سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سفر و حضر میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اسی طرح جناب محزمی نے ہمیں یہ حدیث مرفوع بیان کی ہے اگرچہ انہوں نے اس حدیث کی سند کو یاد رکھا ہے اور اسے مرفوع بیان کیا ہے مگر یہ حدیث غریب ہے اسی طرح جناب زہری کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت بھی غریب ہے۔
سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکّہ والے سال، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکّہ والے دن نماز ادا فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوتے اتار کر اپنی بائیں جانب رکھ لیے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو وہ اپنے جوتے اپنی دائیں جانب اور اپنی بائیں جانب نہ رکھے، مگر یہ اس کی بائیں جانب کوئی نمازی موجود نہ ہو (تو پھر رکھ لے) اور اُسے چاہیے کہ انہیں اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان رکھ لے۔“ جناب الدورقی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں، ”اور وہ اپنی بائیں جانب اپنے جوتے نہ رکھے الا یہ کہ اس جانب کوئی نہ ہو“ اور انہوں نے دائیں جانب کا تذکرہ نہیں کیا۔
والدليل على ان المصلي إذا صلى في نعل وثوب طاهر عنده، ثم بان عنده ان النعل او الثوب كان غير طاهر، ان ما مضى من صلاته جائز عنه لا يجب عليه إعادته، إذ المرء إنما امر ان يصلي في ثوب طاهر عنده، لا في المغيب عند اللهوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْمُصَلِّيَ إِذَا صَلَّى فِي نَعْلٍ وَثَوْبٍ طَاهِرٍ عِنْدَهُ، ثُمَّ بَانَ عِنْدَهُ أَنَّ النَّعْلَ أَوِ الثَّوْبَ كَانَ غَيْرَ طَاهِرٍ، أَنَّ مَا مَضَى مِنْ صَلَاتِهِ جَائِزٌ عَنْهُ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ إِعَادَتَهُ، إِذِ الْمَرْءُ إِنَّمَا أُمِرَ أَنْ يُصَلِّيَ فِي ثَوْبٍ طَاهِرٍ عِنْدَهُ، لَا فِي الْمُغَيَّبِ عِنْدَ اللَّهِ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھارہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوتے اتار دیے، توصحابہ کرام نے بھی اپنے جوتے اتار دیے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: ”تم نے اپنے جوتے کیوں اتار دیے؟“ اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتے اتار دیے ہیں تو ہم نے بھی اتار دیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے تھے تو اُنہوں نے مجھے بتایا کہ جو توں میں گندگی لگی ہوئی ہے (اس لئے میں نے اتار دیے) اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں آئے تو اپنے جوتے کو پلٹ کر دیکھ لے، اگر انہیں گندگی لگی ہو تو انہیں زمین کے ساتھ رگڑ کر صاف کر لے پھر ان میں نماز پڑھ لے۔“ یہ یزید بن ہارون کی روایت ہے، جب کہ ابوالولید کی روایت میں ہے کہ ”بیشک جبرائیل علیہ السلام نے مجھے بتایا تھا کہ ان میں گندگی یا پلیدگی لگی ہوئی ہے۔“
إذا خيل إليه انه قد احدث فيها، والدليل على ان يقين الطهارة لا يزول إلا بيقين حدث وان الصلاة لا تفسد بالشك في الحدث حتى يستيقن المصلي بالحدث إِذَا خُيِّلَ إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ فِيهَا، وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنْ يَقِينَ الطَّهَارَةِ لَا يَزُولُ إِلَّا بِيَقِينِ حَدَثٍ وَأَنَّ الصَّلَاةَ لَا تَفْسُدُ بِالشَّكِّ فِي الْحَدَثِ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ الْمُصَلِّي بِالْحَدَثِ
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جو نماز کی حالت میں کچھ محسوس کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تک نماز نہ توڑے جب تک آواز نہ سن لے یا بو نہ پائے۔“