سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں کی بہترین صفیں اگلی ہیں اور ان کی بدترین صفیں پچھلی ہیں اور عورتوں کی بہترین صفیں پچھلی ہیں اور ان کی بری صفیں اگلی ہیں اے عورتوں کی جماعت، جب مرد سجدہ کریں تو تم اپنی نظروں کی حفاظت کرنا (تاکہ ان کے ستر پر نظر نہ پڑے)۔“ امام سفیان کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی بکر سے پوچھا کہ (آپ نے عورتوں کو) یہ حُکم کیوں دیا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ تنگ اور مختصر تہبند ہونے کی وجہ سے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہم آپ کی دائیں جانب کھڑے ہونا پسند کرتے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے فارغ ہو کر یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا: «رَبِّ قِنِيْ عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ» ”اے میرے پروردگار، مجھے اپنے عذاب سے اس دن بچانا، جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔“ جناب سلم بن جنادہ کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا) نماز سے فارغ ہو کر پڑھی۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب کھڑے ہوکر نماز پڑھنا پسند کرتے تھے کیونکہ آپ اپنی دائیں جانب سلام پھیرتے تھے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہم آپ کی دائیں طر ف کھڑے ہونا پسند کرتے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے فارغ ہو کر یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا «رَبِّ قِنِيْ عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ» ”اے میرے پروردگار، جس دن تو اپنے بندوں کو اُٹھائے گا، اس دن مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو نماز میں کندھوں کو نرم رکھتا ہے۔“
جناب عبدالحمید بن محمود بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پہلومیں کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔ ہجوم کی وجہ سے ہم ستونوں تک پہنچ گئے تو اُنہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کام سے بچتے تھے۔
والبيان ان صلاته خلف الصف وحده غير جائزة، يجب عليه استقبالها، وان قوله: لا صلاة له من الجنس الذي نقول: إن العرب تنفي الاسم عن الشيء لنقصه عن الكمالوَالْبَيَانُ أَنَّ صَلَاتَهُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ غَيْرُ جَائِزَةٍ، يَجِبُ عَلَيْهِ اسْتِقْبَالُها، وَأَنَّ قَوْلَهُ: لَا صَلَاةَ لَهُ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّ الْعَرَبَ تَنْفِي الِاسْمَ عَنِ الشَّيْءِ لِنَقْصِهِ عَنِ الْكَمَالِ
سیدنا علی بن شیبان رضی اللہ عنہ جو کہ وفد کے رکن تھے، فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمّل کی تو ایک شخص کو دیکھا جو صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے پاس کھڑے ہوگئے، یہاں تک کہ اُس نے اپنی نماز مکمّل کرلی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے کہا: ”اپنی نماز دوبارہ پڑھو کیونکہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی ـ“
قال ابو بكر: وفي اخبار وابصة بن معبد: راى رجلا صلى خلف الصف وحده، فامره ان يعيد الصلاة. واحتج بعض اصحابنا وبعض من قال بمذهب العراقيين في إجازة صلاة الماموم خلف الصف وحده بما هو بعيد الشبه من هذه المسالة، احتجوا بخبر انس بن مالك" انه صلى وامراة خلف النبي صلى الله عليه وسلم، فجعله عن يمينه، والمراة خلف ذلك"، فقالوا: إذا جاز للمراة ان تقوم خلف الصف وحدها، جاز صلاة المصلي خلف الصف وحده! وهذا الاحتجاج عندي غلط ؛ لان سنة المراة ان تقوم خلف الصف وحدها إذا لم تكن معها امراة اخرى، وغير جائز لها ان تقوم بحذاء الإمام، ولا في الصف مع الرجال، والماموم من الرجال إن كان واحدا، فسنته ان يقوم عن يمين إمامه، وإن كانوا جماعة قاموا في صف خلف الإمام، حتى يكمل الصف الاول، ولم يجز للرجل ان يقوم خلف الإمام والماموم واحد، ولا خلاف بين اهل العلم ان هذا الفعل لو فعله فاعل، فقام خلف إمام، وماموم قد قام عن يمينه، خلاف سنة النبي صلى الله عليه وسلم، وإن كانوا قد اختلفوا في إيجاب إعادة الصلاة، والمراة إذا قامت خلف الصف ولا امراة معها ولا نسوة فاعلة ما امرت به، وما هو سنتها في القيام. والرجل إذا قام في الصف وحده فاعل ما ليس من سنته، إذ سنته ان يدخل الصف فيصطف مع المامومين، فكيف يكون ان يشبه ما زجر الماموم عنه مما هو خلاف سنته في القيام، بفعل امراة فعلت ما امرت به، مما هو سنتها في القيام خلف الصف وحدها؟ فالمشبه المنهي عنه بالمامور به مغفل بين الغفلة، مشبه بين فعلين متضادين، إذ هو مشبه منهيا عنه بمامور به. فتدبروا هذه اللفظة يبن لكم بتوفيق خالقنا حجة ما ذكرنا. وزعم مخالفونا من العراقيين في هذه المسالة ان المراة لو قامت في الصف مع الرجال حيث امر الرجل ان يقوم، افسدت صلاة من عن يمينها، ومن عن شمالها، والمصلي خلفها، والرجل مامور عندهم ان يقوم في الصف مع الرجال، فكيف يشبه فعل امراة لو فعلت افسدت صلاة ثلاثة من المصلين، بفعل من هو مامور بفعله؟ إذا فعله لا يفسد فعله صلاة احدقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَفِي أَخْبَارِ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ: رَأَى رَجُلا صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُعِيدَ الصَّلاةَ. وَاحْتَجَّ بَعْضُ أَصْحَابِنَا وَبَعْضُ مَنْ قَالَ بِمَذْهَبِ الْعِرَاقِيِّينَ فِي إِجَازَةِ صَلاةِ الْمَأْمُومِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ بِمَا هُوَ بَعِيدُ الشَّبَهِ مِنْ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، احْتَجُّوا بِخَبَرِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ" أَنَّهُ صَلَّى وَامْرَأَةٌ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَهُ عَنْ يَمِينِهِ، وَالْمَرْأَةَ خَلْفَ ذَلِكَ"، فَقَالُوا: إِذَا جَازَ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَقُومَ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهَا، جَازَ صَلاةُ الْمُصَلِّي خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ! وَهَذَا الاحْتِجَاجُ عِنْدِي غَلَطٌ ؛ لأَنَّ سُنَّةَ الْمَرْأَةِ أَنْ تَقُومَ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهَا إِذَا لَمْ تَكُنْ مَعَهَا امْرَأَةٌ أُخْرَى، وَغَيْرُ جَائِزٍ لَهَا أَنْ تَقُومَ بِحِذَاءِ الإِمَامِ، وَلا فِي الصَّفِّ مَعَ الرِّجَالِ، وَالْمَأْمُومُ مِنَ الرِّجَالِ إِنْ كَانَ وَاحِدًا، فَسُنَّتُهُ أَنْ يَقُومَ عَنْ يَمِينِ إِمَامِهِ، وَإِنْ كَانُوا جَمَاعَةً قَامُوا فِي صَفٍّ خَلْفَ الإِمَامِ، حَتَّى يَكْمُلَ الصَّفُّ الأَوَّلُ، وَلَمْ يَجُزْ لِلرَّجُلِ أَنْ يَقُومَ خَلْفَ الإِمَامِ وَالْمَأْمُومُ وَاحِدٌ، وَلا خِلافَ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ هَذَا الْفِعْلَ لَوْ فَعَلَهُ فَاعِلٌ، فَقَامَ خَلْفَ إِمَامٍ، وَمَأْمُومٍ قَدْ قَامَ عَنْ يَمِينِهِ، خِلافُ سُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ كَانُوا قَدِ اخْتَلَفُوا فِي إِيجَابِ إِعَادَةِ الصَّلاةِ، وَالْمَرْأَةُ إِذَا قَامَتْ خَلْفَ الصَّفِّ وَلا امْرَأَةَ مَعَهَا وَلا نِسْوَةَ فَاعِلَةٌ مَا أُمِرَتْ بِهِ، وَمَا هُوَ سُنَّتُهَا فِي الْقِيَامِ. وَالرَّجُلُ إِذَا قَامَ فِي الصَّفِّ وَحْدَهُ فَاعِلٌ مَا لَيْسَ مِنْ سُنَّتِهِ، إِذْ سُنَّتُهُ أَنْ يَدْخُلَ الصَّفَّ فَيَصْطَفَّ مَعَ الْمَأْمُومِينَ، فَكَيْفَ يَكُونُ أَنْ يُشَبَّهَ مَا زُجِرَ الْمَأْمُومُ عَنْهُ مِمَّا هُوَ خِلافُ سُنَّتِهِ فِي الْقِيَامِ، بِفِعْلِ امْرَأَةٍ فَعَلَتْ مَا أُمِرَتْ بِهِ، مِمَّا هُوَ سُنَّتُهَا فِي الْقِيَامِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهَا؟ فَالْمُشَبِّهُ الْمَنْهِيَّ عَنْهُ بِالْمَأْمُورِ بِهِ مُغَفَّلٌ بَيِّنُ الْغَفْلَةِ، مُشَبِّهٌ بَيْنَ فِعْلَيْنِ مُتَضَادَّيْنِ، إِذْ هُوَ مُشَبِّهٌ مَنْهِيًّا عَنْهُ بِمَأَمْورٍ بِهِ. فَتَدَبَّرُوا هَذِهِ اللَّفْظَةَ يَبِنْ لَكُمْ بِتَوْفِيقِ خَالِقِنَا حُجَّةُ مَا ذَكَرْنَا. وَزَعَمَ مُخَالِفُونَا مِنَ الْعِرَاقِيِّينَ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ أَنَّ الْمَرْأَةَ لَوْ قَامَتْ فِي الصَّفِّ مَعَ الرِّجَالِ حَيْثُ أُمِرَ الرَّجُلُ أَنْ يَقُومَ، أَفْسَدَتْ صَلاةَ مَنْ عَنْ يَمِينِهَا، وَمَنْ عَنْ شِمَالِهَا، وَالْمُصَلِّي خَلْفَهَا، وَالرَّجُلُ مَأْمُورٌ عِنْدَهُمْ أَنْ يَقُومَ فِي الصَّفِّ مَعَ الرِّجَالِ، فَكَيْفَ يُشَبَّهُ فِعْلُ امْرَأَةٍ لَوْ فَعَلَتْ أَفْسَدَتْ صَلاةَ ثَلاثَةٍ مِنَ الْمُصَلِّينَ، بِفِعْلِ مَنْ هُوَ مَأْمُورٌ بِفِعْلِهِ؟ إِذَا فَعَلَهُ لا يُفْسِدُ فِعْلُهُ صَلاةَ أَحَدٍ
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت وابصہ بن معبد کی روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو آپ نے اُسے نماز دہرانے کا حُکم دیا - ہمارے بعض اصحاب محدثین اور اہل عراق کے مذہب کے پیروکار بعض فقہاء نے صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز کے درست ہونے کے بارے میں ایک ایسی دلیل کو اپنی حجت بنایا ہے جس کا اس مسئلہ سے دُور کا تعلق اور مشابہت بھی نہیں ہے۔ اُنہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ اُنہوں نے اور ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو اپنی دائیں جانب کھڑا کرلیا اور عورت کو اپنے پیچھے کھڑا کرلیا۔ لہٰذا یہ حضرات کہتے ہیں کہ جب عورت کے لئے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا جائز ہے، تو پھر اکیلے مرد نمازی کی صف کے پیچھے نماز بھی جائز ہے - میرے نزدیک یہ استدلال غلط ہے۔ کیونکہ عورت جب اکیلی ہو تو اُس کے ساتھ دوسری کوئی عورت موجود نہ ہو، عورت کی نماز کا طریقہ ہی یہ ہے کہ وہ صف کے پیچھے اکیلی کھڑی ہو۔ اس کے لئے امام کے ساتھ کھڑا ہونا جا ئز نہیں ہے۔ اور نہ مر دوں کے ساتھ ان کی صف میں شامل ہونا درست ہے۔ جبکہ اکیلے مرد مقتدی کی نماز کا طریقہ یہ ہے کہ وہ امام کی دائیں جانب کھڑا ہوگا اور اگر وہ زیادہ تعداد میں ہوں، تو امام کے پیچھے صف میں کھڑے ہوں گے حتّیٰ یہ کہ پہلی صف مکمّل ہو جائے اور اکیلے مقتدی کا امام کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ اہل علم کا مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی شخص نے یہ کام کیا اور وہ اکیلا ہی امام کے پیچھے کھڑا ہوگیا، جبکہ ایک مقتدی امام کی دائیں جانب کھڑا ہو چکا تھا، تو اس کا یہ کام خلاف سنّت ہوگا۔ اگرچہ نماز کو دہرانے کے وجوب میں ان کا اختلاف ہے۔ جبکہ عورت اگر صف کے پیچھے اکیلی کھڑی ہوتی ہے اور اُس کے ساتھ ایک عورت یا عورتوں کی جماعت نہ ہو، تو اُس نے وہ کام کیا ہے جس کا اُسے حُکم دیا گیا ہے اور قیام کا اس کا طریقہ ہے ـ اور جب مرد صف کے پیچھے اکیلا کھڑا ہوتا ہے تو اُس نے اپنے طریقہ نماز کی خلاف ورزی کی ہے۔ کیونکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ صف میں داخل ہو کر مقتدیوں کے ساتھ صف بنائے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ مرد کا وہ فعل جس سے اُسے منع کیا گیا ہے اور وہ اس کے طریقہ نماز کے بھی خلاف ہے، وہ عورت کے اس فعل کے مشابہ ہو جائے جس کا عورت کو حُکم دیا گیا ہے اور اکیلے ہونے کی صورت میں صف کے پیچھے کھڑے ہونے میں اُس کی سنّت اور طریقہ بھی ہے؟، اس لئے ممنوع فعل کو مامور بہ کے ساتھ مشابہت دینے والے واضح غفلت کا شکار ہیں۔ کیونکہ اُنہوں نے دو متضاد فعلوں میں تشبیہ دی ہے۔ ایک ممنوع کام کو مامور بہ کام کے مشابہ قرار دیا ہے۔ پس تم ان الفاظ میں غور و فکر کرو۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تم پر ہماری دلیل واضح ہو جائے گی - اس مسئلہ میں ہمارے مخالف اہل عراق کا موقف یہ ہے کہ اگر عورت مردوں کے ساتھ صف میں کھڑی ہوگئی، جہاں مردوں کو کھڑے ہونے کا حُکم دیا گیا ہے۔ تو وہ عورت اپنے دائیں، بائیں اور اپنے پیچھے نماز پڑھنے والے مردوں کی نماز فاسد بنا دے گی۔ حالانکہ ان کے نزدیک مرد کو یہ حُکم دیا گیا ہے کہ وہ صف میں مردوں کے ساتھ کھڑا ہو - اس لئے اس مرد کا یہ فعل عورت کے فعل سے کیسے مشابہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ (ممنوع) کام کرے تو تین آدمیوں کی نماز فاسد کر دے - لیکن اگر مرد وہی ممنوع کام کرے تو کسی ایک کی بھی نماز فاسد نہ ہو؟