والدليل على ان المصلي إذا صلى في نعل وثوب طاهر عنده، ثم بان عنده ان النعل او الثوب كان غير طاهر، ان ما مضى من صلاته جائز عنه لا يجب عليه إعادته، إذ المرء إنما امر ان يصلي في ثوب طاهر عنده، لا في المغيب عند اللهوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْمُصَلِّيَ إِذَا صَلَّى فِي نَعْلٍ وَثَوْبٍ طَاهِرٍ عِنْدَهُ، ثُمَّ بَانَ عِنْدَهُ أَنَّ النَّعْلَ أَوِ الثَّوْبَ كَانَ غَيْرَ طَاهِرٍ، أَنَّ مَا مَضَى مِنْ صَلَاتِهِ جَائِزٌ عَنْهُ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ إِعَادَتَهُ، إِذِ الْمَرْءُ إِنَّمَا أُمِرَ أَنْ يُصَلِّيَ فِي ثَوْبٍ طَاهِرٍ عِنْدَهُ، لَا فِي الْمُغَيَّبِ عِنْدَ اللَّهِ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھارہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوتے اتار دیے، توصحابہ کرام نے بھی اپنے جوتے اتار دیے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: ”تم نے اپنے جوتے کیوں اتار دیے؟“ اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتے اتار دیے ہیں تو ہم نے بھی اتار دیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے تھے تو اُنہوں نے مجھے بتایا کہ جو توں میں گندگی لگی ہوئی ہے (اس لئے میں نے اتار دیے) اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں آئے تو اپنے جوتے کو پلٹ کر دیکھ لے، اگر انہیں گندگی لگی ہو تو انہیں زمین کے ساتھ رگڑ کر صاف کر لے پھر ان میں نماز پڑھ لے۔“ یہ یزید بن ہارون کی روایت ہے، جب کہ ابوالولید کی روایت میں ہے کہ ”بیشک جبرائیل علیہ السلام نے مجھے بتایا تھا کہ ان میں گندگی یا پلیدگی لگی ہوئی ہے۔“