سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فجر کی دو رکعات (سنّت) میں یہ آیت (آخر تک) تلاوت فرماتے تھے: «قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ» ”تم کہو، ہم اللہ پر ایمان لائے، اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اور جو ابراہیم پر نازل کیا گیا“ آخر آیت تک [ سوره البقرۃ: 136 ] اور دوسری رکعت میں یہ آیت پڑھتے «قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ۔۔۔ اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ» [ سورة آل عمران: 64 ]”آپ کہہ دیجیے، اے اہل کتاب ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔۔۔۔ اس بات کے گواہ رہو کہ بیشک ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔“
سیدنا قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی جبکہ اُنہوں نے فجر کی دو سنّتیں ادا نہیں کی تھیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، تو وہ کھڑے ہوئے اور فجر کی دو سنّتیں ادا کیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روکا نہیں۔ جناب سعد کے دادا سیدنا قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز اداکی، پھر اُنہوں نے اُٹھ کر دو رکعات (سنّت) پڑھنی چاہیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ دو رکعتیں کونسی ہیں؟“ اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، یہ فجر کی دو سنّتیں ہیں، میں انہیں ادا نہیں کر سکا تھا،۔ تو وہ یہ دو رکعتیں ہیں پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نماز فجر کی دو سنّتیں بھول جائے تو وہ انہیں سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھ لے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رات کے آخری حصّے میں آرام کے لئے پڑاؤ ڈالا، پھر ہم سورج طلوع ہونے کے بعد ہی بیدار ہوئے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر شخص اپنی سواری کی لگام پکڑ لے (اور یہاں سے چل دے) کیونکہ اس جگہ شیطان ہمارے پاس آ گیا ہے۔ (اور ہماری نماز فوت ہو گئی ہے)“ چنانچہ ہم نے حُکم کی تعمیل کی (کچھ آگے جا کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر اذان کے بعد دو رکعات سنّت ادا کیں اور نماز فجر پڑھائی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شام کو حاضر ہوا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری خالہ سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے۔ چنانچہ (رات کے وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُٹھ کر نماز تہجّد پڑھی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو سنّتیں ادا کیں تو یہ دعا مانگی۔ «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِكَ تَهْدِي بِهَا قَلْبِي، وَتَجْمَعُ بِهَا شَمْلِیْ، وَتَلُمُّ بِهَا شَعَثِي، وَتَرُدُّ بِهَا الْغَیِّ، وَتُصْلِحُ بِهَا دِیْنِیْ، وَتَحْفَظُ بِهَا غَائِبِي، وَتَرْفَعُ بِهَا شَاهِدِي، وَتُزَكِّي بِهَا عَمَلِي، وَتَبْیَضُّ بِھَا وَجْھِیْ، وَتُلْهِمُنِي بِهَا رُشَدِي، وَتَعْصِمُنِي بِهَا مِنْ كُلِّ سُوءٍ، اللَّهُمَّ أَعْطِنِي إِيمَانًا صَادِقاً، وَيَقِينًا لَيْسَ بَعْدَهُ كُفْرٌ، وَرَحْمَةً أَنَالُ بِهَا شَرَفَ كَرَامَتِكَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْفَوْزَ فِي الْقَضَاءِ، وَنُزُلَ الشُّهَدَاءِ، وَعَيْشَ السُّعَدَاءِ، وَمَرَافَقَةَ الْأنْبِيَاءِ، وَالنَّصْرَ عَلَى الأَعْدَاءِ۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أُنْزِلُ بِكَ حَاجَتِي وَإِنْ قَصُرَ رَأْيِي، وَضَعُفَ عَمَلِي، وَافْتَقَرْتُ إِلَى رَحْمَتِكَ، فَأَسْأَلُكَ يَا قَاضِيَ الأُمُورِ وَيَا شَافِيَ الصُّدُورِ كَمَا تُجِيرُ بَيْنَ الْبُحُورِ أَنْ تُجِيرَنِي مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ، وَمِنْ دَعْوَةِ الثُّبُورِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْقُبُورِ۔ اللَّهُمَّ مَا قَصُرَ عَنْهُ رَأْيِي، وَضَعُفَ عَنْهُ عَمَلِيْ، وَلَمْ تَبْلُغْهُ نِيَّتِي مِنْ خَيْرٍ وَعَدْتَّهُ أَحَدًا مِنْ عِبَادِكَ، أَوْ خَيْرٍ أَنْتَ مُعْطِيهِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، فَإِنِّي أَرْغَبُ إِلَيْكَ فِيهِ، وَأَسْأَلُكَ یَا رَبَّ الْعَالَمِينَ۔ اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا هُدَاۃً مُهْتَدِينَ، غَيْرَ ضَالِّينَ وَلاَ مُضِلِّينَ، وَحَرْباً لِأَعْدَائِكَ، سَلَمًا لِأَوْلِيَائِكَ، نُحِبُّ بِحُبِّكَ النَّاسَ، وَنُعَادِي بِعَدَاوَتِكَ مَنْ خَالَفَكَ۔ اللَّهُمَّ هَذَا الدُّعَاءُ، وَعَلَيْكَ الاِسْتِجَابَةُ، أَوِالْإِجَابَةُ، شَكَّ ابْنُ خَلْفٍ، وهٰذَا الْجَهْدُ، وَعَلَيْكَ التُّكْلَانُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَٰهِ۔ اللَّهُمَّ ذَا الْحَبْلِ الشَّدِيدِۃِ وَالأَمْرِ الرَّشِيدِ، أَسْأَلُكَ الأَمْنَ يَوْمَ الْوَعِيدِ، وَالْجَنَّةَ يَوْمَ الْخُلُودِ، مَعَ الْمُقَرَّبِينَ الشُّهُودِ، الرُّكَّعِ السُّجُودِ الْمُوفِينَ بِالْعُهُودِ، إِنَّكَ رَحِيمٌ وَدُودٌ، وَأَنْتَ تَفْعَلُ مَا تُرِيدُ، سُبْحـانَ الَّذِي تُعْطِفُ الْعِزَّ وَقَالَ بِهٖ، سُبْحـانَ الَّذِي لَبِسَ الْمَجْدَ وَتَكَرَّمَ بِهٖ، سُبْحـانَ الَّذِي لاَ يَنْبَغِي التَّسْبِيْحُ إِلَّا لَهُ، سُبْحـانَ الَّذِي أَحْصٰی کُلَّ شَیْءٍ فَعَلَّمَهُ، سُبْحـانَ ذِی الْفَضْلِ وَالنَّعَمِ، سُبْحـانَ ذِی الْقُدْرَةِ وَالْكَرَمِ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لِیْ نُوْرًا فِیْ قَلْبِیْ، وَ نُوْرًا فِیْ قَبْرِیْ، وَ نُوْرًا فِیْ سَمْعِیْ، وَ نُوْرًا فِیْ بَصَرِیْ، وَ نُوْرًا فِیْ شَعْرِیْ، وَ نُوْرًا فِیْ بَشَرِیْ، وَ نُوْرًا فِیْ لَحْمِیْ، وَ نُوْرًا فِیْ دَمِیْ، وَ نُوْرًا فِیْ عِظَامِیْ، وَ نُوْرًا مِنْ بَیْنَ یَدَیَّ، وَ نُوْرًا مِنْ خَلْفِیْ، وَ نُوْرًا عَنْ یَمِیْنِیْ، وَ نُوْرًا عَنْ شِمَالِیْ، وَ نُوْرًا مِنْ فَوْقِیْ، وَ نُوْرًا مِنْ تَحْتِیْ، اَللّٰھُمَّ زِدْنِیْ نُوْرًا، وَ أَعْطِنِیْ نُوْرًا، وَ اجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا.» ” اے اللہ میں تجھ سے تیری عظیم رحمت کا سوال کرتا ہوں کہ جس کے ساتھ تو میرے دل کو ہدایت عطا فرما دے، تو اس کے ساتھ میرے متفرق امور کو جمع فرما دے اور میرے پراگندہ و منتشر کاموں کو اکٹھا فرما دے۔ میری کجی کو درست کردے، اس کے ساتھ میرے دین کی اصلاح فرما دے اور میرے باطنی اعمال کی حفاظت فرما دے، میرے ظاہری اعمال کو بلند و بالا فرما دے، اور اس کے ساتھ میرے اعمال کو پاکیزہ بنا دے، اس کے ساتھ میرے چہرے کو روشن فرما دے، اور مجھے اس کے ساتھ رشد و ہدایت والے کاموں کی توفیق عطا فرما (جن سے تیری رضا و خوشنودی حاصل ہو) مجھے اس کے ساتھ ہر برائی سے محفوظ فرما، اے اللہ، مجھے سچا ایمان اور ایسا عظیم یقین عطا فرما جس کے بعد کوئی کفر نہ ہو، اور ایسی عظیم رحمت نصیف فرما جس کے ساتھ میں دنیا و آخرت میں شرف و منزلت پالوں۔ اے اللہ، میں تجھ سے فیصلے کے وقت کامیابی، شہداء کا مقام و مرتبہ، سعادت مندوں کی زندگی، انبیائے کرام کی رفاقت اور دشمنوں پر غلبہ اور مدد کا طلبگار ہوں۔ اے اللہ، میں تیرے سامنے اپنی حاجت و ضرورت پیش کرتا ہوں اگرچہ میری عقل ناقص، اور میرا عمل ضعیف و کمزور ہے۔ میں تیری رحمت کا محتاج ہوں لہٰذا میں تجھ ہی سے مانگتا ہوں، اے معاملات کا فیصلہ فرمانے والے، اے سینوں کو (ریا کاری جیسے امراض سے) شفا دینے والے، تو جس طرح سمندروں کو (باہم) ملنے سے روکتا ہے، مجھے بھی جہنم کے عذاب سے پناہ عطا فرما۔ اور ہلاکت کی دعا کرنے سے محفوظ فرما۔ اور قبر کے فتنے سے بچا۔ اے اللہ، جس خیر و بھلائی (کے سوال تک) میری عقل نہ پہنچ سکی، اور میرا عمل بھی اس سے کمزور ہوا اور میری نیت و ارادہ بھی اس تک نہ پہنچ سکا اور تو نے اپنے بندوں میں سے کسی کے ساتھ اس کے عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہو یا وہ خیر و بھلائی جو تُو اپنی کسی مخلوق کو عطا کرنے والا ہو، تو میں بھی اس کی رغبت و شوق رکھتا ہوں، اور تجھ سے اس کا سوال کرتا ہوں، اے جہانوں کو پالنے والے۔ اے اللہ، ہمیں سیدھی راہ دکھانے والا ہدایت یافتہ بنا دے، گمراہ ہونے والا اور گمراہ کرے والے نہ بنانا، ہمیں اپنے دشمنوں کے لئے جنگ اور اپنے دوستوں کے لئے امن و سلامتی والا بنا - ہم تیری محبت کی بنا پر لوگوں سے محبت و پیار کریں، اور تیری دشمنی کی بدولت تیرے دشمنوں سے عداوت رکھیں۔ اے اللہ، یہ میری دعا ہے اور تو قبول و منظور فرما۔ اور یہ میری جدوجہد ہے اور تجھ پر ہی بھروسہ ہے۔ اور اللہ کی مدد و حمایت کے بغیر نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت نہیں ہے - اے اللہ، مظبوط رسّی (دین) والے، اور درست و سیدھے معاملے والے، میں تجھ سے عذاب کے دن امن کا سوال کرتا ہوں، اور ہمیشگی کے دن جنّت مانگتا ہوں، اپنے پروردگار کا دیدار کرنے والے مقربین کے ساتھ کثرت سے رکوع و سجود کرنے والوں اور وعدہ پورا کرنے والوں کے ساتھ، بیشک تو بڑا مہربان اور محبت و شفقت کر نے والا ہے، اور تُو جو چاہتا ہے کر تا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے عزت کی چادر اوڑھی اور اُسے اپنے لئے خاص فرمایا۔ پاک ہے وہ ذات جس نے عظمت و کبریائی کا لباس پہنا اور اس کے ساتھ مکرم ہوا ـ پاک ہے وہ ذات کہ جس کے سوا کسی کے لئے تسبیح جائز نہیں ہے۔ وہ ذات پاک ہے جس نے ہر چیز کو شمار کیا اور وہ اُسے جانتا ہے۔ پاک ہے وہ ذات فضل و انعام والی۔ پاک ہے وہ ذات قدرت و کرم والی۔ اے اللہ، میرے دل میں نور ڈال دے، میری قبر میں نور کردے، میرے کانوں میں نور ڈال دے، میری آنکھوں میں نور پیدا کر دے، میرے بالوں میں نور ڈال دے، اور میری جلد میں نور پیدا فرما دے، میرے گوشت میں نور ڈال دے، میرے خون میں نور پیدا کر دے، میری ہڈیوں میں بھی نور، اور میرے سامنے بھی نور، اور میرے پیچھے بھی نور، میرے دائیں جانب بھی نور، میرے بائیں جانب بھی نور، میرے اوپر بھی ایک نور اور میرے نیچے بھی نور کر دے۔ اے اللہ، میرے نور میں اضافہ فرما، مجھے نور عطا فرما اور میرے لئے نور ہی نور پیدا فرمادے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص فجر کی دو سنّتیں ادا کرے تو اسے اپنی دائیں کروٹ پر لیٹنا چاہیے۔ تو مروان بن حکم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا تو کیا ہم میں سے کسی شخص کے لئے مسجد کی طرف چلنا کافی نہیں ہو گا۔ حتیٰ کہ وہ (سنّتیں پڑھ کر) لیٹ جائے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تک ان کی یہ بات پہنچی تو اُنہوں نے فرمایا کہ ابوہریرہ (ہمیں) بکثرت احادیث بیان کرتے ہیں تو ان سے عرض کی گئی کہ وہ جو بات بیان کر رہے ہیں کیا آپ اُس کا انکار کرتے ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ لیکن اُنہوں نے (بکثرت احادیث بیان کرنے میں) جرأت سے کام لیا اور ہم بزدل بنے رہے، لہٰذا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو اُنہوں نے فرمایا تو اس میں میرا کیا قصور ہے کہ میں نے (فرامین نبوی) یاد رکھے اور وہ بھول گئے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں اپنی خالہ سے ملنے گیا اور میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی موافقت کی (یعنی یہ رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میری خالہ کے ہاں تھی) آگے حدیث بیان کی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت (سنّتیں) پڑھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خرّاٹے سنے پھر نماز کی اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور نماز پڑھی۔
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما امر بالاضطجاع بعد ركعتي الفجر امر ندب وإرشاد لا امر فرض وإيجاب، والرخصة في الحديث بعد ركعتي الفجر وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ بِالِاضْطِجَاعِ بَعْدَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ أَمْرَ نَدْبٍ وَإِرْشَادٍ لَا أَمْرَ فَرْضٍ وَإِيجَابٍ، وَالرُّخْصَةِ فِي الْحَدِيثِ بَعْدَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعت (سنّت) ادا کرتے، پھر اگر میں جاگ رہی ہوتی تو میرے ساتھ بات چیت کر لیتے، اور اگر میں سوئی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کھڑے ہونے تک لیٹ جاتے۔