قال ابو بكر: خبر النبي صلى الله عليه وسلم: «يؤم القوم اقرؤهم» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ»
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ لوگوں کی امامت ان میں سے وہ شخص کرائے جسے قرآن زیادہ یاد ہو (خواہ وہ بیٹا ہو یا آزاد کردہ غلام۔)“
والدليل على ان صلاة الإمام قد تكون ناقصة، وصلاة الماموم تامة، ضد قول من زعم ان صلاة الماموم متصلة بصلاة الإمام، إذا فسدت صلاة الإمام، فسدت صلاة الماموم، زعموَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ صَلَاةَ الْإِمَامِ قَدْ تَكُونُ نَاقِصَةً، وَصَلَاةَ الْمَأْمُومِ تَامَّةٌ، ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ صَلَاةَ الْمَأْمُومِ مُتَّصِلَةٌ بِصَلَاةِ الْإِمَامِ، إِذَا فَسَدَتْ صَلَاةُ الْإِمَامِ، فَسَدَتْ صَلَاةِ الْمَأْمُومِ، زَعَمَ
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے لوگوں کو صحیح (اول) وقت پر امامت کرائی اور مکمل نماز پڑھائی، تو اسے اور مقتدیوں کو بھی اجر و ثواب ملے گا اور جس شخص نے اس میں کوئی کمی و کوتاہی کی تو اس کا گناہ امام ہی کو ہو گا، مقتدیوں کو نہیں۔“ یہ ابن وہب کی روایت ہے۔ تمام راویوں کی حدیث کے معنی ایک ہی ہیں۔