سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک ایسی جگہ رہائش پذیر تھے جہاں لوگ آتے جاتے رہتے تھے۔ لہٰذا قافلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے واپسی پر ہمارے پاس سے گزرے، تو میں اُن کے قریب ہو کر اُن سے (قرآن مجید) سنتا رہا۔ حتّیٰ کہ میں نے کافی سارا قرآن حفظ کر لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے فتح مکہ کے منتظر تھے۔ جب مکہ فتح ہو گیا تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ ایک آدمی آ کر کہتا کہ اے اللہ کے رسول! میں فلاں قبیلے کا قاصد ہوں اور آپ کی خدمت میں ان کے اسلام قبول کرنے کی خبر لے کر حاضر ہوا ہوں۔ لہٰذا میرے والد گرامی بھی اپنی قوم کے اسلام لانے کی خبر لے کر گئے، پھر جب واپس آئے تو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ تم اُس شخص کو اپنا امام بناؤ، جسے قرآن زیادہ یاد ہو۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس بارے میں غور و فکر اور مشورہ کیا (کہ کسے امام بنایا جائے) جبکہ میں بستی میں تھا۔ دورقی کی روایت میں ہے کہ میں ایک عظیم بستی میں تھا۔ تو لوگوں کو مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا کوئی شخص نہ ملا۔ لہٰذا اُنہوں نے مجھے اپنا امام بنا لیا حالانکہ میں نابالغ لڑکا تھا۔ تو میں نے اُنہیں نماز پڑھائی۔ میں نے اپنی ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ جب میں رکوع یا سجدہ کرتا تو میری شرم گاہ ننگی ہو جاتی۔ جب ہم نے نماز مکمل کی تو ایک طویل العمر بڑھیا نے کہا کہ اپنے قاری کی شرم گاہ کو ہم سے ڈھانپو۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے مجھے ایک قمیص بنا کر دی۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے کہا تھا کہ بحرین کے بنے ہوئے ازار بند کی قمیص بنا کر دی۔ یہ بھی بیان کیا کہ وہ قمیص ملنے پر بےحد خوش ہوئے تھے۔ دورقی کی روایت میں ہے: ”تم میں سے زیادہ قرآن جاننے والے کو تمہاری امامت کرانی چاہیے۔“
قال ابو بكر: خبر النبي صلى الله عليه وسلم: «يؤم القوم اقرؤهم» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ»
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ لوگوں کی امامت ان میں سے وہ شخص کرائے جسے قرآن زیادہ یاد ہو (خواہ وہ بیٹا ہو یا آزاد کردہ غلام۔)“
والدليل على ان صلاة الإمام قد تكون ناقصة، وصلاة الماموم تامة، ضد قول من زعم ان صلاة الماموم متصلة بصلاة الإمام، إذا فسدت صلاة الإمام، فسدت صلاة الماموم، زعموَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ صَلَاةَ الْإِمَامِ قَدْ تَكُونُ نَاقِصَةً، وَصَلَاةَ الْمَأْمُومِ تَامَّةٌ، ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ صَلَاةَ الْمَأْمُومِ مُتَّصِلَةٌ بِصَلَاةِ الْإِمَامِ، إِذَا فَسَدَتْ صَلَاةُ الْإِمَامِ، فَسَدَتْ صَلَاةِ الْمَأْمُومِ، زَعَمَ
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے لوگوں کو صحیح (اول) وقت پر امامت کرائی اور مکمل نماز پڑھائی، تو اسے اور مقتدیوں کو بھی اجر و ثواب ملے گا اور جس شخص نے اس میں کوئی کمی و کوتاہی کی تو اس کا گناہ امام ہی کو ہو گا، مقتدیوں کو نہیں۔“ یہ ابن وہب کی روایت ہے۔ تمام راویوں کی حدیث کے معنی ایک ہی ہیں۔
نا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني ، نا المعتمر ، قال: سمعت حميدا ، قال: حدثني بكر ، عن حمزة بن المغيرة بن شعبة ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم " تخلف، فتخلف معه المغيرة بن شعبة"، فذكر الحديث بطوله، قال: قال: فانتهينا إلى الناس وقد صلى عبد الرحمن بن عوف ركعة، فلما احس بجيئة النبي صلى الله عليه وسلم، ذهب ليتاخر،" فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم ان صل"، فلما قضى عبد الرحمن الصلاة وسلم،" قام النبي صلى الله عليه وسلم والمغيرة فاكملا ما سبقهما" . قال ابو بكر: هذه اللفظة قد يغلط فيها من لا يتدبر هذه المسالة، ولا يفهم العلم والفقه، زعم بعض من يقول بمذهب العراقيين ان ما ادرك مع الإمام آخر صلاته، ان في هذه اللفظة دلالة على ان النبي صلى الله عليه وسلم، والمغيرة إنما قضيا الركعة الاولى ؛ لان عبد الرحمن إنما سبقهما بالاولى، لا بالثانية، وكذلك ادعوا في قول النبي صلى الله عليه وسلم:" وما فاتكم فاقضوا"، فزعموا ان فيه دلالة على انه إنما يقضي اول صلاته لا آخرها، وهذا التاويل من تدبر الفقه، علم ان هذا التاويل خلاف قول اهل الصلاة جميعا، إذ لو كان المصطفى صلى الله عليه وسلم والمغيرة بعد سلام عبد الرحمن بن عوف قضيا الركعة الاولى التي فاتتهما، لكانا قد قضيا ركعة بلا جلسة ولا تشهد، إذ الركعة التي فاتتهما، وكانت اول صلاة عبد الرحمن بن عوف، كانت ركعة بلا جلسة، ولا تشهد. وفي اتفاق اهل الصلاة ان المدرك مع الإمام ركعة من صلاة الفجر يقضي ركعة بجلسة وتشهد وسلام، ما بان وصح ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يقض الركعة الاولى التي لا جلوس فيها، ولا تشهد، ولا سلام، وإنه قضى الركعة الثانية التي فيها جلوس وتشهد وسلام، ولو كان معنى قوله صلى الله عليه وسلم:" وما فاتكم فاقضوا"، معناه: ان اقضوا ما فاتكم، كما ادعاه من خالفنا في هذه المسالة، كان على من فاتته ركعة من الصلاة مع الإمام ان يقضي ركعة بقيام وركوع وسجدتين بغير جلوس ولا تشهد ولا سلام. وفي اتفاقهم معنا انه يقضي ركعة بجلوس وتشهد ما بان وثبت ان الجلوس والتشهد والسلام من حكم الركعة الاخيرة، لا من حكم الاولى، فمن فهم العلم وعقله، ولم يكابر علم ان لا تشهد ولا جلوس للتشهد، ولا سلام في الركعة الاولى من الصلاةنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ ، نا الْمُعْتَمِرُ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدًا ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَكْرٌ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَخَلَّفَ، فَتَخَلَّفَ مَعَهُ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ"، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، قَالَ: قَالَ: فَانْتَهَيْنَا إِلَى النَّاسِ وَقَدْ صَلَّى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَكْعَةً، فَلَمَّا أَحَسَّ بِجِيئَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ،" فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ صَلِّ"، فَلَمَّا قَضَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ الصَّلاةَ وَسَلَّمَ،" قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُغِيرَةُ فَأَكْمَلا مَا سَبَقَهُمَا" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ قَدْ يَغْلَطُ فِيهَا مَنْ لا يَتَدَبَّرُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ، وَلا يَفْهَمُ الْعِلْمَ وَالْفِقْهَ، زَعَمَ بَعْضُ مَنْ يَقُولُ بِمَذْهَبِ الْعِرَاقِيِّينَ أَنَّ مَا أَدْرَكَ مَعَ الإِمَامِ آخِرَ صَلاتِهِ، أَنَّ فِي هَذِهِ اللَّفْظَةِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمُغِيرَةَ إِنَّمَا قَضَيَا الرَّكْعَةَ الأُولَى ؛ لأَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ إِنَّمَا سَبَقَهُمَا بِالأُولَى، لا بِالثَّانِيَةِ، وَكَذَلِكَ ادَّعُوا فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا فَاتَكُمْ فَاقْضُوا"، فَزَعَمُوا أَنَّ فِيهَ دَلالَةً عَلَى أَنَّهُ إِنَّمَا يَقْضِي أَوَّلَ صَلاتِهِ لا آخِرَهَا، وَهَذَا التَّأْوِيلُ مَنْ تَدَبَّرَ الْفِقْهَ، عَلِمَ أَنَّ هَذَا التَّأْوِيلَ خِلافُ قَوْلِ أَهْلِ الصَّلاةِ جَمِيعًا، إِذْ لَوْ كَانَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُغِيرَةُ بَعْدَ سَلامِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَضَيَا الرَّكْعَةَ الأُولَى الَّتِي فَاتَتْهُمَا، لَكَانَا قَدْ قَضَيَا رَكْعَةً بِلا جِلْسَةٍ وَلا تَشَهُّدٍ، إِذِ الرَّكْعَةُ الَّتِي فَاتَتْهُمَا، وَكَانَتْ أَوَّلَ صَلاةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، كَانَتْ رَكْعَةً بِلا جِلْسَةٍ، وَلا تَشَهُّدٍ. وَفِي اتِّفَاقِ أَهْلِ الصَّلاةِ أَنَّ الْمُدْرِكَ مَعَ الإِمَامِ رَكْعَةً مِنْ صَلاةِ الْفَجْرِ يَقْضِي رَكْعَةً بِجِلْسَةٍ وَتَشَهُّدٍ وَسَلامٍ، مَا بَانَ وَصَحَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْضِ الرَّكْعَةَ الأُولَى الَّتِي لا جُلُوسَ فِيهَا، وَلا تَشَهُّدَ، وَلا سَلامَ، وَإِنَّهُ قَضَى الرَّكْعَةَ الثَّانِيَةَ الَّتِي فِيهَا جُلُوسٌ وَتَشَهُّدٌ وَسَلامٌ، وَلَوْ كَانَ مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا فَاتَكُمْ فَاقْضُوا"، مَعْنَاهُ: أَنِ اقْضُوا مَا فَاتَكُمْ، كَمَا ادَّعَاهُ مَنْ خَالَفَنَا فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، كَانَ عَلَى مَنْ فَاتَتْهُ رَكْعَةٌ مِنَ الصَّلاةِ مَعَ الإِمَامِ أَنْ يَقْضِيَ رَكْعَةً بِقِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسَجْدَتَيْنِ بِغَيْرِ جُلُوسٍ وَلا تَشَهُّدٍ وَلا سَلامٍ. وَفِي اتِّفَاقِهِمْ مَعَنَا أَنَّهُ يَقْضِي رَكْعَةً بِجُلُوسٍ وَتَشَهُّدٍ مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ الْجُلُوسَ وَالتَّشَهُّدَ وَالسَّلامَ مِنْ حُكْمِ الرَّكْعَةِ الأَخِيرَةِ، لا مِنْ حُكْمِ الأُولَى، فَمَنْ فَهِمَ الْعِلْمَ وَعَقَلَهُ، وَلَمْ يُكَابِرْ عَلِمَ أَنْ لا تَشَهُّدَ وَلا جُلُوسَ لِلتَّشَهُّدِ، وَلا سَلامَ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى مِنَ الصَّلاةِ
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (قافلے سے) پیچھے رہ گئے اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ پیچھے رہ گئے۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث بیان کی۔ وہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم لوگوں کے پاس پہنچے تو سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ اُنہیں ایک رکعت پڑھا چکے تھے۔ جب اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو محسو س کیا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اشارہ کیا کہ تم ہی نماز پڑھاؤ، پھر جب سیدنا عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے نماز مکمل کی اور سلام پھیرا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اُنہوں نے وہ رکعت مکمل کی جو سیدنا عبدالرحمان رضی اللہ عنہ (اُن کے آنے سے) پہلے پڑھا چکے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں اُن لوگوں نے غلطی کی ہے جو اس میں تدبّر و تفکرنہیں کر سکے اور نہ وہ علم و دانش سے کام لیتے ہیں۔ اہل عراق کا مذہب اختیار کرنے والے بعض افراد کا یہ دعویٰ ہے کہ نمازی جو حصہ امام کے ساتھ پائے گا وہ اس کی آخری نماز ہو گی اور (وہ یہ کہتے ہیں کہ) اس روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے پہلی رکعت مکمل کی تھی۔ کیونکہ سیدنا عبدالرحمان رضی اللہ عنہ اُن کے آنے سے پہلے پہلی رکعت پڑھا چکے تھے، دوسری رکعت نہیں۔ اسی طرح انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”اور تمہاری جو نماز امام کے ساتھ فوت ہو جائے اس کی قضاء دے لو۔“ میں بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نمازی ابتدائی نماز کی قضاء دے گا، آخری حصے کی قضاء نہیں دے گا۔ علمی سوجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص جان لے گا کہ یہ تاویل تمام مسلمانوں کے قول کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمان رضی اللہ عنہ کے سلام پھیرنے کے بعد پہلی رکعت کی قضا دی ہوتی جو اُن سے فوت ہو گئی تھی، تو وہ یہ رکعت بغیر جلسہ اور تشہد کے پوری کرتے، کیونکہ ان کی جو رکعت رہ گئی تھی وہ سیدنا عبدالرحمان رضی اللہ عنہ کی پہلی رکعت تھی وہ بغیر جلسہ اور تشہد کے تھی۔ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص کو امام کے ساتھ نماز فجر کی ایک رکعت مل جائے وہ دوسری رکعت جلسہ، تشہد اور سلام کے ساتھ مکمل کرے گا۔ اس سے اس بات کی وضاحت اور تصحیح ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی رکعت کی قضا نہیں دی کہ جس میں جلسہ، تشہد اور سلام نہیں ہوتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت کی قضا دی ہے، جس میں جلسہ، تشہد اور سلام پھیرنا ہوتا ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”تمہاری جو نماز فوت ہو جائے اُسے پورا کر لو۔“ کا معنی یہ ہوتا کہ تم فوت شدہ نماز کی قضا دے لو جیسا کہ اس مسئلہ میں ہمارے مخالفین کا موقف ہے تو پھر اس شخص کے لئے جس کی امام کے ساتھ ایک رکعت فوت ہو جائے، ضروری ہے کہ وہ ایک رکعت قیام، رکوع اور دو سجدوں کے ساتھ ادا کرے اور اس میں جلسہ، تشہد اور سلام نہ پھیرے۔ حالانکہ اہل عراق کا ہمارے ساتھ اتفاق ہے کہ وہ رکعت جلسہ اور تشہد کے ساتھ ادا کرے گا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جلسہ، تشہد اور سلام پھیرنا یہ آخری رکعت کے احکام ہیں، پہلے رکعت کے نہیں۔ لہٰذا جو شخص علمی فہم و فراست رکھتا ہو اور عناد و ہٹ دھری اس کا شیوہ نہ ہو وہ جانتا ہے کہ تشہد کے لئے بیٹھنا اور سلام پھیرنا نماز کی پہلی رکعت نہیں ہے (بلکہ یہ دوسری رکعت کے احکام ہیں)۔
وإن كان الإمام من الرعية يؤم الناس بغير إذن الإمام الاعظم قال ابو بكر: خبر المغيرة بن شعبة في إمامة عبد الرحمن بن عوفوَإِنْ كَانَ الْإِمَامُ مِنَ الرَّعِيَّةِ يَؤُمُّ النَّاسَ بِغَيْرِ إِذَنِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ فِي إِمَامَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ
اگرچہ رعایا میں سے لوگوں کی امامت کرانے والے امام نے امام اعظم سے اجازت نہ لی ہو۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی امامت کے بارے میں مروی سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں غزوہ تبوک میں شرکت کی۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ آیا حتّیٰ کہ ہم نے دیکھا کہ لو گوں نے سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھایا ہوا ہے اور وہ اُنہیں نماز پڑھا رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پا لی اور آخری رکعت لوگوں کے ساتھ ادا کی، پھر جب سیدنا عبد الرحمان رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز مکمل کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ اس سے مسلمان پریشان ہو گئے اور اُنہوں نے بکثرت سبحان اللہ پڑھنا شروع کر دیا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل کی تو اُن کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر فرمایا: ”تم نے بہت اچھا کام کیا ہے“، یا فرمایا: ”تم نے درست کام کیا ہے۔“ آپ اُن پر رشک کر رہے تھے کہ اُنہوں نے نماز کو اُس کے وقت پر ادا کیا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب نماز کا وقت ہو جائے اور امام اعظم لوگوں میں موجود نہ ہو یا وہ سفر میں ان کے پیچھے رہ گیا ہو تو رعایا کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی آدمی کا اپنا امام بنا لیں جو اُنہیں نماز پڑھائے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی االلہ عنہم کے فعل کی تحسین فرمائی ہے یا اسے درست قرار دیا ہے۔ جبکہ انہوں نے سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے آگے بڑھا لیا تھا اور نماز کو اس کے وقت پر ادا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اپنا انتظار کرنے کا حکم نہیں دیا۔ مگر جب امام اعظم موجود ہو تو پھر اُس کی اجازت کے بغیر کسی شخص کے لئے امامت کرانا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمران و امیر کی اجازت کے بغیر اُس کی امامت کرانے سے منع کیا ہے۔
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم کسی شخص کو اس کی سلطنت و حکومت اور اس کے گھر میں امامت نہ کراؤ اور نہ اُس کی خصوصی مسند پر بیٹھو مگر اُس کی اجازت کے ساتھ۔ یا فرمایا: ”الّا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دے دے۔“
واستخلاف الإمام رجلا من الرعية إذا غاب عن حضرة المسجد الذي يؤم الناس فيه فتكون الإمامة بامره وَاسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ رَجُلًا مِنَ الرَّعِيَّةِ إِذَا غَابَ عَنْ حَضْرَةِ الْمَسْجِدِ الَّذِي يَؤُمُّ النَّاسَ فِيهِ فَتَكُونُ الْإِمَامَةُ بِأَمْرِهِ
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو عمرو بن عوف کے لوگوں کا باہمی جھگڑا ہو گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر اُن کی صلح کرانے کے لئے اُن کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے بلال! جب نماز عصر کا وقت ہو جائے اور میں واپس نہ آؤں تو تم ابوبکر سے عرض کرنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔“ پھر مکمل حدیث بیان کی اور حدیث میں یہ بھی بیان کیا کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران میں ہی) تشریف لے آئے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی نماز جاری رکھو۔