880. رکوع کرتے وقت «اللهُ أَكْبَرُ» کہنے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ» کہنے کا بیان ”
في كل ركوع يكون بعده قراءة، او بعد سجود في آخر ركوع من كل ركعة.فِي كُلِّ رُكُوعٍ يَكُونُ بَعْدَهُ قِرَاءَةٌ، أَوْ بَعْدَ سُجُودٍ فِي آخِرِ رُكُوعٍ مِنْ كُلِّ رَكْعَةٍ.
یہ ہر اُس رکوع کے بعد ہوگا جس کے بعد قراءت ہو یا ہر رکعت کے آخری رکوع کے بعد جس کے بعد سجدے ہوں (تحمید کہی جائے گی)
حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ، قالت: خسفت الشمس في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج إلى المسجد، فقام وكبر وصف الناس وراءه، فقرا رسول الله صلى الله عليه وسلم قراءة طويلة، ثم كبر، فركع ركوعا طويلا، ثم رفع راسه، فقال:" سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد"، ثم قام فقرا قراءة طويلة، هي ادنى من القراءة الاولى، ثم كبر فركع ركوعا طويلا، هو ادنى من الركوع الاول، ثم قال:" سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد"، ثم فعل في الركعة الاخيرة مثل ذلك، فاستكمل اربع ركعات واربع سجدات، وانجلت الشمس قبل ان ينصرف، ثم قام فخطب الناس، فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت احد، ولا لحياته، فإذا رايتموهما فافزعوا إلى الصلاة" حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَامَ وَكَبَّرَ وَصَفَّ النَّاسَ وَرَاءَهُ، فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ، فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ"، ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلا، هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ"، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الأَخِيرَةِ مِثْلَ ذَلِكَ، فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ، ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لا يُخْسَفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلاةِ"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں سورج گرہن لگا تو مسجد میں تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لئے) کھڑے ہو گئے «اللهُ أَكْبَرُ» کہا۔ اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے صفیں بنالیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی طویل قراءت فرمائی۔ پھر «اللهُ أَكْبَرُ» کہا اور طویل رکوع کیا۔ پھر رکوع سے سر مبارک اُٹھایا۔ تو «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ» کہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر طویل قراءت کی مگر یہ پہلی قراءت سے کم تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «اللهُ أَكْبَرُ» کہہ کر طویل رکوع کیا، اور یہ رکوع پہلے رکوع سے چھوٹا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ» کہا پھر آپ نے دوسری رکعت بھی اسی طرح ادا کی، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکوع اور چار سجدے مکمّل کرلیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرے نے سے پہلے ہی سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق اس کی حمد و ثنا کی۔ پھر فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں انہیں کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا، لہٰذا جب تم ان دونوں (میں سے کسی ایک) کو گرہن لگا دیکھو تو نماز پڑھنے میں جلدی کرو۔“
881. نماز کسوف میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اور «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہنے کے بعد قیام کی حالت میں دعا مانگنے اور «اللهُ أَكْبَر» کہنے کا بیان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سورج گرہن لگا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز کسوف پڑھائی اُنہوں نے نماز شروع کی تو سورة «يٰس» یا اس جیسی کوئی سورت پڑھی، پھر اُنہوں نے سورت کی مقدار کے برابر لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اُٹھایا تو «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہا پھر سورت کی مقدار برابر کھڑے ہوکر دعا کرتے رہے اور تکبیر کہتے رہے۔ پھر اپنی قراءت کے برابر لمبا رکوع کیا۔ پھر بقیہ حدیث بیان کی اور فرمایا، پھر وہ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوئے تو پہلی رکعت کی طرح تمام کام کیے۔ پھر حاضرین کو بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت میں مذکور ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہر رکعت میں چار رکوع کیے تھے۔ جیسا کہ طاؤس کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت میں ذکر ہوا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک دن سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اتنا طویل) قیام کیا کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع نہیں کرنا چاہتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا حتّیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سراُٹھانا نہیں چاہتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اُٹھایا تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر کھڑے رہے گویا) آپ سجدہ نہیں کرنا چاہتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو آپ گویا سر اُٹھانا ہی نہیں چاہتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اُٹھایا تو آپ (دیر تک بیٹھے رہے) سجدہ کرنا ہی نہ چاہتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو گویا آپ سرمبارک اُٹھانا ہی نہیں چاہتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کسوف کے بارے میں طویل حدیث مروی ہے، اور اس حدیث میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو بڑا طویل سجدہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرمبارک اُٹھایا۔ پھر دوسرا سجدہ کیا جو پہلے سجدے سے مختصر تھا۔ پھر باقی حدیث بیان کی۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک روز سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا طویل قیام کیا گویا آپ رکوع نہیں کرنا چاہتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس قدر طویل) رکوع کیا کہ جیسے آپ اپنا سر مبارک اُٹھانا ہی نہیں چاہتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک اُٹھایا (تو دیر تک کھڑے رہے) جیسے آپ سجدہ کرنا نہیں چاہتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو جیسے آپ اپنا سر اُٹھانا ہی نہیں چاہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھونکیں ماررہے تھے اور رو رو کر یہ دعا مانگ رہے تھے: ”اے میرے پروردگار، کیا تُو نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھا کہ جب تک میں ان میں موجود ہوں تو انہیں عذاب نہیں دے گا؟ اے میرے رب، کیا تُو نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو ان کو عذاب نہیں دے گا، اس حال میں کہ ہم تجھ سے بخشش کا سوال کرتے ہوں۔“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات پڑھائیں تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی تعریفات اور اس کی ثناء بیان کی۔ اور فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ لہٰذا جب ان دونوں (میں سے کسی ایک) کو گرہن لگے تو تم جلدی جلدی اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو جاؤ، پھر فرمایا: ”مجھے جنّت دکھائی گئی حتّیٰ کہ اگر میں چاہتا تو ہاتھ بڑھا کر اس کے خوشوں میں سے ایک خوشہ لے لیتا۔ اور مجھے جہنّم بھی دکھائی گئی تو میں نے پھونکیں مارنا شروع کر دیں، میں ڈرا کہ کہیں یہ تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لیلے۔ اور میں نے یہ دعا کرنی شروع کر دی ”اے میرے پروردگار، کیا تُو نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا کہ تو ان کو اس وقت تک عذاب نہیں دے گا جب تک کہ میں ان میں موجود ہوں؟ اے میرے رب، کیا تُو نے میرے ساتھ یہ وعدہ نہیں کیا کہ تو ان کو اس حال میں عذاب نہیں دے گا جبکہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جہنّم میں بلّی والی سیاہ فام لمبی حمیری عورت کو دیکھا، جس نے بلّی کو باندھے رکھا، اُسے نہ خود کچھ کھلایا پلایا نہ اُسے آزاد کیا کہ وہ زمینی کیٹرے مکوڑے کھا لیتی (لہٰذا وہ بھوکی پیاسی مرگئی) تو میں نے اُس عورت کو دیکھا کہ جب بھی وہ پیچھے ہٹتی، بلّی اُس کا گوشت نوچتی، اور جب بھی آگے آتی، تو بھی بلّی اپنے دانتوں سے اُس کا گوشت نوچتی۔ اور میں نے بنی دعدع قبیلے کے ایک فرد دوسبتی جوتوں والے کو بھی دیکھا اسے دو شاخوں والی لاٹھی کے ساتھ جہنّم میں دھکیلا جا رہا تھا۔ اور میں نے جہنّم میں اس خمدار لاٹھی والے کو بھی دیکھا جو اپنی خمدار لاٹھی کے ساتھ حاجیوں کی چیزیں چرایا کرتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ بیشک میں تو چوری نہیں کرتا، چوری تو میری خمدار لاٹھی کرتی ہے، لہٰذا میں نے اُسے جہنّم میں خمدار لاٹھی پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز پڑھنے کے لئے) کھڑے ہوئے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا طویل قیام کیا حتّیٰ کہ کہا گیا کہ آپ رکوع نہیں کریں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا حتّیٰ کہ کہا گیا کہ آپ سر نہیں اٹھائیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اُٹھایا تو بڑی دیر تک قیام کیا حتّیٰ کہ سمجھا جانے لگا کہ آپ سجدہ نہیں کریں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو بڑا طویل سجدہ کیا حتّیٰ کہ خیال کیا جانے لگا کہ آپ سر نہیں اٹھائیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اُٹھایا تو بڑی دیر تک بیٹھے رہے حتّیٰ کہ سمجھا جانے لگا کہ آپ (دوسرا) سجدہ نہیں کریں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو دوسری رکعت میں بھی اس طرح کیا، پھر سورج کا گرہن ختم ہوگیا۔ (اور وہ روشن ہوگیا)“
886. نماز کسوف کے آخر میں تشہد میں بیٹھ کر سورج روشن ہونے تک دعا کرنا اور اللہ تعالی کی طرف رغبت کا اظہار کرنا۔ جبکہ سورج اس سے پہلے (نماز کے دوران) روشن نہ ہوا ہو۔
حنش نامی آدمی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ سورج کو گرہن لگا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو گرہن کی نماز پڑھائی پھرآگے حدیث بیان کی۔ اُن دونوں نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوسری رکعت میں کھڑے ہوئے تو جیسا پہلی رکعت میں کیا اسی طرح دوسری رکعت بھی پڑھی اور پھر آپ نے تشہد میں بیٹھ کر (اللہ تعالیٰ کی طرف) رغبت اور دعا شروع کر دی یہاں تک کہ سورج روشن ہوگیا پھر لوگوں کو بتایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ جناب یوسف کے الفاظ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
جناب عروہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سورج گرہن لگنے کا واقعہ روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب سورج روشن ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے لوگوں سے خطاب فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی پھر فرمایا: ”بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، جنہیں کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ اے اُمّت محمدیہ، بیشک اللہ تعالیٰ کو اُس وقت بڑی غیرت آتی ہے جب اُس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرتے ہیں۔ اے اُمّت محمدیہ، اللہ کی قسم یا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم وہ سب کچھ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم بہت تھوڑا ہنسو اور بہت زیادہ رویا کرو۔ خبردار، کیا میں نے (اللہ کا دین) پہنچا دیا ہے؟“