اذان، خطبہ جمعہ، اور اس دوران مقتدیوں کا بغور خطبہ سُننا اور خاموش رہنا اور ان افعال کے ابواب کا مجموعہ جو اُن کے لئے جائز ہیں اور جو منع ہیں
1195.
1195. اسں اذان کا بیان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں موجود تھی۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حُکم دیا ہے کہ جب وہ اذان دے دی جائے تو جمعہ کے لئے جلدی کی جائے اور اس وقت کا بیان جب یہ اذان دی جاتی تھی اور اسں شخص کا ذکر جس نے امام کے تشریف لانے سے پہلے پہلی اذان دینی شروع کی تھی
نا ابو موسى، نا ابو عامر، نا ابن ابي ذئب، عن الزهري، عن السائب وهو ابن يزيد، قال:" كان النداء الذي ذكر الله في القرآن يوم الجمعة إذا خرج الإمام , وإذا قامت الصلاة في زمن النبي صلى الله عليه وسلم، وابي بكر، وعمر , حتى كان عثمان , فكثر الناس , فامر بالنداء الثالث على الزوراء , فثبت حتى الساعة" . قال ابو بكر في قوله: وإذا قامت الصلاة: يريد النداء الثاني الإقامة , والاذان والإقامة يقال لهما: اذانان , الم تسمع النبي صلى الله عليه وسلم قال:" بين كل اذانين صلاة"؟ وإنما اراد: بين كل اذان وإقامة. والعرب قد تسمي الشيئين باسم الواحد إذا قرنت بينهما. قال الله عز وجل: ولابويه لكل واحد منهما السدس سورة النساء آية 11، وقال: وورثه ابواه فلامه الثلث سورة النساء آية 11 وإنما هما اب وام , فسماهما الله ابوين. ومن هذا الجنس خبر عائشة: كان طعامنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم الاسودين: التمر والماء. وإنما السواد للتمر خاصة دون الماء , فسمتهما عائشة الاسودين , لما قرنت بينهما. ومن هذا الجنس قيل: سنة العمرين. وإنما اريد ابو بكر، وعمر , لا كما توهم من ظن انه اريد عمر بن الخطاب , وعمر بن عبد العزيز. والدليل على انه اراد بقوله: وإذا قامت الصلاة النداء الثاني المسمى إقامةنا أَبُو مُوسَى، نا أَبُو عَامِرٍ، نا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ وَهُوَ ابْنُ يَزِيدَ، قَالَ:" كَانَ النِّدَاءُ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ فِي الْقُرْآنِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذَا خَرَجَ الإِمَامُ , وَإِذَا قَامَتِ الصَّلاةُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ , حَتَّى كَانَ عُثْمَانُ , فَكَثُرَ النَّاسُ , فَأَمَرَ بِالنِّدَاءِ الثَّالِثِ عَلَى الزَّوْرَاءِ , فَثَبَتَ حَتَّى السَّاعَةِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي قَوْلِهِ: وَإِذَا قَامَتِ الصَّلاةُ: يُرِيدُ النِّدَاءَ الثَّانِيَ الإِقَامَةَ , وَالأَذَانُ وَالإِقَامَةُ يُقَالُ لَهُمَا: أَذَانَانِ , أَلَمْ تَسْمَعِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاةٌ"؟ وَإِنَّمَا أَرَادَ: بَيْنَ كُلِّ أَذَانٍ وَإِقَامَةٍ. وَالْعَرَبُ قَدْ تُسَمِّي الشَّيْئَيْنِ بِاسْمِ الْوَاحِدِ إِذَا قَرَنَتْ بَيْنَهُمَا. قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ سورة النساء آية 11، وَقَالَ: وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأُمِّهِ الثُّلُثُ سورة النساء آية 11 وَإِنَّمَا هُمَا أَبٌ وَأُمٌّ , فَسَمَّاهُمَا اللَّهُ أَبَوَيْنِ. وَمِنْ هَذَا الْجِنْسِ خَبَرُ عَائِشَةَ: كَانَ طَعَامُنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الأَسْوَدَيْنِ: التَّمْرَ وَالْمَاءَ. وَإِنَّمَا السَّوَادُ لِلتَّمْرِ خَاصَّةً دُونَ الْمَاءِ , فَسَمَّتْهُمَا عَائِشَةُ الأَسْوَدَيْنِ , لَمَّا قَرَنَتْ بَيْنَهُمَا. وَمِنْ هَذَا الْجِنْسِ قِيلَ: سُنَّةُ الْعُمَرَيْنِ. وَإِنَّمَا أُرِيدَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ , لا كَمَا تَوَهَّمَ مَنْ ظَنَّ أَنَّهُ أُرِيدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ , وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ. وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّهُ أَرَادَ بِقَوْلِهِ: وَإِذَا قَامَتِ الصَّلاةُ النِّدَاءَ الثَّانِيَ الْمُسَمَّى إِقَامَةً
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جمعہ کے دن جس اذان کا ذکر کیا ہے وہ اُس وقت دی جاتی تھی جب امام (خطبہ جمعہ کے لئے) تشریف لے آتا اور (دوسری اذان یعنی اقامت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں اُس وقت کہی جاتی جب نماز کھڑی ہوتی۔ حتّیٰ کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا عہد آیا تو لوگ زیادہ ہوگئے، لہٰذا اُنہوں نے تیسری اذان زوراء مقام پر کہنے کا حُکم دیا ـ چنانچہ وہ اذان آج تک باقی ہے ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حدیث کے ان الفاظ ”اور جب نماز کھڑی ہوتی“ سے مراد دوسری اذان یعنی اقامت مراد ہے ـ اور اذان و اقامت کو ”اذانان“(دو اذانیں) کہا جاتا ہے - کہا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ آپ فرماتے ہیں: ”ہر دو اذانوں کے درمیان (نفل) نماز ہے ـ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہر اذان اور اقامت کے درمیان ہے۔ اور عرب دو ملی ہوئی چیزوں کو ایک ہی نام دے دیتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے «وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا» [ سورة النساء: 11 ]” والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصّہ ہے۔“ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے «وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ» [ سورة النساء: 11 ]” اور اس کے وارث اس کے والدین ہوں تو اس کی والدہ کو تیسرا حصّہ ملے گا -“ جبکہ والدین سے مراد ماں اور باپ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لئے ”أبوین“(دو باپ) کا لفظ بولا ہے ـ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہمارا کھانا دو سیاہ چیزیں ہوتی تھیں، کھجور اور پانی - جبکہ سیاہ رنگ صرف کھجور کا ہوتا ہے پانی کا نہیں ـ اس کے باوجود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دونوں کو ”اسودین“(دو سیاہ چیزیں) کا نام دیا ہے۔ جبکہ ان دونوں کو ملا دیا گیا تھا۔ اسی قسم کی ایک مثال ”سُنَّةُ الْعُمَرَيْنِ“(عمرین کا طریقہ اور سنّت) اور اس سے مراد سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا طریقہ ہوتا ہے، اور اس سے مراد سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہما کا طریقہ نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی اور وہم ہوا ہے ـ اور اس بات کی دلیل کہ حدیث کے ان الفاظ ”اور جب نماز کھڑی ہوتی“ سے مراد دوسری اذان ہے جسے اقامت کہتے ہیں۔ (درج ذیل حدیث ہے)۔
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں جمعہ کے دن دو اذانیں ہوتی تھیں ـ (اذان اور اقامت)۔ حتّیٰ کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تو اُنہوں نے پہلی اذان روراء مقام پر دینے کا حُکم دیا۔
نا محمد بن شوكر بن رافع البغدادي ، نا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني محمد بن إبراهيم التيمي ، عن عمران بن ابي يحيى ، عن عبد الله بن كعب بن مالك ، عن ابي ايوب الانصاري ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من اغتسل يوم الجمعة ومس من طيب إن كان عنده , ولبس من احسن ثيابه , ثم خرج إلى المسجد , فيركع إن بدا له , ولم يؤذ احدا , ثم انصت إذا خرج إمامه حتى يصلي، كان كفارة لما بينها وبين الجمعة الاخرى" . قال ابو بكر: هذا من الجنس الذي اقول: إن الإنصات عند العرب قد يكون الإنصات عن مكالمة بعضهم بعضا دون قراءة القرآن , ودون ذكر الله والدعاء , كخبر ابي هريرة: كانوا يتكلمون في الصلاة فنزلت: وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا سورة الاعراف آية 204، فإنما زجروا في الآية عن مكالمة بعضهم بعضا , وامروا بالإنصات عند قراءة القرآن: الإنصات عن كلام الناس لا عن قراءة القرآن والتسبيح والتكبير والذكر والدعاء , إذ العلم محيط ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يرد بقوله:" ثم انصت إذا خرج الإمام حتى يصلي" ان ينصت شاهد الجمعة فلا يكبر مفتتحا لصلاة الجمعة , ولا يكبر للركوع , ولا يسبح في الركوع , ولا يقول: ربنا لك الحمد بعد رفع الراس من الركوع , ولا يكبر عند الإهواء إلى السجود , ولا يسبح في السجود , ولا يتشهد في القعود , وهذا لا يتوهمه من يعرف احكام الله ودينه , فالعلم محيط ان معنى الإنصات في هذا الخبر: عن مكالمة الناس , وعن كلام الناس , لا عما امر المصلي من التكبير والقراءة والتسبيح والذكر الذي امر به في الصلاة , فهكذا معنى خبر النبي صلى الله عليه وسلم إن ثبت:" وإذا قرا فانصتوا" اي: انصتوا عن كلام الناس. وقد بينت معنى الإنصات، وعلى كم معنى ينصرف هذا اللفظ في المسالة التي امليتها في القراءة خلف الإمامنا مُحَمَّدُ بْنُ شَوْكَرِ بْنِ رَافِعٍ الْبَغْدَادِيُّ ، نا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَمَسَّ مِنْ طِيبٍ إِنْ كَانَ عِنْدَهُ , وَلَبِسَ مِنْ أَحْسَنِ ثِيَابِهِ , ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ , فَيَرْكَعُ إِنْ بَدَا لَهُ , وَلَمْ يُؤْذِ أَحَدًا , ثُمَّ أَنْصَتَ إِذَا خَرَجَ إِمَامُهُ حَتَّى يُصَلِّيَ، كَانَ كَفَّارَةً لِمَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الأُخْرَى" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَقُولُ: إِنَّ الإِنْصَاتَ عِنْدَ الْعَرَبِ قَدْ يَكُونُ الإِنْصَاتُ عَنْ مُكَالَمَةِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا دُونَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ , وَدُونَ ذِكْرِ اللَّهِ وَالدُّعَاءِ , كَخَبَرِ أَبِي هُرَيْرَةَ: كَانُوا يَتَكَلَّمُونَ فِي الصَّلاةِ فَنَزَلَتْ: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا سورة الأعراف آية 204، فَإِنَّمَا زُجِرُوا فِي الآيَةِ عَنْ مُكَالَمَةِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا , وَأُمِرُوا بِالإِنْصَاتِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ: الإِنْصَاتِ عَنْ كَلامِ النَّاسِ لا عَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَالتَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَالذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ , إِذِ الْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُرِدْ بِقَوْلِهِ:" ثُمَّ أَنْصَتَ إِذَا خَرَجَ الإِمَامُ حَتَّى يُصَلِّيَ" أَنْ يُنْصِتَ شَاهِدُ الْجُمُعَةِ فَلا يُكَبِّرَ مُفْتَتِحًا لِصَلاةِ الْجُمُعَةِ , وَلا يُكَبِّرَ لِلرُّكُوعِ , وَلا يُسَبِّحَ فِي الرُّكُوعِ , وَلا يَقُولَ: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ بَعْدَ رَفْعِ الرَّأْسِ مِنَ الرُّكُوعِ , وَلا يُكَبِّرَ عِنْدَ الإِهْوَاءِ إِلَى السُّجُودِ , وَلا يُسَبِّحَ فِي السُّجُودِ , وَلا يَتَشَهَّدَ فِي الْقُعُودِ , وَهَذَا لا يَتَوَهَّمُهُ مَنْ يَعْرِفُ أَحْكَامَ اللَّهِ وَدِينَهُ , فَالْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ مَعْنَى الإِنْصَاتِ فِي هَذَا الْخَبَرِ: عَنْ مُكَالَمَةِ النَّاسِ , وَعَنْ كَلامِ النَّاسِ , لا عَمَّا أُمِرَ الْمُصَلِّي مِنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ وَالتَّسْبِيحِ وَالذِّكْرِ الَّذِي أُمِرَ بِهِ فِي الصَّلاةِ , فَهَكَذَا مَعْنَى خَبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ ثَبَتَ:" وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا" أَيْ: أَنْصِتُوا عَنْ كَلامِ النَّاسِ. وَقَدْ بَيَّنْتُ مَعْنَى الإِنْصَاتِ، وَعَلَى كَمْ مَعْنًى يَنْصَرِفُ هَذَا اللَّفْظُ فِي الْمَسْأَلَةِ الَّتِي أَمْلَيْتُهَا فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے جمعہ کے دن غسل کیا اور اگر اس کے پاس خوشبو ہو تو اُس نے خوشبو لگائی اور اپنا عمدہ لباس زیب تن کیا پھر وہ مسجد چلا گیا اور اگر اُس کا جی چاہا تو اُس نے نماز نفل ادا کی اور اُس نے کسی کو تکلیف نہ دی، پھر جب اُس کا امام آگیا تو اُس نے خاموشی اختیار کی حتّیٰ کہ نماز ادا کرلیتا ہے تو اس کے یہ اعمال اس جمعہ اور گزشتہ جمعہ کے درمیانی گناہوں کا کفّارہ بن جائیں گے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ اسی جنس سے متعلق ہے جس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ عرب کے نزدیک انصات سے مراد کبھی ایک دوسرے سے بات چیت سے خاموشی ہوتی ہے، قرآن مجید کی تلاوت، ذکر الٰہی اور دعا کرنے سے خاموشی مراد نہیں ہوتی ـ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ صحابہ کرام نماز کے دوران بات چیت کر لیتے تھے حتّیٰ کہ یہ آیت نازل ہو گئی «وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا» [ سورة الأعراف: 204 ]”اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے غور سے سنو اور خاموش ہو جاؤ۔“ اس آیت میں انہیں ایک دوسرے سے گفتگو کرنے سے روکا گیا ہے اور انہیں قرآن مجید کی تلاوت کے وقت خاموشی رہنے کا حُکم دیا ہے ـ یہ خاموشی لوگوں کی باہمی گفتگو سے ہوگی؟ قراءت قرآن، تسبیحات، تکبیر، ذکر اور دعا سے خاموش رہنا مراد نہیں ہے کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”پھر جب امام تشریف لے آیا تو وہ خاموش ہو گیا حتّیٰ کہ اس نے نماز پڑھ لی۔“ سے آپ کی مراد یہ نہیں کہ جمعہ میں حاضر ہونے والا شخص نماز شروع کرتے وقت «اللهُ أَكْبَرُ» نہیں کہے گا اور نہ رکوع جاتے وقت تکبیر کہے گا اور نہ رکوع میں تسبیحات پڑھے گا اور نہ رکوع سے سراُٹھا کر «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» پڑھے گا اور نہ سجدے کے لئے جھکتے وقت «اللهُ أَكْبَرُ» کہے گا اور نہ سجدے میں تسبیح پڑھے گا اور نہ قعدہ میں تشہد پڑھے گا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام اور اسکے دین کو سمجھتا ہے اُسے اس قسم کا وہم نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ بات حتمی اور یقینی ہے کہ اس حدیث میں انصات (خاموشی) کا مطلب لوگوں کی باہمی گفتگو اور کلام سے خاموشی ہے۔ اس کا مطلب تکبیر، قراءت قرآن، تسبیح اور ذکر وغیرہ سے خاموشی نہیں ہے جن کا نمازی کو نماز کے دوران حُکم دیا گیا ہے کہ وہ یہ اعمال انجام دے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا معنی ہے، اگر صحیح ثابت ہو۔ ” جب امام قراءت کرے تو خاموشی اختیار کرو۔“ یعنی لوگوں سے بات چیت ختم کردو۔ میں مسئلہ ” امام کے پیچھے قراءت کرنا“ کے تحت انصات کا معنی اور اس لفط کے کتنے معانی ہوسکتے ہیں، میں بیان کرچکا ہوں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن لکڑی کے ایک ستون، تنے یا کھجور کے درخت سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے (اور خطبہ ارشاد فرماتے تھے)۔ مبارک راوی کو شک ہے کہ کون سا لفظ بیان کیا تھا۔ پھر جب لوگوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لئے منبر بناؤ“ تو صحابہ نے آپ کے لئے منبر بنا دیا - لہٰذا آپ منبر پر تشریف فرما ہوگئے تو لکڑی، اپنے بچّے کی جدائی میں رونے والی ماں کی طرح رونے لگی - وہ اسی طرح روتی رہی حتّیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے، پھر آپ نے جاکر اسے گلے سے لگایا تو وہ خاموش ہوگئی۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرما تے کہ ”الواله“ سے مراد وہ عورت ہے جس کا بچّہ فوت ہو گیا ہو (اور وہ اس کی جدائی میں روتی ہو)
1198. اس علت کا بیان جس کی وجہ سے تنا رونا شروع ہو گیا تھا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کی بناوٹ، سیڑھیوں کی تعداد اور جب زمین پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا جائے تو کسی کا سہارا لینے بیان
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے ہوتے تو مسجد میں نصب ایک تنے کے ساتھ ٹیک لگاتے، پھر خطبہ ارشاد فرماتے۔ پھر ایک رومی شخص آیا تو اُس نے عرض کی کہ کیا ہم آپ کے لئے ایک ایسی چیز نہ بنادیں کہ آپ اُس پر بیٹھ جائیں تو کھٹرے محسوس ہوں؟ اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک منبر بنایا جس کی دو سیڑھیاں تھیں اور آپ تیسری سیڑھی پر بیٹھے تھے ـ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے تو تنے نے بیل کی طرح رونا شروع کر دیا - حتّیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں اُس کے رونے کی آواز سے مسجد گونج اُٹھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اُتر کر اُس کے پاس تشریف لائے اور اُسے اپنے ساتھ چمٹا لیا وہ رو رہا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ساتھ چمٹایا تو وہ خاموش ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر میں اسے اپنے ساتھ نہ چمٹاتا تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں تا قیامت اسی طرح روتا رہتا ـ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم سے تنے کو دفن کر دیا گیا ـ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر (خطبہ) کی جدائی میں رویا ہے۔“
سیدنا خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کمان یا لاٹھی کا سہارا لیے ہوئے دیکھا، جب وہ مسلمانوں کے پاس آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ سورت پڑھتے ہوئے سنا «وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ» تو میں نے یہ سورت جاہلیت میں یاد کرلی تھی جبکہ میں ابھی مشرک ہی تھا۔ پھر میں نے مسلمان ہونے کے بعد کی تلاوت کی پھر مجھے ثقیف کے لوگوں نے بلایا اور پوچھا، تم نے اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کیا سنا ہے؟ تو میں نے یہ سورت اُنہیں سنا دی تو اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے قریشی کہنے لگے کہ ہم اپنے ساتھی کو زیادہ جانتے ہیں اگر ہم اس کی دعوت کو حق مانتے تو اس کی اتباع کر لیتے ـ“