ماہ رمضان اور اس کے روزوں کے فضائل کے ابواب کا مجموعہ
1292.
1292. رمضان المبارک میں خوب محنت کے ساتھ عبادت کرنا مستحب ہے۔ شاید کہ عزوجل اپنی شفقت و رحمت سے اس مہینے کے اختتام سے قبل ہی عبادت میں محنت کرنے والے کی بخشش فرما دے اور بندے کی ناک رمضان کے گزرنے اور بخشش حاصل کرنے سے پہلے خاک آلود نہ ہو
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو فرمایا: ”آمین، آمین، آمین۔ آپ سے عرض کی گئی کہ اے اللہ کے رسول، آپ یہ کام پہلے نہیں کیا کرتے تھے (آج کیا بات ہوئی؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے جبرائیل عليه السلام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی ناک خاک آلود کرے یا وہ رحمت سے دور ہوا، جو رمضان کے آنے کے باوجود بخشش و مغفرت حاصل کرنے سے محروم رہا تو میں نے کہا کہ آمین ـ پھر اُس نے کہا کہ اس شخص کی ناک خاک آلود ہو یا وہ رحمت الٰہی سے دور ہو جائے جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا (پھر ان کی خدمت نہ کرنے سے) وہ اسے جنّت میں داخل نہ کراسکے۔ تو میں نے کہا کہ آمین۔ پھر اُس نے دعا کی، اس شخص کی ناک بھی خاک آلود ہو یا وہ ﷲ کی رحمت سے دور ہو جس کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے۔ تو میں نے کہا کہ آمین۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر خیر وبھلائی کی سخاوت کرنے والے تھے۔ اور آپ رمضان میں سب سے زیادہ سخاوت کرتے تھے حتّیٰ کہ رمضان ختم ہو جاتا۔ جبرائیل عليه السلام آپ کے پاس آتے اور آپ سے قرآن مجید کا دور کراتے لہٰذا جب جبرائیل عليه السلام آپ سے ملتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیز ہوا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ خیر کی سخاوت کرتے۔
جناب مطرف بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو تو اُنہوں نے مجھے پلانے کے لئے دودھ منگوایا تو میں نے عرض کی کہ میں روزے سے ہوں۔ تو اُنہوں نے فرمایا: ” بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ” روزہ جہنّم سے اسی طرح ڈھال ہے جس طرح تم میں سے کسی شخص کی جنگی ڈھال ہوتی ہے۔“ اور فرمایا: ”بہترین روزے ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنا ہے۔“
1295. اس بات کی دلیل کا بیان کہ روزہ اس وقت ڈھال بنے گا جب روزہ دار ممنوع اور حرام کاموں سے اجتناب کرے گا۔ اگرچہ ممنوع کاموں سے روزہ نہ ٹوٹتا ہو مگر وہ روزے کی تکمیل اور اتمام میں کمی کا باعث بنتے ہیں
سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”روزہ ڈھال ہے جب تک روزے دار اس میں کمی و نقص پیدا نہ کرے۔“
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے کوئی عمل بتا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا کوئی عمل نہیں ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فر ماتے ہیں کہ محمد بن ابی یعقوب، یہ وہی راوی ہیں جن کے بارے میں امام شعبہ رحمه الله فرماتے ہیں کہ وہ بنی تمیم کے سردار ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جس شخص نے لیلۃ القدر کا قیام ایمان اور ثواب کی نیت سے کیا اُس کے گزشتہ تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ـ“
سیدنا حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے یحییٰ عليه السلام کی طرف پانچ کلمات پر عمل کرنے کی وحی کی اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حُکم دینے کی وحی کی۔ پھر گویا انہوں نے اس کام میں تاخیر کردی تو عیسیٰ عليه السلام ان کے پاس آئے اور کہا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ کلمات کا حُکم دیا ہے کہ آپ ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حُکم دیں۔ لہٰذا یا تو آپ انہیں خبر دیں یا پھر میں انہیں خبر دیتا ہوں۔ تو حضرت یحییٰ عليه اسلام نے فرمایا کہ اے میرے بھائی، ایسا نہ کرنا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر تم نے مجھ سے پہلے یہ کلمات انہیں بتائے تو مجھے زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ لہٰذا اُنہوں نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا حتّیٰ کہ مسجد بھر گئی اور لوگ برآمدوں اور بالکونیوں میں بیٹھ گئے، پھر انہیں خطبہ ارشاد فرمایا تو کہا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے میری طرف پانچ باتوں کی وحی کی ہے۔ کہ میں ان پر عمل کروں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حُکم دوں۔ ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنانا کیونکہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے شخص کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے اپنے خالص مال سونے یا چاندی کے ساتھ ایک غلام خریدا پھر اُسے گھر میں بساتا ہے اور کہتا ہے کہ کام کرو اور اس کی اُجرت مجھے دو ـ تو وہ کام کرتا ہے اور اس کی اُجرت اپنے آقا کے علاوہ کسی اور شخص کو دے دیتا ہے۔ تو تم میں سے کون ہے جو یہ بات پسند کرے کہ اس کا غلام ایسا ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں رزق عطا کیا ہے تو تم اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ ـ اور جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو ادھر ادھر مت جھانکو ـ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے چہرہ اقدس کے ساتھ اپنے بندے کے چہرے کی طرف متوجہ ہوتا ہے جب تک وہ دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتا ـ اور میں تمہیں روزہ رکھنے کا حُکم دیتا ہوں ـ اور اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو ایک جماعت کے ساتھ ہے اور اس کے پاس کستوری کی ایک تھیلی ہے۔ ان میں سے ہر شخص پسند کرتا ہے کہ وہ کستوری کی خوشبو سونگھ لے۔ اور بیشک روزہ اللہ کے نزدیک کستوری کی مہک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ اور میں تمہیں صدقہ کرنے کا حُکم دیتا ہوں۔ اور اس کی مثال اس شخص کی ہے جسے دشمن نے قیدی بنالیا ہو اور اس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ باندھ دیئے ہوں اور پھر اُنہوں نے اس کی گردن اڑانے کے لئے اسے قریب کرلیا ہو، تو اُس نے کہنا شروع کر دیا۔ کیا میں تمہیں اپنی جان کا فدیہ دے کر آزادی حاصل کرلوں۔ لہٰذا وہ ہر چھوٹی بڑی چیز انہیں دینا شروع کر دیتا ہے۔ حتّیٰ کہ وہ فدیہ دے کر آزادی حاصل کر لیتا ہے۔ اور میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا ذکر بکثرت کرنے کا حُکم دیتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کے پیچھے تیز رفتار دشمن لگا ہو۔ حتّیٰ کہ وہ ایک مضبوط قلعہ میں آکر پناہ حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح بندہ صرف اللہ کے ذکر کے ساتھ شیطان سے پناہ حاصل کر سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور میں بھی تمہیں پانچ چیزوں کا حُکم دیتا ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حُکم دیا ہے۔ (1) جماعت کے ساتھ وابستہ رہنا - (2) امیر و حکمران کی بات سُننا۔ (3) اور اطاعت کرنا ـ (4) ہجرت کرنا (5) اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور جس شخص نے ایک بالشت کے برابر جماعت سے علیحدگی اختیار کی تو اُس نے ایمان واسلام کا پٹہ (عہد و پیمان) اپنے سر سے اُتاردیا اِلّا یہ کہ واپس لوٹ آئے اور جو شخص جاہلیت کے بول بولے تو وہ جہنّمی ہے۔“ آپ سے عرض کی گئی، اگرچہ وہ روزے رکھے اور نماز پڑھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ وہ روزے رکھتا ہو اور نماز پڑھتا ہو۔ تم ﷲ کی پکار کے ساتھ پکارو جس ﷲ نے تمہیں اپنی پکار کے ساتھ مؤمنین مسلمین اور عباد ﷲ کا نام دیا ہے۔“
جناب ابوصالح زیات سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے ـ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا ـ روزہ اس کے لئے ڈھال ہے ـ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، روزہ دار کے مُنہ کی بُو اللہ کے نزدیک قیامت والے دن کستوری کی خوشبو سے زیادہ عمدہ ہوگی۔ روزے دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں۔ (1) جب روزہ افطار کرتا ہے تو افطاری سے خوش ہو تا ہے۔ (2) جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہو گا۔“