906. اس شہر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقارب کے ذریعے سے بارش طلب کرنا مستحب ہے، جس شہر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقارب کے ذریعے سے بارش طلب کی جاتی تھی
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (کے زمانہ میں) جب لوگ قحط سالی کا شکار ہوئے تو آپ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے بارش طلب کرتے۔ آپ دعا کرتے کہ اے اللہ، جب ہم قحط سالی میں مبتلا ہوتے تھے تو ہم تیرے نبی کے ذریعے سے بارش طلب کرتے تھے، تُو ہمیں بارش عطا کر دیتا تھا۔ آج ہم تیرے نبی کے چچا یا ہمارے نبی کے چچا کے ذریعے سے تجھ سے بارش طلب کرتے ہیں۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ) لوگوں کو بارش عطا کردی گئی۔ جناب محمد بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں اپنی لکھائی سے ”فَیُسْقَوْنَ“ کے لفظ ہی لکھے ہوئے دیکھے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بارش طلب کرنے کے لئے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بغیر اذان اور اقامت کے دو رکعات پڑھائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک قبلہ کی طرف کیا اور دونوں ہاتھ (دعا کے لئے) اُٹھائے ـ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کو پلٹا، اور اُس کے دائیں حصّے کو بائیں طرف اور بائیں حصّے کودائیں جانب کر دیا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نعمان بن راشد کے بارے میں میرے دل میں عدم اطمینان ہے کیونکہ امام زہری سے مروی اس کی روایات بہت زیادہ غلط ملط ہوئی ہیں۔ لہٰذ اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو پھر اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ، دعا اور اپنی چادر کی تبدیلی دو مرتبہ کی ہے۔ ایک مرتبہ نماز سے پہلے اور ایک بار نماز کے بعد۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ والے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ لوگ آپ کی طرف کھڑے ہو گئے اور بلند آواز سے عرض کرنے لگے، اے اللہ کے نبی بارش کی شدید قلت ہو چکی ہے۔ درخت سرخ ہو گئے ہیں (سوکھ گئے ہیں) اور جانور ہلاک ہورہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں بارش عطا فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَٰهُمَّ اسْقِنَا، اللَٰهُمَّ اسْقِنَا» ”اے اللہ، ہمیں بارش سے سیراب فرما، اے اللہ ہمیں پانی پلا“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم، آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا بھی ہمیں دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ اچانک ایک چھوٹا سا بادل آیا اور پورے آسمان پر پھیل گیا۔ پھر اُس نے بارش برسا دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اُترے اور نماز پڑھائی اور (گھر) تشریف لے گئے۔ اگلے جمعہ تک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو لوگ بلند آواز سے عرض کرنے لگے کہ اے اللہ کے نبی، گھر منہدم ہو گئے ہیں۔ اور راستے بند ہو گئے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہم سے بارش روک لے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے اور دعا کی «اللَٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا» ”اے اللہ، ہمارے اردگرد بارش برسا، ہم پر (مزید) بارش نہ برسا۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ منوّرہ سے بادل چھٹ گئے، مدینہ منوّرہ کے اردگرد بارش ہوتی رہی جبکہ مدینہ منوّرہ میں ایک قطرہ بھی بارش نہیں ہوئی۔ میں نے مدینہ منوّرہ کی طرف دیکھا تو وہ تاج کی طرح چمک دمک رہا تھا (اور اس کے ارد گرد موتیوں کی طرح بارش کے قطرے گر رہے تھے)۔
حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں جو صحابی ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو لیکر عید گاہ کی طرف بارش کی دعا کرنے کے لئے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر دعا کی پھر قبلہ رُخ ہوئے اور اپنی چادر کو اُلٹایا تو لوگوں کو بارش عطا کردی گئی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ شعیب بن ابی حمزہ کی روایت کے سوا میرے علم کے مطابق کسی اور روایت میں”فاسقوا“(انہیں بارش دے دی گئی) کے الفاظ نہیں ہیں۔