یحییٰ بن سعید نے سعید بن ابی سعید مقبری سے، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے والد (حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: آپ کیا فرماتے ہیں؟ اگر میں اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جاؤں۔ (آگے) لیث کی حدیث کے ہم معنی (حدیث بیان کی۔)
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے، حضرت ابو قتادہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا، بتائیے، اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
عمرو بن دینار اور محمد بن عجلان نے محمد بن قیس سے روایت کی، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے والد حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، ان (عمرو اور ابن عجلان) میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کچھ زیادہ بیان کرتا ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ منبر پر تھے، اس نے کہا: آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر میں اپنی تلوار سے وار کروں؟ (کافر کو قتل کروں، پھر شہید کر دیا جاؤں، آگے) مقبری کی حدیث کے ہم معنی (حدیث بیان کی۔)
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے حضرت ابو قتادہ ؓ کی روایت بیان کرتے ہیں، ایک دوسرے سے یہ زائد بیان کرتا ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فر تھے، اس نے کہا، بتائیے، اگر میں اپنی تلوار چلاؤں، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
مفضل بن فضالہ نے عباس قِتبانی کے بیٹے عیاس سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ بن یزید ابو عبدالرحمٰن حبلی سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شہید کا ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے، سوائے قرض کے۔"
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہید کا قرضہ کے سوا ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔“
سعید بن ابی ایوب نے کہا: مجھے عیاش بن عباس قتبانی نے ابو عبدالرحمٰن حبلی سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں قتل کیے جانے سے قرض کے سوا باقی تمام گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔"
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں قتل ہونا قرضہ کے سوا ہر چیز کا کفارہ بنتا ہے۔“
حدثنا يحيي بن يحيي ، وابو بكر بن ابي شيبة كلاهما، عن ابي معاوية . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير ، وعيسى بن يونس جميعا، عن الاعمش . ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير واللفظ له، حدثنا اسباط ، وابو معاوية ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن مسروق ، قال: سالنا عبد الله عن هذه الآية ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء عند ربهم يرزقون سورة آل عمران آية 169، قال: اما إنا قد سالنا عن ذلك، فقال: " ارواحهم في جوف طير خضر لها قناديل معلقة بالعرش، تسرح من الجنة حيث شاءت ثم تاوي إلى تلك القناديل، فاطلع إليهم ربهم اطلاعة، فقال: هل تشتهون شيئا؟ قالوا: اي شيء نشتهي ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا "، ففعل ذلك بهم ثلاث مرات، فلما راوا انهم لن يتركوا من ان يسالوا، قالوا: يا رب نريد ان ترد ارواحنا في اجسادنا حتى نقتل في سبيلك مرة اخرى، فلما راى ان ليس لهم حاجة تركوا.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ جميعا، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سورة آل عمران آية 169، قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمُ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ: هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا؟ قَالُوا: أَيَّ شَيْءٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا "، فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا، قَالُوا: يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى، فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا.
مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی: "جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھو، وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، ان کو رزق دیا جاتا ہے۔" حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے بھی اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، آپ نے فرمایا: "ان کی روحیں سبز پرندوں کے اندر رہتی ہیں، ان کے لیے عرش الہیٰ کے ساتھ قبدیلیں لٹکی ہوئی ہیں، وہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی ہیں، پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں، ان کے رب نے اوپر سے ان کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: "کیا تمہیں کس چیز کی خواہش ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم (اور) کیا خواہش کریں، ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ نے تین بار ایسا کیا (جھانک کر دیکھا اور پوچھا۔) جب انہوں نے دیکھا کہ ان کو چھوڑا نہیں جائے گا، ان سے سوال ہوتا رہے گا تو انہوں نے نے کہا: اے ہمارے رب! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے یہاں تک کہ ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید کیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ ان کو کوئی حاجت نہیں ہے تو ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔"
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی تین سندوں سے بیان کرتے ہیں، کہ مسروق نے کہا، ہم نے عبداللہ یعنی ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا، ”جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے جاتے ہیں، ان کو مردے خیال نہ کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، رزق دئیے جاتے ہیں۔“
محمد بن ولید زبیدی نے زہری سے، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور پوچھا: لوگوں میں سے کون سا شخص افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: "جو اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔" اس نے پوچھا: اس کے بعد پھر کون افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ مومن افضل ہے جو کسی پہاڑ کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں رہتا ہے، اللہ کی عبادت کرتا ہے اور لوگوں کو اپنی برائی سے محفوظ رکھتا ہے۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر پوچھا، سب لوگوں میں سے بہتر کون ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ آدمی جو اپنے مال اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔“ اس نے پوچھا، پھر کون؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ مومن جو پہاڑی دروں میں کسی درہ میں وہ اللہ کی بندگی کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔“
معمر نے زہری سے، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے، انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سے افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا: "ایسا مومن جو اپنی جان اور مال سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔" اس نے پوچھا: اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: "پھر وہ آدمی جو پہاڑ کی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں تنہا رہتا ہے، اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔"
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے پوچھا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! سب لوگوں میں بہترین فرد کون ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ مومن جو اپنے نفس اور اپنے مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔“ اس نے پوچھا، پھر کون؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر وہ آدمی جو پہاڑی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں الگ تھلگ اپنے رب کی بندگی کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔“
اوزاعی نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اورآدمی جو کسی گھاٹی میں ہے کہا۔ پھر وہ آدمی نہیں کہا
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے، ابن شہاب کی مذکورہ بالا سند سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور ایک آدمی جو کسی گھاٹی میں ہے، ثم
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، عن بعجة ، عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " من خير معاش الناس لهم، رجل ممسك عنان فرسه في سبيل الله، يطير على متنه كلما سمع هيعة او فزعة طار عليه يبتغي القتل والموت مظانه او رجل في غنيمة، في راس شعفة من هذه الشعف او بطن واد من هذه الاودية يقيم الصلاة، ويؤتي الزكاة، ويعبد ربه حتى ياتيه اليقين ليس من الناس إلا في خير "،حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ بَعْجَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مِنْ خَيْرِ مَعَاشِ النَّاسِ لَهُمْ، رَجُلٌ مُمْسِكٌ عِنَانَ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَطِيرُ عَلَى مَتْنِهِ كُلَّمَا سَمِعَ هَيْعَةً أَوْ فَزْعَةً طَارَ عَلَيْهِ يَبْتَغِي الْقَتْلَ وَالْمَوْتَ مَظَانَّهُ أَوْ رَجُلٌ فِي غُنَيْمَةٍ، فِي رَأْسِ شَعَفَةٍ مِنْ هَذِهِ الشَّعَفِ أَوْ بَطْنِ وَادٍ مِنْ هَذِهِ الْأَوْدِيَةِ يُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَيُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَيَعْبُدُ رَبَّهُ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْيَقِينُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ إِلَّا فِي خَيْرٍ "،
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے کہا: ہمیں عبدالعزیز بن ابی حازم نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انہوں نے بعجہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں کے لیے زندگی کے بہترین طریقوں میں سے یہ ہے کہ آدمی نے اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے گھوڑے کی لگام پکڑ رکھی ہو، اس کی پیٹح پر اللہ کی راہ میں اڑتا (تیزی سے حرکت کرتا) پھرے، جب بھی (دشمن کی) آہٹ یا (کسی کے) ڈرنے کی آواز سنے، اڑ کر وہاں پہنچ جائے، ہر اس جگہ قتل اور موت کو تلاش کرتا ہو جہاں اس کے ہونے کا گمان ہو یا پھر وہ آدمی جو بکریوں کے چھوٹے سے ریوڑ کے ساتھ ان چوٹیوں میں سے کسی ایک چھوٹی پر یا ان وادیوں میں سے کسی وادی میں ہو، نماز قائم کرے، زکاۃ دے اور یقینی انجام (موت) تک اپنے رب کی عبادت کرے، اچھائی کے معاملات کے سوا لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں سے بہترین زندگی اس آدمی کی ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے رکھے ہوئے اللہ کی راہ میں گھوڑے کی پیٹھ پر لڑ رہا ہے، جب وہ دشمن کی آواز سنتا ہے، یا گھبراہٹ محسوس کرتا ہے، اس پر اڑ کر پہنچ جاتا ہے، قتل اور موت اس کے محل میں تلاش کرتا ہے، یا وہ انسان جو کچھ بکریوں کے ساتھ پہاڑی چوٹیوں میں سے کسی چوٹی پر ہے یا ان وادیوں میں سے کسی وادی کے اندر رہتا ہے، نماز کا اہتمام کرتا ہے اور زکاۃ ادا کرتا ہے اور اپنی موت تک اپنے رب کی بندگی کرتا ہے، لوگوں سے خیر کے علاوہ کسی چیز میں نہیں۔“
قتیبہ بن سعید نے عبدالعزیز بن ابی حازم سے، انہوں نے اور یعقوب بن عبدالرحمٰن دونوں نے اسی سند کے ساتھ ابو حازم سے اسی کے مانند روایت بیان کی (بعجہ کا مکمل نام لیتے ہوئے) بعجہ بن عبداللہ بن بدر کہا۔ اور یحییٰ کی روایت کے برعکس (ان وادیوں میں سے ایک وادی کے بجائے) "ان گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں" کہا۔
امام صاحب یہی حدیث اپنے دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ اس میں یہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان پہاڑی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں“ یحییٰ کی روایت میں شعفة من هذه الشعف