سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں نمازی کے اِدھر اُدھر جھانکنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو اُچکنا ہے جسے شیطان بندے کی نماز سے اُچک لیتا ہے۔“ جناب عبیداللہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نماز میں التفات کے بارے میں (میں نے سوال کیا۔)
عروہ سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عبد اللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کو امامت کراتے تھے، (ایک دن) وہ آئے تو اقامت ہو چکی تھی، تو اُنہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھا دے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جب نماز کا وقت ہو جائے اور قضائے حاجت کی ضرورت بھی پیش آجائے تو پہلے پیشاب پاخانے سے فارغ ہو لیا کرو۔“ یہ ابوکریب کی حدیث ہے، جبکہ تمام راویوں کی احادیث کے متن کا معنی ایک ہی ہے۔
جناب عبداللہ بن ابی بکر کہتے ہیں ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھے تو کھانا لایا گیا، پس حضرت قاسم نے اٹھ کر نماز شروع کر دی، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کھانے کی موجودگی میں نماز نہ پڑھی جائے اور نہ اس حال میں (نماز پڑھے) کہ پیشاب و پاخانے کو روک رہا ہو ـ“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رات کا کھانا حاضر ہو جائے اور نماز بھی کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رات کا کھانا (سامنے) رکھ دیا جائے اور نماز کے لئے اذان دے دی جائے تو تم پہلے کھانا کھاؤ (اور پھر نماز پڑھو)۔“ نافع کہتے ہیں کہ ایک رات سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے رات کا کھانا کھایا جب کہ وہ امام کی قرأت سن رہے تھے۔
سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھا رہا ہو تو وہ جلدی نہ کرے حتیٰ کہ اپنی ضرورت و حاجت پوری کرلے، اگرچہ (اس دوران) نماز کھڑی ہو جائے۔“
سیدنا محمودبن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (گھرسے) باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”لوگو، مخفی اور پوشیدہ شرک سے بچو، صحابہ کرام نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، مخفی شرک کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص کھڑے ہوکر نماز پڑھتا ہے تو اپنی نماز کو خوب مزیّن کرتا ہے، لوگوں کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھتا ہے تو خوب محنت و کوشش (سے نمازادا) کرتا ہے، تو یہی مخفی و پوشیدہ شرک ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر تے ہیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار سے بیان کر تے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میں شریکوں سے بہتر ہوں۔“ اور بندار کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ”میں شریکوں کے شرک سے بے پرواہوں۔ لہٰذا جس شخص نے کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی کو شریک بنایا تو میں اس سے بری ہوں، اور وہ عمل اُسی کے لئے ہے جسے اُس نے شریک بنایا تھا۔“ جناب بندار کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”تو میں اس سے بیزار اور لاتعلق ہوں اور اُسے اپنا اجروثواب اسی (شریک) سے مانگنا چاہیے۔“
نا زكريا بن يحيى بن إياس ، حدثنا عبد الله بن يوسف ، حدثنا محمد بن المهاجر ، عن عروة بن رويم ، عن ابن الديلمي الذي كان يسكن بيت المقدس، انه مكث في طلب عبد الله بن عمرو بن العاص بالمدينة، فسال عنه، قالوا: قد سار إلى مكة، فاتبعه فوجده قد سار إلى الطائف فاتبعه فوجده في زرعة يمشي مخاصرا رجلا من قريش، والقريشي يزن بالخمر، فلما لقيته سلمت عليه وسلم علي. قال: ما عدا بك اليوم، ومن اين اقبلت، فاخبرته، ثم سالته، هل سمعت يا عبد الله بن عمرو رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر شراب الخمر بشيء؟ قال: نعم، فانتزع القرشي يده، ثم ذهب، فقال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يشرب الخمر رجل من امتي فيقبل له صلاة اربعين صباحا" نَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ إِيَاسٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ رُوَيْمٍ ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ الَّذِي كَانَ يَسْكُنُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، أَنَّهُ مَكَثَ فِي طَلَبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ بِالْمَدِينَةِ، فَسَأَلَ عَنْهُ، قَالُوا: قَدْ سَارَ إِلَى مَكَّةَ، فَأَتْبَعَهُ فَوَجَدَهُ قَدْ سَارَ إِلَى الطَّائِفِ فَأَتْبَعَهُ فَوَجَدَهُ فِي زُرْعَةٍ يَمْشِي مُخَاصِرًا رَجُلا مِنْ قُرَيْشٍ، وَالْقُرَيْشِيُّ يُزِنُّ بِالْخَمْرِ، فَلَمَّا لَقِيتُهُ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ. قَالَ: مَا عَدَا بِكَ الْيَوْمَ، وَمِنْ أَيْنَ أَقْبَلْتَ، فَأَخْبَرْتُهُ، ثُمَّ سَأَلْتُهُ، هَلْ سَمِعْتَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ شَرَابَ الْخَمْرِ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَانْتَزَعَ الْقُرَشِيُّ يَدَهُ، ثُمَّ ذَهَبَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لا يَشْرَبُ الْخَمْرَ رَجُلٌ مِنْ أُمَّتِي فَيُقْبَلُ لَهُ صَلاةٌ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا"
جناب عروہ بن رویم، ابن دیلمی سے روایت کرتے ہیں جو کہ بیت المقدس میں رہتے تھے، کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی تلاش (اور ان سے ملاقات) کے لئے مدینہ منورہ میں ٹھہرے اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ مکّہ مکرّمہ روانہ ہو گئے ہیں، وہ اُن کے پیچھے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ طائف چلے گئے ہیں، تو وہ اُن کے پیچھے (طائف) گئے تو اُنہیں ایک کھیت میں ایک قریش شخص کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے چلتے ہوئے دیکھا۔ جبکہ قریشی کے بارے میں شرابی ہونے کا گمان کیا جاتا تھا۔ پھر جب میں اُن سے ملا تو میں نے اُنہیں سلام کیا، اور اُنہوں نے بھی مجھے سلام کیا اور انہوں نے پوچھا کہ آج تمہیں کس چیز نے دوڑایا ہے اور کہاں سے آرہے ہو؟ تو میں نے اُنہیں بتایا (کہ مدینہ سے آپ کی ملاقات کے لئے آ رہا ہوں) پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ اے عبداﷲ بن عمرو، کیا آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب پینے کے متعلق کوئی فرمان سنا ہے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ تو قریشی اپنا ہاتھ چھڑا کر چلا گیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ” میری اُمّت کا جو شخص بھی شراب پیئے گا تو چالیس دن تک اُس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔“
سیدنا جابر بن عبدﷲ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تین شخص ایسے ہیں کہ اُن کی نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ ُان کے نیک عمل اوپر چڑھتے ہیں، بھگوڑا غلام حتیٰ کہ وہ اپنے آقاؤں کے پاس لوٹ آئے اور اپنا ہاتھ اُن کے ہاتھوں میں دے دے (یعنی اُن کا فرماں بردار بن جائے) اور وہ عورت جس کا خاوند اُس پر ناراض ہو حتیٰ کہ وہ راضی ہو جائے، اور نشے میں مد ہوش شخص حتیٰ کہ اُسے ہوش آجائے۔“