Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح ابن خزيمه
اذان ، خطبہ جمعہ ، اور اس دوران مقتدیوں کا بغور خطبہ سُننا اور خاموش رہنا اور ان افعال کے ابواب کا مجموعہ جو اُن کے لئے جائز ہیں اور جو منع ہیں
1196.
امام کے تشریف لانے کے بعد اور خطبہ شروع ہونے سے پہلے مقتدی کے خاموش ہونے کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1775
نا مُحَمَّدُ بْنُ شَوْكَرِ بْنِ رَافِعٍ الْبَغْدَادِيُّ ، نا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَمَسَّ مِنْ طِيبٍ إِنْ كَانَ عِنْدَهُ , وَلَبِسَ مِنْ أَحْسَنِ ثِيَابِهِ , ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ , فَيَرْكَعُ إِنْ بَدَا لَهُ , وَلَمْ يُؤْذِ أَحَدًا , ثُمَّ أَنْصَتَ إِذَا خَرَجَ إِمَامُهُ حَتَّى يُصَلِّيَ، كَانَ كَفَّارَةً لِمَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الأُخْرَى" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَقُولُ: إِنَّ الإِنْصَاتَ عِنْدَ الْعَرَبِ قَدْ يَكُونُ الإِنْصَاتُ عَنْ مُكَالَمَةِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا دُونَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ , وَدُونَ ذِكْرِ اللَّهِ وَالدُّعَاءِ , كَخَبَرِ أَبِي هُرَيْرَةَ: كَانُوا يَتَكَلَّمُونَ فِي الصَّلاةِ فَنَزَلَتْ: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا سورة الأعراف آية 204، فَإِنَّمَا زُجِرُوا فِي الآيَةِ عَنْ مُكَالَمَةِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا , وَأُمِرُوا بِالإِنْصَاتِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ: الإِنْصَاتِ عَنْ كَلامِ النَّاسِ لا عَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَالتَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَالذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ , إِذِ الْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُرِدْ بِقَوْلِهِ:" ثُمَّ أَنْصَتَ إِذَا خَرَجَ الإِمَامُ حَتَّى يُصَلِّيَ" أَنْ يُنْصِتَ شَاهِدُ الْجُمُعَةِ فَلا يُكَبِّرَ مُفْتَتِحًا لِصَلاةِ الْجُمُعَةِ , وَلا يُكَبِّرَ لِلرُّكُوعِ , وَلا يُسَبِّحَ فِي الرُّكُوعِ , وَلا يَقُولَ: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ بَعْدَ رَفْعِ الرَّأْسِ مِنَ الرُّكُوعِ , وَلا يُكَبِّرَ عِنْدَ الإِهْوَاءِ إِلَى السُّجُودِ , وَلا يُسَبِّحَ فِي السُّجُودِ , وَلا يَتَشَهَّدَ فِي الْقُعُودِ , وَهَذَا لا يَتَوَهَّمُهُ مَنْ يَعْرِفُ أَحْكَامَ اللَّهِ وَدِينَهُ , فَالْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ مَعْنَى الإِنْصَاتِ فِي هَذَا الْخَبَرِ: عَنْ مُكَالَمَةِ النَّاسِ , وَعَنْ كَلامِ النَّاسِ , لا عَمَّا أُمِرَ الْمُصَلِّي مِنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ وَالتَّسْبِيحِ وَالذِّكْرِ الَّذِي أُمِرَ بِهِ فِي الصَّلاةِ , فَهَكَذَا مَعْنَى خَبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ ثَبَتَ:" وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا" أَيْ: أَنْصِتُوا عَنْ كَلامِ النَّاسِ. وَقَدْ بَيَّنْتُ مَعْنَى الإِنْصَاتِ، وَعَلَى كَمْ مَعْنًى يَنْصَرِفُ هَذَا اللَّفْظُ فِي الْمَسْأَلَةِ الَّتِي أَمْلَيْتُهَا فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے جمعہ کے دن غسل کیا اور اگر اس کے پاس خوشبو ہو تو اُس نے خوشبو لگائی اور اپنا عمدہ لباس زیب تن کیا پھر وہ مسجد چلا گیا اور اگر اُس کا جی چاہا تو اُس نے نماز نفل ادا کی اور اُس نے کسی کو تکلیف نہ دی، پھر جب اُس کا امام آگیا تو اُس نے خاموشی اختیار کی حتّیٰ کہ نماز ادا کرلیتا ہے تو اس کے یہ اعمال اس جمعہ اور گزشتہ جمعہ کے درمیانی گناہوں کا کفّارہ بن جائیں گے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ اسی جنس سے متعلق ہے جس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ عرب کے نزدیک انصات سے مراد کبھی ایک دوسرے سے بات چیت سے خاموشی ہوتی ہے، قرآن مجید کی تلاوت، ذکر الٰہی اور دعا کرنے سے خاموشی مراد نہیں ہوتی ـ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ صحابہ کرام نماز کے دوران بات چیت کر لیتے تھے حتّیٰ کہ یہ آیت نازل ہو گئی «‏‏‏‏وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا» ‏‏‏‏ [ سورة الأعراف: 204 ] اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے غور سے سنو اور خاموش ہو جاؤ۔ اس آیت میں انہیں ایک دوسرے سے گفتگو کرنے سے روکا گیا ہے اور انہیں قرآن مجید کی تلاوت کے وقت خاموشی رہنے کا حُکم دیا ہے ـ یہ خاموشی لوگوں کی باہمی گفتگو سے ہوگی؟ قراءت قرآن، تسبیحات، تکبیر، ذکر اور دعا سے خاموش رہنا مراد نہیں ہے کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پھر جب امام تشریف لے آیا تو وہ خاموش ہو گیا حتّیٰ کہ اس نے نماز پڑھ لی۔ سے آپ کی مراد یہ نہیں کہ جمعہ میں حاضر ہونے والا شخص نماز شروع کرتے وقت «‏‏‏‏اللهُ أَكْبَرُ» ‏‏‏‏ نہیں کہے گا اور نہ رکوع جاتے وقت تکبیر کہے گا اور نہ رکوع میں تسبیحات پڑھے گا اور نہ رکوع سے سراُٹھا کر «‏‏‏‏سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» ‏‏‏‏ پڑھے گا اور نہ سجدے کے لئے جھکتے وقت «‏‏‏‏اللهُ أَكْبَرُ» ‏‏‏‏ کہے گا اور نہ سجدے میں تسبیح پڑھے گا اور نہ قعدہ میں تشہد پڑھے گا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام اور اسکے دین کو سمجھتا ہے اُسے اس قسم کا وہم نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ بات حتمی اور یقینی ہے کہ اس حدیث میں انصات (خاموشی) کا مطلب لوگوں کی باہمی گفتگو اور کلام سے خاموشی ہے۔ اس کا مطلب تکبیر، قراءت قرآن، تسبیح اور ذکر وغیرہ سے خاموشی نہیں ہے جن کا نمازی کو نماز کے دوران حُکم دیا گیا ہے کہ وہ یہ اعمال انجام دے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا معنی ہے، اگر صحیح ثابت ہو۔ جب امام قراءت کرے تو خاموشی اختیار کرو۔ یعنی لوگوں سے بات چیت ختم کردو۔ میں مسئلہ امام کے پیچھے قراءت کرنا کے تحت انصات کا معنی اور اس لفط کے کتنے معانی ہوسکتے ہیں، میں بیان کرچکا ہوں۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن