجبار بن العلاء ، نا سفيان ، قال: حفظته من في الزهري , سمع حميد بن عبد الرحمن يخبر , عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: هلكت. فقال:" وما اهلكك؟" قال: وقعت على امراتي في شهر رمضان. فقال:" هل تستطيع ان تعتق رقبة؟" قال: لا. قال:" فهل تستطيع ان تصوم شهرين متتابعين؟" قال: لا. قال:" فهل تستطيع ان تطعم ستين مسكينا؟" قال: لا. قال:" اجلس" , فجلس , فاتي النبي صلى الله عليه وسلم بعرق فيه تمر , قال: والعرق هو المكتل الضخم , قال:" خذ هذا فتصدق به". فقال: يا رسول الله , اعلى اهل بيت افقر منا؟ فما بين لابتيها اهل بيت افقر منا. فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت انيابه , وقال:" اذهب فاطعم اهلك" حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، نا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَفِظْتُهُ مِنْ فِي الزُّهْرِيِّ , سَمِعَ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُخْبِرُ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَلَكْتُ. فَقَالَ:" وَمَا أَهْلَكَكَ؟" قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي شَهْرِ رَمَضَانَ. فَقَالَ:" هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُعْتِقَ رَقَبَةً؟" قَالَ: لا. قَالَ:" فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟" قَالَ: لا. قَالَ:" فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟" قَالَ: لا. قَالَ:" اجْلِسْ" , فَجَلَسَ , فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ , قَالَ: وَالْعَرَقُ هُوَ الْمِكْتَلُ الضَّخْمُ , قَالَ:" خُذْ هَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ". فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَعَلَى أَهْلِ بَيْتٍ أَفْقَرَ مِنَّا؟ فَمَا بَيْنَ لابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرَ مِنَّا. فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ , وَقَالَ:" اذْهَبْ فَأَطْعِمْ أَهْلَكَ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عر ض کی کہ میں ہلاک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تجھے کس چیز نے ہلاک کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ میں نے ماہ رمضان میں (دن کے وقت روزے کی حالت میں) اپنی بیوی سے ہم بستری کرلی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم ایک گردن آزاد کرنے کی استطاعت رکھتے ہو؟ اُس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو کیا تم دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟ اُس نے عرض کی کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو کیا تم ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اُس نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جاؤ۔ تو وہ شخص بیٹھ گیا۔ پھر اس اثنا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ٹوکرا لے لو اور یہ کھجوریں صدقہ کر دو ـ تو اُس نے عرض کی اے اللہ کے رسول، کیا میں اپنے سے زیادہ غریب لوگوں پر صدقہ کروں؟ تو مدینہ منوّرہ کے دونوں پتھریلے اطراف کے درمیان ہم سے زیادہ غریب گھرانہ کوئی نہیں ہے ـ اس بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوب ہنسے حتّیٰ کہ آپ کے کچلی والے دانت مبارک ظاہر ہوگئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1339.
1339. امام کا رمضان المبارک کے دن میں جماع کرکے روزہ توڑنے والے کو کفّارہ ادا کرنے کے لئے عطیہ دینا جبکہ اس کے پاس کفّارہ ادا کرنے کے لئے کچھ موجود نہ ہو۔ اس دلیل کے ساتھ کہ رمضان المبارک کے دن میں ہمبستری کرکے روزہ توڑںے والے کے پاس اگر ہمبستری کے وقت کفارہ ادا کرنے کی طاقت نہ ہوتو پھر اُسے کفّارہ ادا کرنے کی طاقت حاصل ہوجائے تو اُس پر کفّارہ ادا کرنا واجب ہوگا
حدیث نمبر: Q1945
Save to word اعراب

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1945
Save to word اعراب
حدثنا يوسف بن موسى ، نا جرير ، عن منصور ، عن محمد بن مسلم الزهري ، عن حميد بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال له: إن الآخر وقع على امراته في رمضان. قال: فقال له:" اتجد ما تحرر رقبة؟" قال: لا. قال:" افتستطيع ان تصوم شهرين متتابعين؟" قال: لا. قال:" افتجد ما تطعم ستين مسكينا؟" قال: لا. قال: فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرق فيه تمر وهو الزنبيل , فقال:" اطعم هذا عنك". فقال: ما بين لابتيها اهل بيت احوج منا، قال:" فاطعم اهلك" حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، نا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ لَهُ: إِنَّ الآخَرَ وَقَعَ عَلَى امْرَأَتِهِ فِي رَمَضَانَ. قَالَ: فَقَالَ لَهُ:" أَتَجِدُ مَا تُحَرِّرُ رَقَبَةً؟" قَالَ: لا. قَالَ:" أَفَتَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟" قَالَ: لا. قَالَ:" أَفَتَجِدُ مَا تُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟" قَالَ: لا. قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ وَهُوَ الزِّنْبِيلُ , فَقَالَ:" أَطْعِمْ هَذَا عَنْكَ". فَقَالَ: مَا بَيْنَ لابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجَ مِنَّا، قَالَ:" فَأَطْعِمْ أَهْلَكَ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے کہنے لگا کہ اس بد نصیب نے رمضان مبارک میں (دن کے وقت) اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: کیا تیرے پاس گردن آزاد کرنے کی طاقت ہے؟ اُس نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا تم دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟ اُس نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کیا تمہارے پاس ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی گنجائش ہے؟ اُس نے عرض کی کہ نہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ اسے زنبیل کہتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی طرف سے یہ کھجوریں (مسا کین کو) کھلا دو۔ تو اُس نے عرض کی کہ مدینے کے دو پتھر یلے کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ محتاج کوئی گھرانہ نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1340.
1340. اس مختصر روایت کا بیان جس سے بعض حجازی علماء کو وہم ہوا کہ رمضان المبارک کے دن میں بیوی سے جماع کرنے والے شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ کفّارے میں مساکین کو کھانا کھلادے اگرچہ وہ گردن آزاد کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور دو ماہ مسلسل روزے رکھنے کی استطاعت بھی رکھتا ہو
حدیث نمبر: 1946
Save to word اعراب
نا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب . ح واخبرني ابن عبد الحكم ، ان ابن وهب اخبرهم، قال: اخبرني عمرو بن الحارث، ان عبد الرحمن بن القاسم حدثه، ان محمد بن جعفر بن الزبير حدثه , ان عباد بن عبد الله بن الزبير حدثه، انه سمع عائشة ، تقول: اتى رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد في رمضان، فقال: يا رسول الله , احترقت , فساله النبي صلى الله عليه وسلم ما شانه. فقال: اصبت اهلي. قال:" تصدق". قال: والله ما لي شيء وما اقدر عليه. قال:" اجلس". فجلس , فبينما هو على ذلك، اقبل رجل يسوق حمارا عليه طعام , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اين المحترق؟" , فقام الرجل , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تصدق بهذا". فقال: على غيرنا. فوالله إنا لجياع , وما لنا شيء. قال:" فكلوه" . وقال ابن عبد الحكم: قال: يا رسول الله , اغيرنا فواللهنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ . ح وَأَخْبَرَنِي ابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ ، أَنَّ ابْنَ وَهْبٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ , أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , احْتَرَقْتُ , فَسَأَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُهُ. فَقَالَ: أَصَبْتُ أَهْلِيَ. قَالَ:" تَصَدَّقْ". قَالَ: وَاللَّهِ مَا لِي شَيْءٌ وَمَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ. قَالَ:" اجْلِسْ". فَجَلَسَ , فَبَيْنَمَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ، أَقْبَلَ رَجُلٌ يَسُوقُ حِمَارًا عَلَيْهِ طَعَامٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ؟" , فَقَامَ الرَّجُلُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَصَدَّقْ بِهَذَا". فَقَالَ: عَلَى غَيْرِنَا. فَوَاللَّهِ إِنَّا لَجِيَاعٌ , وَمَا لَنَا شَيْءٌ. قَالَ:" فَكُلُوهُ" . وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ: قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَغَيْرَنَا فَوَاللَّهِ
سیدہ عائشہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص رمضان المبارک میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے ﷲ کے رسول، میں برباد ہوگیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس پوچھا: اسے کیا ہوا ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ میں نے اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ کرو۔ اُس نے کہا کہ اللہ کی قسم، میرے پاس کچھ نہیں اور نہ میں صدقہ کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ اسی اثنا میں کہ وہ بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص گدھا ہانکتا ہوا آگیا، جس پر کھانا لدا ہوا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برباد ہونے والا شخص کہاں ہے؟ تو وہ شخص کھڑا ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ غلہ صدقہ کردو۔ تو اُس نے عر ض کی کہ کیا اپنے علاوہ کسی اور پر صدقہ کروں؟ اللہ کی قسم، ہم خود بھوکے ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم ہی اسے کھالو۔ جناب عبدالحکم کی روایت میں ہے کہ اُس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، کیا اپنے علاوہ کسی اور شخص پر صدقہ کروں اللہ کی قسم (ہم توخود بھوکے اور محتاج ہیں) ـ

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1341.
1341. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماع کرنے والے شخص کو صدقہ کرنے کا حُکم اس کی اس اطلاع کے بعد دیا تھا کہ وہ ایک گردن آزاد نہیں کرسکتا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُس نے بتادیا ہو کہ وہ دو ماہ کے مسلسل روزے بھی نہیں رکھ سکتا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات میں ہے۔ لہٰذا یہ روایت مختصر بیان کی ہے
حدیث نمبر: 1947
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن سعيد الدارمي ، حدثنا مصعب بن عبد الله ، نا عبد العزيز بن محمد بن ابي عبيدة الدراوردي ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن ابي ربيعة المخزومي ، عن محمد بن جعفر بن الزبير ، عن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن عائشة ، انها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم في ظل فارع , فاتاه رجل من بني بياضة , فقال: يا نبي الله، احترقت. قال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ما لك؟" قال: وقعت بامراتي، وانا صائم، وذلك في رمضان , فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اعتق رقبة". قال: لا اجده. قال:" اطعم ستين مسكينا". قال: ليس عندي. قال:" اجلس" , فجلس , فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرق فيه عشرون صاعا , فقال:" اين السائل آنفا؟" قال: ها انا ذا يا رسول الله. قال:" خذ هذا فتصدق به". قال: يا رسول الله , على احوج مني ومن اهلي؟!! فوالذي بعثك بالحق ما لنا عشاء ليلة. قال النبي صلى الله عليه وسلم:" فعد به عليك وعلى اهلك" . لم يذكر الصوم في الخبر. قال ابو بكر: إن ثبتت هذه اللفظة بعرق فيه عشرون صاعا , فإن النبي صلى الله عليه وسلم امر هذا المجامع ان يطعم كل مسكين ثلث صاع من تمر ؛ لان عشرين صاعا إذا قسم بين ستين مسكينا كان لكل مسكين ثلث صاع , ولست احسب هذه اللفظة ثابتة , فإن في خبر الزهري: اتي بمكتل فيه خمسة عشر صاعا , او عشرون صاعا. هذا في خبر منصور بن المعتمر , عن الزهري. فاما هقل بن زياد فإنه روى، عن الاوزاعي، عن الزهري، قال: خمسة عشر صاعا. قد خرجتهما بعد , ولا اعلم احدا من علماء الحجاز، والعراق، قال: يطعم في كفارة الجماع كل مسكين ثلث صاع في رمضان. قال اهل الحجاز: يطعم كل مسكين مدا من طعام , تمرا كان او غيره. وقال العراقيون: يطعم كل مسكين صاعا من تمر. فاما ثلث صاع، فلست احفظ عن احد منهم. قال ابو بكر: قد يجوز ان يكون ترك ذكر الامر بصيام شهرين متتابعين في هذا الخبر إنما كان لان السؤال في هذا الخبر إنما كان في رمضان قبل ان يقضي الشهر , وصيام شهرين متتابعين لهذه الحوبة لا يمكن الابتداء فيه إلا بعد ان يقضي شهر رمضان، وبعد مضي يوم من شوال. فامر النبي صلى الله عليه وسلم المجامع بإطعام ستين مسكينا , إذ الإطعام ممكن في رمضان لو كان المجامع مالكا لقدر الإطعام , فامره النبي صلى الله عليه وسلم مما يجوز له فعله معجلا , دون ما لا يجوز له فعله إلا بعد مضي ايام وليالي , والله اعلم. ولست احفظ في شيء من اخبار ابي هريرة ان السؤال من المجامع قبل ان ينقضي شهر رمضان , فجاز إذا كان السؤال بعد مضي رمضان ان يؤمر بصيام شهرين ؛ لان الصيام في ذلك الوقت للكفارة جائزةحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُبَيْدَةَ الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلٍّ فَارِعٍ , فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي بَيَاضَةَ , فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، احْتَرَقْتُ. قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَكَ؟" قَالَ: وَقَعْتُ بِامْرَأَتِي، وَأَنَا صَائِمٌ، وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ , فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْتِقْ رَقَبَةً". قَالَ: لا أَجِدُهُ. قَالَ:" أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا". قَالَ: لَيْسَ عِنْدِي. قَالَ:" اجْلِسْ" , فَجَلَسَ , فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ عِشْرُونَ صَاعًا , فَقَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ آنِفًا؟" قَالَ: هَا أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:" خُذْ هَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ". قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , عَلَى أَحْوَجَ مِنِّي وَمِنْ أَهْلِي؟!! فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا لَنَا عَشَاءُ لَيْلَةٍ. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَعُدْ بِهِ عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِكَ" . لَمْ يُذْكَرِ الصَّوْمُ فِي الْخَبَرِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنْ ثَبَتَتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ بِعَرَقٍ فِيهِ عِشْرُونَ صَاعًا , فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ هَذَا الْمُجَامِعَ أَنْ يُطْعِمَ كُلَّ مِسْكِينٍ ثُلُثَ صَاعٍ مِنْ تَمْرٍ ؛ لأَنَّ عِشْرِينَ صَاعًا إِذَا قُسِّمَ بَيْنَ سِتِّينَ مِسْكِينًا كَانَ لِكُلِّ مِسْكِينٍ ثُلُثُ صَاعٍ , وَلَسْتُ أَحْسِبُ هَذِهِ اللَّفْظَةَ ثَابِتَةً , فَإِنَّ فِي خَبَرِ الزُّهْرِيِّ: أُتِيَ بِمِكْتَلٍ فِيهِ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا , أَوْ عِشْرُونَ صَاعًا. هَذَا فِي خَبَرِ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ , عَنِ الزُّهْرِيِّ. فَأَمَّا هِقْلُ بْنُ زِيَادٍ فَإِنَّهُ رَوَى، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا. قَدْ خَرَّجْتُهُمَا بَعْدُ , وَلا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْ عُلَمَاءِ الْحِجَازِ، وَالْعِرَاقِ، قَالَ: يُطْعِمُ فِي كَفَّارَةِ الْجِمَاعِ كُلَّ مِسْكِينٍ ثُلُثَ صَاعٍ فِي رَمَضَانَ. قَالَ أَهْلُ الْحِجَازِ: يُطْعِمُ كُلَّ مِسْكِينٍ مُدًّا مِنْ طَعَامٍ , تَمْرًا كَانَ أَوْ غَيْرَهُ. وَقَالَ الْعِرَاقِيُّونَ: يُطْعِمُ كُلَّ مِسْكِينٍ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ. فَأَمَّا ثُلُثُ صَاعٍ، فَلَسْتُ أَحْفَظُ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ تَرْكُ ذِكْرِ الأَمْرِ بِصِيَامِ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ فِي هَذَا الْخَبَرِ إِنَّمَا كَانَ لأَنَّ السُّؤَالَ فِي هَذَا الْخَبَرِ إِنَّمَا كَانَ فِي رَمَضَانَ قَبْلَ أَنْ يَقْضِيَ الشَّهْرَ , وَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ لِهَذِهِ الْحَوْبَةِ لا يُمْكِنُ الابْتِدَاءُ فِيهِ إِلا بَعْدَ أَنْ يَقْضِيَ شَهْرَ رَمَضَانَ، وَبَعْدَ مُضِيِّ يَوْمٍ مِنْ شَوَّالٍ. فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُجَامِعَ بِإِطْعَامِ سِتِّينَ مِسْكِينًا , إِذِ الإِطْعَامُ مُمْكِنٌ فِي رَمَضَانَ لَوْ كَانَ الْمُجَامِعُ مَالِكًا لِقَدْرِ الإِطْعَامِ , فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَجُوزُ لَهُ فِعْلُهُ مُعَجِّلا , دُونَ مَا لا يَجُوزُ لَهُ فِعْلُهُ إِلا بَعْدَ مُضِيِّ أَيَّامٍ وَلَيَاليٍ , وَاللَّهُ أَعْلَمُ. وَلَسْتُ أَحْفَظُ فِي شَيْءٍ مِنْ أَخْبَارِ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ السُّؤَالَ مِنَ الْمُجَامِعِ قَبْلَ أَنْ يَنْقَضِيَ شَهْرُ رَمَضَانَ , فَجَازَ إِذَا كَانَ السُّؤَالُ بَعْدَ مُضِيِّ رَمَضَانَ أَنْ يُؤْمَرَ بِصِيَامِ شَهْرَيْنِ ؛ لأَنَّ الصِّيَامَ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ لِلْكَفَّارَةِ جَائِزَةٌ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلند سائے میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس بنی بیاض کا ایک شخص آیا اور اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے نبی، میں برباد ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ میں نے اپنی بیوں سے (روزے کی حالت میں) ہمبستری کرلی ہے۔ اور یہ کام رمضان المبارک میں کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حُکم دیا: ایک گردن آزاد کرو ـ اُس نے کہا کہ میرے پاس گردن آزاد کرنے کی طاقت نہیں ہے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو ـ اُس نے عرض کی کہ میرے پاس (اتنا اناج بھی) نہیں ہے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا جس میں بیس صاع (کھجوریں) تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابھی ابھی سوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول، میں یہ حاضر ہوں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لے لو اور اس کا صدقہ کر دو ـ اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کیا میں اپنے اور اپنے گھر والوں سے زیادہ محتاج اور فقیر پر صدقہ کروں؟ تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے آج رات ہمارے پاس رات کا کھانا بھی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اسے اپنے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرلے۔ اس روایت میں روزوں کا ذکر نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، اگر یہ الفاظ ثابت ہوجائیں کہ ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں بیس صاع اناج تھا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماع کرنے والے کو حُکم دیا ہے کہ وہ ہر مسکین کو ایک تہائی صاع کھجوریں دے دے۔ کیونکہ بیس صاع جب ساٹھ مساکین میں تقسیم کریںگے تو ہر مسکین کو تہائی صاع ملے گا ـ لیکن میرا خیال نہیں کہ یہ الفاظ ثابت ہوں۔ کیونکہ امام زہری رحمه الله کی روایت میں ہے۔ ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں پندرہ یا بیس صاع کھجور یں تھیں۔ یہ امام زہری سے منصور بن معتمر کی خبر ہے۔ جبکہ ہقل بن زیاد نے امام اوزاعی کے واسطے سے امام زہری سے بیان کیا ہے کہ پندرہ صاع میں یہ دونوں روایات بعد میں بیان کردی ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کسی حجازی یا عراقی عالم دین نے یہ فتویٰ دیا ہو کہ رمضان میں جماع کے کفّارے میں ہر مسکین کو تہائی صاع کھلائے ـ حجاز کے علماء کہتے ہیں کہ وہ ہر مسکین کو ایک مد کھانا کھلا دے، وہ کھجوریں ہوں یا دیگر اناج ـ جبکہ عراقی علماء کہتے ہیں کہ ہر مسکین کو ایک صاع کھجوریں کھلائے۔ جبکہ تہائی صاع کے متعلق میری معلومات کے مطابق کسی نے نہیں کہا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ اس روایت میں دوماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا حُکم اس لئے چھوڑ دیا گیا ہو کیونکہ اس روایت میں یہ سوال رمضان المبارک کے دوران مہینہ مکمّل ہونے سے پہلے کیا گیا ہے ـ جبکہ اس گناہ کی وجہ سے دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کی ابتدا رمضان المبارک کے مکمّل ہونے اور شوال کا ایک دن گزرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماع کرنے والے کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حُکم دیا کیونکہ اگر جماع کرنے والا مساکین کو کھانا کھلانے کی قدرت رکھتا ہو تو رمضان المبارک میں یہ کفّارہ ادا کرنا ممکن ہے۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ حُکم دیا ہے جس پر عمل کرنا فوری ممکن تھا اور اس کا حُکم نہیں دیا جس پر عمل کرنا کئی دن اور راتوں کے بعد ہی ممکن تھا۔ واللہ اعلم۔ اور مجھے یاد نہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کسی روایت میں یہ مذکور ہو کہ جماع کرنے والے کا سوال ماہ رمضان کے مکمّل ہونے سے پہلے تھا۔ لہٰذا اگر یہ سوال رمضان المبارک کے بعد ہو تو پھر اسے دو ماہ کے روزے رکھنے کا حُکم بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس وقت ہی کفّارے کے طور پر روزے رکھنا جائز وممکن ہے۔

تخریج الحدیث:
1342.
1342. اس بات کی دلیل کا بیان کہ رمضان میں جماع کرنے والا شخص جب ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانے کی ملکیت رکھتا ہو لیکن اُس کے پاس اپنی اور اپنے گھر والوں کو خوراک میسر نہ ہو تو اُس پر کفّارہ واجب نہیں ہے
حدیث نمبر: 1948
Save to word اعراب
امام بو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یہ الفا ظ آئے ہیں کہ بیشک ہم خود بھوکے ہیں، ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ یہ بات عمر بن حارث کی روایت میں ہے اور عبدالرحمٰن بن حارث کی روایت میں ہے۔ ہمارے پاس رات کا کھانا بھی نہیں ہے۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ مدینہ منوّرہ کے دو پتھر یلے علاقوں کے درمیان ہم سے زیادہ محتاج اور تنگ دست کوئی نہیں ہے۔

تخریج الحدیث:
1343.
1343. رمضان المبارک کا روزہ جماع کرکے توڑنے کا گناہ کرنے والے شخص کو استغفار کرنے کا حُکم دینے کا بیان۔ جبکہ وہ گردن آزاد کرنے اور کھانا کھلانے کا کفّارہ ادا نہ کرسکتا ہو اور نہ وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتا ہو۔ اور رمضان المبارک میں جماع کرنے کا کفّارہ کھجوریں کھلا کر ادا کرنے کے حُکم کا بیان
حدیث نمبر: Q1949
Save to word اعراب

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1949
Save to word اعراب
اخبرنا محمد بن عزيز الايلي ، ان سلامة حدثهم , عن عقيل ، انه سال ابن شهاب ، عن رجل جامع اهله في رمضان، قال: حدثني حميد بن عبد الرحمن ، حدثني ابو هريرة ، قال: بينما انا جالس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , جاءه رجل، فقال: يا رسول الله , هلكت. قال:" ويحك، ما شانك؟" قال: وقعت على اهلي في رمضان. قال:" اعتق رقبة". قال: ما اجدها. قال:" صم شهرين متتابعين". قال: ما استطيع. قال:" اطعم ستين مسكينا". قال: ما اجده. قال: فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرق فيه تمر , فقال:" خذه وتصدق به" , قال: ما اجد احق به من اهلي , يا رسول الله , ما بين طنبي المدينة احدا احوج إليه مني. فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت انيابه. قال:" خذه واستغفر الله" أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَزِيزٍ الأَيْلِيُّ ، أَنَّ سَلامَةَ حَدَّثَهُمْ , عَنْ عُقَيْلٍ ، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ شِهَابٍ ، عَنْ رَجُلٍ جَامَعَ أَهْلَهُ فِي رَمَضَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَلَكْتُ. قَالَ:" وَيْحَكَ، مَا شَأْنُكَ؟" قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى أَهْلِي فِي رَمَضَانَ. قَالَ:" أَعْتِقْ رَقَبَةً". قَالَ: مَا أَجِدُهَا. قَالَ:" صُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ". قَالَ: مَا أَسْتَطِيعُ. قَالَ:" أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا". قَالَ: مَا أَجِدُهُ. قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ , فَقَالَ:" خُذْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ" , قَالَ: مَا أَجِدُ أَحَقَّ بِهِ مِنْ أَهْلِي , يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا بَيْنَ طُنُبَيِ الْمَدِينَةِ أَحَدًا أَحْوَجَ إِلَيْهِ مِنِّي. فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ. قَالَ:" خُذْهُ وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس اثنا میں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول، میں ہلاک ہوگیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا بھلا ہو تمہیں کیا ہوا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک گردن آزاد کرو۔ اُس نے کہا کہ میرے پاس گردن آزاد کرنے کی قوت نہیں ہے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو ـ اُس نے عرض کی کہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا: ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا دو اُس نے کہا کہ میرے پاس اتنا اناج بھی نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹوکرا لے لو اور اس کا صدقہ کردو۔ وہ کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول، میں اپنے گھر والوں سے زیادہ اس کا حقدار کسی کو نہیں پاتا، مدینہ منوّرہ کے دونوں کناروں کے درمیان مجھ سے زیادہ اس کا محتاج کوئی نہیں ہے۔ تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خوب ہنس دیئے حتّیٰ کہ آپ کے نوکیلے دانت مبارک ظاہر ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لے لو اور ﷲ تعالیٰ سے بخشش مانگو۔

تخریج الحدیث: صحيح لغيره

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.