سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہیں اُن کے والد نے خبر دی کہ اس درمیان کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک شور وغل سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کیا ہوا ہے؟“ اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم نے نماز کے لئے جلدی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا مت کیا کرو، جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم مجھے دیکھ لینے سے پہلے کھڑے نہ ہوا کرو اور تم سکون واطمینان اختیار کیا کرو، پھر تمہیں جتنی نماز مل جائے وہ پڑھ لو اور جو تم سے چھوٹ جائے اُسے مکمّل کرلو۔“
ضد قول من زعم انه عليه سجدتا السهو، على مذهبهم في هذه المسالة تكون سجدتا العمد، لا سجدتا السهو، إذ الماموم إنما يتعمد الجلوس في الوتر من صلاته اقتداء بإمامه إذ كان للإمام شفع، وله وتر، وتكون سجدتا السهو على اصلهم لما يجب على المرء فعله، لا لما يسهو فيفعل ما ليس له فعله على العمد. ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ عَلَيْهِ سَجْدَتَا السَّهْوِ، عَلَى مَذْهَبِهِمْ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ تَكُونُ سَجْدَتَا الْعَمْدِ، لَا سَجْدَتَا السَّهْوِ، إِذِ الْمَأْمُومُ إِنَّمَا يَتَعَمَّدُ الْجُلُوسَ فِي الْوِتْرِ مِنْ صَلَاتِهِ اقْتِدَاءً بِإِمَامِهِ إِذْ كَانَ لِلْإِمَامِ شَفْعٌ، وَلَهُ وِتْرٌ، وَتَكُونُ سَجْدَتَا السَّهْوِ عَلَى أَصْلِهِمْ لِمَا يَجِبُ عَلَى الْمَرْءِ فِعْلُهُ، لَا لِمَا يَسْهُو فَيَفْعَلَ مَا لَيْسَ لَهُ فِعْلُهُ عَلَى الْعَمْدِ.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو چیزوں کو دیکھنے کے بعد ان کے بارے میں کسی سے سوال نہیں کروں گا۔ ہم ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو وضو کیا، اور اپنی پیشانی اور اپنے عمامہ کے دونوں اطراف کا مسح کیا اور اپنے دونوں موزوں کا بھی مسح کیا ـ (دوسری بات یہ ہے کہ) امام کا اپنی رعایا کے ساتھ کسی آدمی کے پیچھے نماز ادا کرنا (جائز ہے) ـ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے تو نماز کا وقت ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (قضائے حاجت سے فارغ ہو کر) اُن تک نہ پہنچ سکے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نماز کھڑی کی اور سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا دیا، لہٰذا اُنہوں نے ابھی کچھ نماز ہی پڑھائی تھی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبدا لرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ کے پیچھے بقیہ نماز ادا کی، پھر جب سیدنا ابن عوف رضی اللہ عنہ نے سلام پھیر لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر فوت شدہ نماز مکمّل کرلی۔“ یہ جناب الدورقی کی روایت ہے۔ جبکہ جناب ابوبشر کی روایت میں ہے کہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا تو میں ایک برتن یا مشکیزے میں پانی لیکر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگ آستینوں والا ایک جبّہ زیب تن کیا ہوا تھا - لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبّے کے نیچے سے اپنے ہاتھ نکال کر وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا اور اپنی پیشانی اور عمامہ کے دونوں جانب مسح کیا - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس دیر سے تشریف لائے تو اُنہوں نے نماز کھڑی کردی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں اگر یہ حدیث اس سند سے ثابت ہو یعنی ابوبشر کی سند میں ابن سیرین کہتے ہیں: ”حدثنی عمرو بن وهب“(کہ مجھے عمرو بن وہب نے بیان کیا۔ اس طرح اُنہوں نے اپنے سماع کی صراحت کر دی ہے) لیکن حماد بن زید کی سند میں ہے، ابن سیرین کہتے ہیں: ”حدثني رجل يكني ابا عبدالله عن عمرو بن وهب“۔ (یعنی اس سند میں ابن سیرین اور عمرو بن وہب کے درمیان ابوعبداللہ نامی مجہول شخص کا واسطہ ہے۔)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم نماز کے لئے اس حالت میں آؤ کہ تم پُر سکون اور وقار ہو۔ پھر جو نماز پالو وہ پڑھ لو اور جو تم سے فوت ہو جائے اُسے مکمّل کرلو۔“
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو (دوران قراءت) ایک آیت چھوڑ دی اور لوگوں میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ (نماز کے بعد) اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ فلاں فلاں آیت بھول گئے ہیں یا وہ منسوخ ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں وہ بھول گیا تھا۔“ یہ جناب بندار کی روایت ہے اور جناب ابوموسیٰ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران قراءت کرتے ہوئے) قرآن مجید کی ایک آیت بھول گئے، جبکہ نمازیوں میں سیدنا ابی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ فلاں فلاں آیت بھول گئے ہیں یا آپ کو بھلا دی گئی ہے (منسوخ کر دی گئی ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں (منسوخ نہیں ہوئی) بلکہ میں اُسے بھول گیا تھا۔“
سیدنا مسور بن یزید الاسیدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں قراءت کرتے ہوئے سنا تو آپ نے کچھ آیات کی تلاوت چھوڑ دی۔ تو ایک شخص نے آپ سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ نے یہ آیات چھوڑ دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم نے مجھے یاد کیوں نہ کرا دیا؟“ جناب محمد بن یحیٰی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اس صحابی نے جواب دیا کہ میرے خیال میں وہ آیات منسوخ ہو گئی تھیں۔ (اس لئے میں نے آپ کو یاد نہ دلایا۔)
حضرت عبداللہ بن سائب کہتے ہیں کہ میں فتح مکّہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا کی تو اپنے جوتے اتار دئیے اور انہیں اپنی بائیں جانب رکھ لیا۔