وقد روى شعبة بن الحجاج، عن عبد ربه بن سعيد، عن انس بن ابي انس، عن عبد الله بن نافع بن العمياء، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل، عن المطلب بن ابي وداعة: ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الصلاة مثنى مثنى، وتشهد في كل ركعتين، وتباءس، وتمسكن، وتقنع يديك، وتقول: اللهم، اللهم، فمن لم يفعل فهو خداج" حدثناه علي بن خشرم، اخبرنا عيسى، عن شعبة، عن عبد ربه بن سعيدوَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعِ بْنِ الْعَمْيَاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى، وَتَشَهَّدْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَتَبَاءَسْ، وَتَمَسْكَنْ، وَتَقَنَّعْ يَدَيْكَ، وَتَقُولُ: اللَّهُمَّ، اللَّهُمَّ، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَهُوَ خِدَاجٌ" حَدَّثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ
سیدنا مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز دو دو رکعات ہے۔ ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے (اللہ تعالیٰ کے سامنے) اپنی فقیری، مسکنت کا اظہار کرنا ہے اور تُو عاجزی کے ساتھ اپنے ہاتھ اُٹھا اور کہہ «اللَّهُمَّ» ، «اللَّهُمَّ» اے میرے اللہ، اے میرے اللہ (یعنی دعا مانگ) جس نے یہ کام نہ کیے تو ناقص ہے۔“
وخالف الليث بن سعد شعبة في إسناد هذا الخبر فرواه الليث، عن عبد ربه، عن عمران بن ابي انيس، عن عبد الله بن نافع بن العمياء، عن ربيعة بن الحارث، عن الفضل بن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم. حدثناه يونس بن عبد الاعلى، ثنا يحيى يعني ابن عبد الله بن بكير، ثنا الليث، فإن ثبت هذا الخبر فهذه اللفظة: «الصلاة مثنى مثنى» مثل خبر ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم. " وفي هذا الخبر زيادة شرح ذكر رفع اليدين ليقول: اللهم، اللهم، وفي خبر الليث قال: ترفعهما إلى ربك، تستقبل بهما وجهك، وتقول: يا رب يا رب. ورفع اليدين في التشهد قبل التسليم ليس من سنة الصلاة وهذا دال على انه إنما امره برفع اليدين، والدعاء، والمسالة بعد التسليم من المثنى، فاما الخبر الذي احتج به بعض الناس في الاربع قبل الظهر ان النبي صلى الله عليه وسلم صلاهن بتسليمة؛ فإنه روي بإسناد لا يحتج بمثله من له معرفة برواية الاخبار"وَخَالَفَ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ شُعْبَةَ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْخَبَرِ فَرَوَاهُ اللَّيْثُ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أُنَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعِ بْنِ الْعَمْيَاءِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حَدَّثَنَاهُ يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ثنا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ، ثنا اللَّيْثُ، فَإِنْ ثَبَتَ هَذَا الْخَبَرُ فَهَذِهِ اللَّفْظَةُ: «الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى» مِثْلَ خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. " وَفِي هَذَا الْخَبَرِ زِيَادَةُ شَرْحِ ذِكْرِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِيَقُولَ: اللَّهُمَّ، اللَّهُمَّ، وَفِي خَبَرِ اللَّيْثِ قَالَ: تَرْفَعُهُمَا إِلَى رَبِّكَ، تَسْتَقْبِلُ بِهِمَا وَجْهَكَ، وَتَقُولُ: يَا رَبِّ يَا رَبِّ. وَرَفْعُ الْيَدَيْنِ فِي التَّشَهُّدِ قَبْلَ التَّسْلِيمِ لَيْسَ مِنْ سُنَّةِ الصَّلَاةِ وَهَذَا دَالٌّ عَلَى أَنَّهُ إِنَّمَا أَمَرَهُ بِرَفْعِ الْيَدَيْنِ، وَالدُّعَاءِ، وَالْمَسْأَلَةِ بَعْدَ التَّسْلِيمِ مِنَ الْمَثْنَى، فَأَمَّا الْخَبَرُ الَّذِي احْتَجَّ بِهِ بَعْضُ النَّاسِ فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّاهُنَّ بِتَسْلِيمَةٍ؛ فَإِنَّهُ رُوِيَ بِإِسْنَادٍ لَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِهِ مَنْ لَهِ مَعْرِفَةٌ بِرِوَايَةِ الْأَخْبَارِ"
جناب لیث بن سعد نے اس حدیث کی سند میں امام شعبہ کی مخالفت کی ہے - چنانچہ لیث نے یہ روایت عبدربہ کی سند سے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاََ بیان کی ہے - جبکہ امام شعبہ نے عبدربہ کی سند سے حدیث مطلب بن ابی وداعہ سے بیان کی ہے لہٰذا اگر یہ حدیث ثابت ہو جائے تو اس کے یہ الفاظ نماز دو رکعات ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مرفوع حدیث کے الفاظ کی مثل ہیں۔ (کہ رات اور دن کی نماز دو دو رکعات ہے) اور اس حدیث میں مز ید شرح اور وضاحت آگئی ہے اس میں دعا کرتے وقت ”اَلّلھُمَّ، اَلّلھُمَّ“ کہتے ہوئے ہاتھ اُٹھانے کا ذکر ہے۔ اور لیث کی روایت میں ہے۔ تُو ان دونوں ہاتھوں کو اپنے رب کی طرف بلند کر اور اُن کا رخ اپنے چہرے کی طرف کرکے یہ کہہ کہ اے میرے رب، اے میرے رب، نیز تشہد میں سلام پھیرنے سے پہلے ہاتھ اُٹھانا یہ نماز کی سنّت نہیں ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو ہاتھ اُٹھا نے، دعا کرنے اور رب تعالیٰ سے مانگنے کا حُکم دو رکعت سے سلام پھیرنے کے بعد کے لئے دیا ہے - رہی وہ حدیث کہ جس سے بعض لوگوں نے دلیل لی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے چار رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ ادا فرمائی ہیں تو وہ ایسی (ضعیف و کمزور) سند سے مروی ہے کہ روایت حدیث کی معرفت رکھنے والا کوئی عالم اس جیسی روایت سے دلیل نہیں لیتا۔
حدثناه علي بن حجر، نا محمد بن يزيد الواسطي، ح وثنا سلم بن جنادة ⦗٢٢٢⦘، نا وكيع، عن عبيدة بن معتب الضبي، عن إبراهيم، عن سهم بن منجاب، عن قزعة، عن القرثع، عن ابي ايوب، عن النبي صلى الله عليه وسلم. وحدثنا بندار، نا ابو داود، ثنا شعبة، حدثني عبيدة، - وكان من قديم حديثه - عن إبراهيم، عن سهم بن منجاب، عن قزعة، عن القرثع، عن ابي ايوب: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اربع قبل الظهر لا يسلم فيهن تفتح لهن ابواب السماء» . هذا لفظ حديث شعبة. فاما محمد بن يزيد فإنه طول الحديث، فذكر فيه كلاما كثيرا. فحدثنا بندار، نا محمد، نا شعبة، عن عبيدة بن معتب، عن ابن منجاب، عن رجل، عن قرثع الضبي، عن ابي ايوب: عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه. وعبيدة بن معتب رحمه الله ليس ممن يجوز الاحتجاج بخبره عند من له معرفة برواة الاخبار. وسمعت ابا موسى يقول: ما سمعت يحيى بن سعيد، ولا عبد الرحمن بن مهدي حدثا عن سفيان، عن عبيدة بن معتب بشيء قط. وسمعت ابا قلابة يحكي عن هلال بن يحيى قال: سمعت يوسف بن خالد السمتي يقول: قلت لعبيدة بن معتب: هذا الذي ترويه عن إبراهيم سمعته كله؟ قال: منه ما سمعته، ومنه ما اقيس عليه قال: قلت: فحدثني بما سمعت، فإني اعلم بالقياس منك (*). وروى شبيها بهذا الخبر الاعمش، عن المسيب بن رافع، عن علي بن الصلت، عن ابي ايوب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، إلا انه ليس فيه: لا يسلم بينهن.حَدَّثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، ح وَثنا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ⦗٢٢٢⦘، نا وَكِيعٌ، عَنْ عُبَيْدَةَ بْنِ مُعَتِّبٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَهْمِ بْنِ مِنْجَابٍ، عَنْ قَزْعَةَ، عَنِ الْقَرْثَعِ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، نا أَبُو دَاوُدَ، ثنا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي عُبَيْدَةُ، - وَكَانَ مِنْ قَدِيمِ حَدِيثِهِ - عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَهْمِ بْنِ مِنْجَابٍ، عَنْ قَزْعَةَ، عَنِ الْقَرْثَعِ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّهْرِ لَا يُسَلَّمُ فِيهِنَّ تُفْتَحُ لَهُنَّ أَبْوَابُ السَّمَاءِ» . هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ شُعْبَةَ. فَأَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ فَإِنَّهُ طَوَّلَ الْحَدِيثَ، فَذَكَرَ فِيهِ كَلَامًا كَثِيرًا. فَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، نا مُحَمَّدٌ، نا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدَةَ بْنِ مُعَتِّبٍ، عَنِ ابْنِ مِنْجَابٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ قَرْثَعٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ. وَعُبَيْدَةُ بْنُ مُعَتِّبٍ رَحِمَهُ اللَّهُ لَيْسَ مِمَّنْ يَجُوزُ الِاحْتِجَاجَ بِخَبَرِهِ عِنْدَ مَنْ لَهُ مَعْرِفَةٌ بِرِوَاة الْأَخْبَارِ. وَسَمِعْتُ أَبَا مُوسَى يَقُولُ: مَا سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، وَلَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ حَدَّثَا عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدَةَ بْنِ مُعَتِّبٍ بِشَيْءٍ قَطُّ. وَسَمِعْتُ أَبَا قِلَابَةَ يَحْكِي عَنْ هِلَالِ بْنِ يَحْيَى قَالَ: سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ خَالِدٍ السَّمْتِيَّ يَقُولُ: قُلْتُ لِعَبِيدَةَ بْنِ مُعَتِّبٍ: هَذَا الَّذِي تَرْوِيهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ سَمِعْتَهُ كُلَّهُ؟ قَالَ: مِنْهُ مَا سَمِعْتُهُ، وَمِنْهُ مَا أَقِيسُ عَلَيْهِ قَالَ: قُلْتُ: فَحَدِّثْنِي بِمَا سَمِعْتَ، فَإِنِّي أَعْلَمُ بِالْقِيَاسِ مِنْكَ (*). وَرَوَى شَبِيهًا بِهَذَا الْخَبَرِ الْأَعْمَشُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الصَّلْتِ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ: لَا يُسَلِّمُ بَيْنَهُنَّ.
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظہر سے پہلے چار رکعات، نمازی ان میں سلام نہ پھیرے تو ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ یہ جناب شعبہ کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جبکہ جناب محمد بن یزید نے بڑی طویل حدیث بیان کی ہے اور اس میں بہت ساری باتیں ذکر کی ہیں (آگے امام صاحب نے اپنی سند بیان کی ہے) اور عبیدہ بن معتب رحمه الله کا شمار ان راویوں میں نہیں ہوتا جن کی روایت سے علمائے روایت استدلال کرتے ہیں۔ اور میں نے جناب ابوموسیٰ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے کبھی امام یحییٰ بن سعید اور امام عبدالرحمان بن مہدی رحمہ اللہ کو سفیان کے واسطے سے عبیدہ بن معتب سے کوئی روایت بیان کرتے نہیں سنا۔ اور میں نے جناب ابو قلابہ کو ہلال بن یحییٰ سے بیان کرتے ہوئے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے یوسف بن خالد سمتی کو فرماتے ہوئے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب عبیدہ بن معتب سے پوچھا، جو روایات آپ ابراہیم سے بیان کرتے ہیں، کیا آپ نے وہ تمام روایات اُن سے سنی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ان میں سے کچھ میں نے اُن سے سنی ہیں، اور کچھ ایسی ہیں کہ میں ان پر قیاس کر لتیا ہوں۔ جناب یوسف کہتے ہیں کہ میں نے کہا تو آپ مجھے صرف وہ احادیث بیان کریں جو آپ نے سنی ہیں، کیونکہ میں قیاس کے بارے آپ سے زیادہ جانتا ہوں اور اس روایت کے مشابہ روایت جناب اعمش نے مسیّب بن رافع کی سند سے سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے مگر اس میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں کہ ”ان کے درمیان سلام نہ پھیرے۔“
امام صاحب نے امام اعمش کی مکمّل سند بیان کی ہے - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ (اس سند کے راوی) علی بن صلت کو میں نہیں جانتا اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کس ملک کا باشندہ ہے۔ اور میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ کیا وہ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے ملا ہے یا نہیں؟ میرے علم کے مطابق اس قسم کی (ضعیف و کمزور) اسانید سے صرف کوئی مخالف (ضدی، ہٹ دھرم) یا جا ہل شخص ہی استدلال کر سکتا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے عباس، اے چچا جان، کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں، کیا میں آپ کو تحفہ اور انعام نہ دوں؟ کیا میں آپ کے لئے دس چیزیں نہ بیان کروں جب آپ وہ دس چیزوں کو کرلیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے پہلے اور پچھلے، پر انے اور نئے، غلطی سے کیے ہوئے اور عمداََ سر زد ہونے والے، چھوٹے اور بڑے، خفیہ اور علانیہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ وہ دس چیزیں یہ ہیں۔ تم چار رکعات اس طرح پڑھو کہ ہر رکعت میں سوره الفاتحه کے ساتھ کوئی اور سورت بھی تلاوت کرو، پھر جب پہلی رکعت میں قراءت سے فارغ ہو جاؤ تو کھڑے کھڑے یہ کلمات پندرہ مرتبہ پڑھو، «سُبْحَانَ اللهِ، وَالحَمْدُ لِلَٰهِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللَٰهُ أَكْبَرُ» ”اللہ پاک ہے، اور تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔“ پھر تم رکوع کرو تو رکوع کی حالت میں یہی کلمات دس مرتبہ پڑھو، پھر رکوع سے سر اُٹھا کر یہ کلمات دس بار پڑھو، پھر سجدہ کرو تو یہ کلمات دس دفعہ پڑھو، پھر سجدے سے سر اُٹھا کر یہ کلمات دس مرتبہ پڑھو، پھر سجدہ کرو تو یہ کلمات دس بار پڑھو، پھر سجدے سے سر اُٹھا کر دس بار پڑھو، اس طرح ہر رکعت میں یہ کلمات پچھتّر مرتبہ ہو جائے گا اس طرح چاروں رکعات میں پڑھو گے، اگر تمہیں استطاعت ہو تو ہر روز ایک بار یہ نماز پڑھ لیا کرو، اگر ہر روز ممکن نہ ہو تو ہفتے میں ایک بار پڑھ لیا کرو، اگر تم یہ بھی نہ کر سکو تو ہر مہینے میں ایک بار ادا کر لیا کرو، اگر تم سے یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کرو، اگر تم یہ بھی نہ کر سکو تو پوری عمر میں ایک بار پڑھ لینا۔“ جناب ابراہیم بن حکم بن ابان نے اپنے باپ کے واسطے کے ساتھ حضرت عکرمہ سے یہ روایت مرسل بیان کی ہے، اس میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا نام ذکر نہیں کیا۔ ہمیں یہ روایت محمد بن رافع نے ابراہیم بن حکم سے بیان کی ہے۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن علایہ سے واپس تشریف لائے حتیٰ کہ جب بنی معاویہ کی مسجد کے پاس سے گزرنے لگے تو اس میں داخل ہو گئے اور دو رکعت نماز ادا کی، اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب سے بڑی لمبی دعا مانگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے طرف مڑے اور فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے تین دعائیں مانگیں تو اس نے میرے دو دعائیں قبول فرمائیں اور ایک قبول نہیں فرمائی۔ میں نے اپنے رب سے یہ دعا مانگی کہ میری اُمّت کو قحط سالی کے ساتھ ہلاک نہ کرنا، تو میری یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کرلی۔ اور میں نے یہ دعا کی کہ میری اُمّت کو غرق کرکے ہلاک نہ کرنا تو اُس نے یہ بھی قبول فرمالی۔ اور میں نے اس سے سوال کیا کہ ان کی باہمی جنگ نہ ہو تو یہ دعا قبول نہیں فرمائی۔“
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتے ہوئے باہر نکلا، میں جس شخص کے پاس سے بھی گزرتا، اُس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پو چھتا تو وہ جواب دیتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر پہلے گزرے ہیں۔ حتیٰ کہ میں ایک جگہ سے گزرنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کیا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمّل کرلی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل نماز ادا فرمائی۔ میں نے عرض کی کہ (اللہ کے رسول) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی طویل نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (پہلے کبھی) اس طرح نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں نے ترغیب و ترہیب والی نماز ادا کی ہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگیں تو اُس نے میری دو دعائیں قبول کرلیں اور ایک قبول نہیں فرمائی۔ میں نے اُس سے دعا کی کہ وہ میری اُمّت کو غرق کرکے ہلاک نہ کرے تو میری یہ دعا قبول فرمالی، اور میں نے اُس سے سوال کیا کہ اُن پر اُن کے دشمن کو مسلط نہ کرنا تو اُس نے میری یہ دعا بھی قبول کرلی - اور میں نے یہ دعا مانگی کہ ان کی باہمی خانہ جنگی نہ ہو تو اُس نے میری یہ دعا رد کردی۔“
سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے عافیت و سلامتی عطا فرما دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو میں دعا مؤخر کر دیتا ہوں (تم صبر کرنا) تو یہ (تمہارے حق میں) بہت بہتر ہے۔ اور اگر تم چاہو تو میں دعا کر دیتا ہوں۔“ جناب ابوموسیٰ کی روایت میں ہے کہ”اُس شخص نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرما دیں جناب ابوموسیٰ اور محمد بن بشار کی روایت میں یہ ہے کہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے وضو کرنے کا حُکم دیا۔ جناب بندار کی روایت میں ہے کہ ”اچھی طرح وضو کرنے کا حُکم دیا“ پھر دونوں راویوں نے کہا کہ اور دو رکعت نماز پڑھ کر یہ دعا مانگو۔ «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِي اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ» ”اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور میں تیری طرف تیرے نبی محمد نبی رحمت کے ذریعے سے متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنے رب کی طرف توجہ کی، اپنی اس ضرورت و حاجت کے پورا کرانے کے لئے، تاکہ وہ میری یہ حاجت پوری فرما دے۔ اے اللہ، (اپنے نبی کی) سفارش میرے لئے قبول فرما۔“ ابوموسٰی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اور اس نے میری سفارش اس کے بارے میں قبول فرمالی۔ فرماتے ہی گویا کہ بعد میں ان الفاظ میں شک ہو گیا ”وَشَفَّعَنِي فِيْهِ“(اس لئے بعد میں بیان نہیں کرتے تھے۔)
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منگنی کا پیغام چھپا کر رکھ، پھر وضو کر اچھی طرح پھر نماز پڑھ جتنی اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی پھر اپنے رب کی حمد اور بزرگی بیان کر پھر یہ دعا مانگو، «اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةٍ (تُسَمَّيْهَا بِاِسْمِهَا) خَيْراً لِيْ فِيْ دِيْنِي وَدُنْيَايَ وَاٰخِرَتِى فَاقْدُرْهَا لِي، وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْراً لِيْ مِنْهَا فِيْ دِيْنِي وَدُنْيَايَ وَاٰخِرَتِى فَاقْضِ لِيْ بِهَا» : اے اللہ بیشک تو قادر ہے اور میں قادر نہیں ہوں، تو جانتا ہے میں نہیں جانتا، تو غیبوں کو خوب جاننے والا ہے پس اگر تو فلاں عورت کو (اس کا نام لو) میرے لئے دین و دنیا اور میری آخرت کے حق میں بہتر سمجھتا ہے تو اُسے میرے مقدر میں کر دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی دوسری عورت میرے لئے میرے دین و دینا اور میری آخرت کے حق میں بہتر ہے تو اس کا میرے حق میں فیصلہ فرما دے، یا فرمایا: ”اُسے میرے مقدر میں کر دے۔“