قال: سمعت ابا موسى ، يقول: حدثني يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن صالح بن خوات ، عن سهل بن ابي حثمة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم. قال بندار بمثل حديث يحيى بن سعيد، وقال لي يحيى: اكتبه إلى جنبه، ولست احفظ الحديث ولكنه مثل حديث يحيى بن سعيد، وقال ابو موسى: قال لي يحيى سمعت مني حديث يحيى بن سعيد في صلاة الخوف؟ قلت: نعم، قال: فاكتبه إلى جنبه بنحوهقَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ بُنْدَارٌ بِمِثْلِ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَقَالَ لِي يَحْيَى: اكْتُبْهُ إِلَى جَنْبِهِ، وَلَسْتُ أَحْفَظُ الْحَدِيثَ وَلَكِنَّهُ مِثْلُ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَقَالَ أَبُو مُوسَى: قَالَ لِي يَحْيَى سَمِعْتَ مِنِّي حَدِيثَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ فِي صَلاةِ الْخَوْفِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاكْتُبْهُ إِلَى جَنْبِهِ بِنَحْوِهِ
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں، بندار کہتے ہیں کہ جناب یحییٰ بن سعید کی حدیث کی طرح بیان کی۔ اور مجھے یحییٰ نے کہا کہ اس کے ایک جانب لکھو، مجھے حدیث اچھی طرح یاد نہیں لیکن یحییٰ بن سعید کی حدیث کی طرح اور جناب ابوموسٰی کہتے ہیں کہ مجھے جناب یحییٰ نے کہا، کیا تم نے مجھ سے یحییٰ بن سعید کی نماز خوف کے بارے میں حدیث سنی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں تو اُنہوں نے فرمایا، تو اس کے پہلو میں لکھو، اسی طرح۔
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نماز خوف کے طریقے کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک گروہ امام کے پیچھے کھڑا ہوگا جبکہ دوسرا گروہ ان کے پیچھے (دشمن کے سامنے) کھڑا رہے گا، امام اپنے پیچھے کھڑے ہونے والے گروہ کو ایک رکوع اور دو سجدے کرائے گا۔ پھر وہ اپنی جگہ پر بیٹھا رہے گا حتّیٰ کہ وہ دوسری رکعت دو سجدوں سمیت پوری کریں گے۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی جگہ چلے جائیں گے اور وہ اُن کی جگہ آجائیں گے، تو امام اُنہیں بھی ایک رکعت دو سجدوں کے ساتھ پڑھائے گا، پھر وہ اپنی جگہ بیٹھا رہے گا حتّیٰ کہ وہ دوسری رکعت اور دو سجدے ادا کرلیں گے، پھر امام (اس گروہ کے ساتھ) سلام پھیردے گا۔
حضرت عروہ بن زبیر رحمه الله مردان بن حکم سے بیان کرتے ہیں کہ اُس نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف پڑھی ہے؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں۔ اُس نے دریافت کیا کہ کب؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ غزوہ نجد والے سال پڑھی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے لئے کھڑے ہوئے اور ایک گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا، جبکہ دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا تھا، اُن کی پُشتیں قبلہ کی طرف تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «اللهُ أَكْبَرُ» کہا، تو تمام لوگوں نے «اللهُ أَكْبَرُ» کہہ کر نماز شروع کرلی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے تھے اُنہوں نے بھی اور جو دشمن کے سامنے تھے اُنہوں نے بھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھی اور آپ کے ساتھ والے گروہ نے بھی ایک رکعت ادا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے قریبی گروہ نے سجدے کیے، جبکہ دوسرا گروہ دشمن کے سامنے صف آرا تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قریبی صف کھڑی ہوگئی۔ تو وہ دشمن کے مقابلے میں چلے گئے۔ اور وہ گروہ آگیا جو دشمن کے سامنے صف آراء تھا تو اُنہوں نے رکوع کیا اور (دو) سجدے بھی کرلیے جبکہ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدستور کھڑے تھے۔ پھر وہ کھڑے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت پڑھی تو اُنہوں نے بھی آپ کے ساتھ رکوع کیا اور سجدے کیے، پھر وہ گروہ آگیا جو دشمن کے سامنے کھڑا تھا، تو اُنہوں نے (خود ہی) دوسرا رکوع اور سجدے کرلیے، جبکہ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی (پہلا گروہ) بیٹھے رہے، پھر سلام پھیرا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں نے اکٹھے سلام پھیرا۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعات ہوگئیں اور دونوں گروہوں کے ہر شخص کی بھی دو دو رکعات ہوگئیں۔
نا ابو الازهر وكتبته من اصله، نا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني محمد بن عبد الرحمن بن الاسود بن نوفل ، وكان يتيما في حجر عروة بن الزبير وهو احد بني اسد بن عبد العزى بن قصي، عن عروة بن الزبير ، قال: سمعت ابا هريرة ، ومروان بن الحكم يساله عن صلاة الخوف، فقال ابو هريرة: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في تلك الغزوة، قال:" فصدع رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس صدعين، فذكر الحديث بمثل معناه، وذكر في الركعة الثانية، قال:" واخذت الطائفة التي صلت خلفه اسلحتهم، ثم مشوا القهقرى على ادبارهم حتى قاموا مما يلي العدو"، وزاد في آخر الحديث" فقام القوم وقد شركوه في الصلاة"نَا أَبُو الأَزْهَرِ وَكَتَبْتُهُ مِنْ أَصْلِهِ، نَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ بْنِ نَوْفَلٍ ، وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَهُوَ أَحَدُ بَنِي أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، وَمَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ يَسْأَلُهُ عَنْ صَلاةِ الْخَوْفِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ، قَالَ:" فَصَدَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ صَدْعَيْنِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ مَعْنَاهُ، وَذَكَرَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، قَالَ:" وَأَخَذَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي صَلَّتْ خَلْفَهُ أَسْلِحَتَهُمْ، ثُمَّ مَشَوُا الْقَهْقَرَى عَلَى أَدْبَارِهِمْ حَتَّى قَامُوا مِمَّا يَلِي الْعَدُوَّ"، وَزَادَ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ" فَقَامَ الْقَوْمُ وَقَدْ شَرَكُوهُ فِي الصَّلاةِ"
حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو سنا جبکہ فروان بن حکم اُن سے نماز خوف کے بارے میں پوچھ رہا تھا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں اُس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ فرماتے ہیں کہ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دوگروہوں میں تقسیم کیا پھر مذکررہ بالا حدیث کی مثل بیان کیا اور دوسری رکعت میں یہ بیان کیا کہ اس گروہ نے اسلحہ پکڑ لیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی، پھر وہ اُلٹے پاؤں چلتے ہوئے پیچھے گئے حتّیٰ کہ وہ دشمن کے قریب جا کر کھڑے ہو گئے۔ اور حدیث کے آخر میں یہ الفاظ زیادہ کیے کہ لوگ اُٹھ گئے اس حال میں کہ وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شرکت کر چکے تھے۔
وانتظار الثانية حتى تركع ركعة لتلحق بالإمام فتسجد معه السجدة الثانية، ثم ينتظرهم الإمام قائما لتسجد السجدة الثانية، وجمع الإمام الطائفتين جميعا بالركعة الثانية فيكون فراغ الإمام والمامومين جميعا من الصلاة معاوَانْتِظَارِ الثَّانِيَةِ حَتَّى تَرْكَعَ رَكْعَةً لِتَلْحَقَ بِالْإِمَامِ فَتَسْجُدَ مَعَهُ السَّجْدَةَ الثَّانِيَةَ، ثُمَّ يَنْتَظِرُهُمُ الْإِمَامُ قَائِمًا لِتَسْجُدَ السَّجْدَةَ الثَّانِيَةَ، وَجَمْعِ الْإِمَامِ الطَّائِفَتَيْنِ جَمِيعًا بِالرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ فَيَكُونُ فَرَاغُ الْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِينَ جَمِيعًا مِنَ الصَّلَاةِ مَعًا
اور دوسرے گروہ کا انتظار کرے گا تاکہ وہ ایک رکعت پڑھ کر امام کے ساتھ مل جائے تو وہ ان کے ساتھ دوسرا سجدہ کرے گا، پھر امام کھڑا ہوکر اُن کا انتظار کرے گا تاکہ وہ دوسرا سجدہ کرلیں، اور امام دونوں گروہوں کو دوسری رکعت کے لئے جمع کردے گا، اس طرح امام اور مقتدی اکٹھے نماز سے فارغ ہوں گے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر نماز خوف پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا، ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے صف آراء ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «اللهُ أَكْبَرُ» کہا تو آپ کے پیچھے صف بنانے والے گروہ نے بھی «اللهُ أَكْبَرُ» کہہ کر نماز شروع کر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو اُنہوں نے بھی رکوع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اُنہوں نے بھی سجدہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک (سجدے سے) اُٹھایا تو اُنہوں نے بھی اپنے سر اُٹھائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر تشریف فرما رہے اور اُنہوں نے دوسرا سجدہ خود ہی کرلیا، پھر وہ اُٹھے اور اپنی ایڑیوں پر مڑگئے اور الٹے پاؤں چلتے ہوئے اُن کے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے، دوسرا گروہ آگے آگیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنالی، اُنہوں نے تکبیر کہہ کر نماز شروع کی، پھر خود ہی رکوع کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دوسرا سجدہ کیا تو انہوں نے بھی آپ کے ساتھ (پہلا) سجدہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی (دوسری) رکعت کے لئے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اپنا دوسرا سجدہ خود ہی کرلیا۔ پھر دونوں گروہ کھڑے ہو گئے اور اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صفیں بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے ساتھ رکوع کیا تو اُن سب نے بھی رکو ع کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اُنہوں نے بھی سجدہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سجدے سے) سر مبارک اُٹھایا تواُنہوں نے بھی اپنے سر اُٹھالیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام بہت تیزی کے ساتھ کیا اور حسب طاقت پوری کوشش کے ساتھ تخفیف کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو اُنہوں نے بھی سلام پھیر دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ گئے جبکہ آپ کی ساری نماز میں لوگ شرکت کرچکے تھے۔